میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔۔ کچھ بیان
کرنا چاہتا ہوں۔۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں نہ انداز ۔۔ بس اک کہانی ہے میری
کہانی۔۔
کہانی ہے ماں باپ کی یاد کی۔۔انکے پیار کی-- اور انکے بغیر زندگی کی۔۔
میں تو اک گلستاں بہاراں کا حصہ تھا۔۔میں بچہ تھا شان والا۔۔نخروں
والا۔۔مگر ماں باپ گزرے تو نخرے بھی لے گئے۔۔شان بھی۔۔
میں 10 سال کا تھا زندگی نے درد دیا۔۔امتحان لیا۔۔والدين فوت ہو
گئے۔۔کارواں اجڑ گیا۔۔
بہت لوگ آئے۔۔ہجوم تھا۔۔مگر میری حالت سمندر کے کنارے کھڑے پیاسے کی سی تھی۔۔
پنجرے ميں بند پرندے کی سی تھی۔۔
ميری خالہ آئیں میں ان سے لپٹ کے رو دیا۔۔بہت رویا اور بہت اونچی۔۔
رشتہ داروں نے ساتھ لے جانا چاہا میں نے انکار کر دیا۔۔پھر چچا کے گھر گیا
واپس آ گیا۔۔تایا کے گھر گیا واپس آ گيا۔۔مجھے اپنے گھر کی دیواروں سے بھی
پیار تھا۔۔گھر کی دیواروں کو ہاتھ لگا کے بھی امی ابو کی یاد آتی تھی۔۔رونا
آتا تھا۔۔
رشتے داروں کا پیار بدل گیا۔۔لوگوں کا لہجہ بدل گیا۔۔اپنے پرائے ہو گئے۔۔
مجھے یاد ہے میں بیمار ہو کر گر گیا۔۔فرش پر پڑا رہا۔کسی نے نہ اٹھایا۔۔امی
نہیں تھیں۔۔ ابو نہیں تھے۔۔
ھر پل احساس ہوتا ہے۔۔ھر لمحہ احساس ھوتا ہے۔۔
مجھے کبھی کبھار پتے کھانے کی عادت تھی۔۔ماں گزری تو عادت بن گئی۔۔ابو گزرے
تو خوراک بن گئی۔۔بھوک لگتی اور کھانا نہیں ہوتا تھا تو میں پتے کھا لیتا
تھا۔۔
ماں ماں ہی تھی۔۔اور باپ ہی تھا۔۔
ماں جب زندہ تھی۔۔ہاتھ پر مٹی بھی لگ جاتی تھی تو ماں ڈوپٹے سے صاف کر دیتی
تھیں۔۔اب خون بھی نکل آئے تو کوئی نہیں پوچھتا۔۔کوئی پاس نہیں ہے نا۔۔ماں
نہیں ہے نا۔۔باپ نہیں ہے نا۔۔۔
ایک دن سکول میں تھا۔۔ٹیچر نے والدین کا مضمون پڑھایا۔۔مجھے رونا آ گیا۔۔
میں نے باہر جانا چاہا۔۔ ٹیچر نے منع کر دیا۔۔میں بھاگ گیا۔۔باتھ روم میں
جا کر رونا شروع کر دیا۔۔آنسو تھے۔۔سسکیاں تھی۔۔
میری زندگی کا سب سے دردناک لمحہ وہ تھا جب کسی نے کہا "حیدر تمہاری تو ماں
ہی نہیں ہے تم کیا کرو گے"۔۔ وہ کرب تھا کہ زندگی میں سایہ کی طرح ساتھ
ہے۔۔۔
میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ماں باپ کا لا حاصل پیار ہے۔۔ھر خوشی میں،
ھر غم میں یاد آتے ھیں۔۔ مگر کیا کروں؟۔۔کیا کر سکتا ہوں؟۔۔میں اور نہیں
لکھ سکتا۔۔بس آنسو بہا سکتا ہوں اور یاد کر سکتا۔۔
پھول ہوں میں اجڑی ہوئی بہاروں کا
نہ جانے مستقبل کیا ہو گیا
اپنوں کی تو بس یاد ہے ساتھ میرے
نہ جانے قیامت کب ہو گی دیدار کب ہو گا |