کاہلوں کی دنیا کے شہنشاہ

ایمان کے اُجالے میں بدی کو پروان نہ چڑھنے دیں.......

میں بڑے دنوں سے اِس سوچ میں تھا کہ کوئی کالم ایسا لکھوں جو روزمرّہ کی خبروں اور تبصروں سے ذرا ہٹ کر ہو آج اتفاق سے یہ موقع ہاتھ لگ گیا ہے تو میں نے چاہا کہ اپنی اُس سوچ کو جلد ازجلد عملی جامہ پہناؤں اِس سے پہلے کہ کوئی من چلی اور چلبلی سی کوئی خبر آنکھوں کو چکما دے کر میری سماعت سے ٹکرا کر دل کو للچاتی اور بل کھاتی ہوئی آئے اور مجھے مجبور کرے کہ میں اِس پر اپنا کالم لکھ کر اپنے دل کو ٹھنڈا کروں اور حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ضمیروں کو جھنجوڑوں کہ سب لکھاری ایسا ہی کرتے رہے ہیں ....اور کر رہے ہیں بس ....کیونکہ آج کل ہمارے یہاں یہی کچھ ہو رہا ہے جتنے بھی لکھنے والے ہیں وہ اپنے تئیں تو بہت اچھا اور عمدہ لکھ رہے ہیں مگر معاف کیجئے گا! افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ لکھاری پرانا ہو یا نیا وہ آج جن حکمرانوں اور سیاستدانوں کی رہنمائی کے لئے اپنے قلم کو اپنے خونِ جگر کی سیاسی سے بھر کر آج جو کچھ بھی وہ اپنے قلم کے ذریعے تحریر کر رہا ہے اُن لکھاریوں سے حکمران اور سیاستدان کوئی رہنمائی لینا ہی نہیں چاہتے وہ (حکمران اور سیاستدان) تو بس یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ عقل اور ذہانت کا سارا خزانہ اِن کی مٹھی میں ہے جو یہ کریں ...؟سوچیں....؟اور کہیں....؟غرض کہ اِن کا ہر قول و فعل سب بہتر ہے اور یہ ملک کی ساڑھے سولہ کروڑ عوام کے ہر قول و فعل سے ارفع و اعلیٰ ہے اور باقی سب.....بیکار اور بے مقصد ہے اور خاص طور پر لکھاری اور اینکرز تو یہ سب کے سب ہی سیاسی فنکار ہیں جو حکمرانوں خاص طور پر موجودہ حاکموں اور سیاستدانوں کے لئے اپنی فنکاری سے اِن کے حکومتی امور میں پریشانیاں پیدا کر رہے ہیں۔

جبکہ اُدھر ہمارے ہی ملک کی دو فنکار بہنوں سجنا اور آشا کا اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہنا ہے کہ ایکٹنگ میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کا کوئی ثانی نہیں ہے اِس سے تو یہ مطلب ظاہر ہوا کہ حکمران اور سیاستدان دونوں ہی عوام کے سامنے سجے اسٹیج پر آ کر اور پارلیمنٹ میں جو ایکٹنگ کر رہے ہوتے ہیں ایسی ایکٹنگ تو کوئی بڑے سے بڑا اسٹیج، تھیٹر، ریڈیو، ٹی وی اور فلم کا فنکار بھی نہیں کرسکتا جتنی اچھی اور عمدگی سے اداکاری ہمارے ملک کے حکمران اور سیاستدان اِن جگہوں پر کر رہے ہوتے ہیں۔

بہرحال! آج مجھے دلی طور پر بڑا اطمینان محسوس ہو رہا ہے کہ میں کوشش کر رہا ہوں کہ اپنے اِس کالم کو کسی خبر سے دور رکھوں اور اپنے کالم کو اُس طرح تحریر کروں جس کے لئے دل بیقرار اور مضطرب ہے سو میں اپنے آج کے کالم کی ابتدا اِس حکایت سے کر رہا ہوں کہ تپتی دوپہر میں سیب کے باغ میں ایک درخت کی چھاؤں میں ایک شخص لیٹا ہوا تھا اور سورج بھی اپنی تابانیاں (آگ کے گولے )برسا کر آہستہ آہستہ مغرب کی جانب ڈھلتے جارہا ہے مگر یہ شخص تھا کہ اِسے سونے سے ہی فرصت نہیں تھی جبکہ دوپہر کے کھانے کا بھی وقت ہوچکا تھا عین اِسی وقت درخت کی ٹہنی سے ٹوٹ کر ایک سیب اِس کے پیٹ پر آگرا اور یوں اِس کی اچانک آنکھ کُھل گئی اِس نے دیکھا کہ ایک بڑا سا سیب اِس کے پیٹ پر پڑا ہے اور اِسے بھوک بھی بڑی شِدّت کی لگ رہی ہے مگر پھر بھی وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر کے نیچے کئے یوں ہی لیٹا رہا اور اپنے پیٹ پر پڑے سیب کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا رہا اور اپنی بھوک کی شِدّت کو برداشت کرتا رہا بالآخر!اِس کی مراد پوری ہوئی اِسے اپنے قریب کسی کے آنے کی سرسراہٹ محسوس ہوئی جیسے جیسے کسی کے آنے کی آواز تیز ہوتی گئی اِس کی بھوک کی شِدّت میں اضافہ بھی ہوتا گیا اور پھر اِس نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار ہے جو اِس کے قریب سے گزر رہا ہے اِس نے گُھڑ سوار شخص کو آواز دی .... ”اے بھائی!...اے بھائی !ذرا رک جاؤ....اِس کی درد اور کراہٹ سے بھری آواز سُن کر گھوڑے پر سوار شخص کوئی آٹھ دس فٹ کے فاصلے پر جا کر اپنا گھوڑا رُوک کر کھڑا ہو گیا اور لیٹے ہوئے شخص سے مخاطب ہوکر بولا کہ ....ہاں بھائی بولو! تمہیں کیا تکلیف ہے....؟میں تمہیں کیا مشورہ دے سکتا ہوں....؟گُھڑ سوار شخص کے یہ ہمدردانہ الفاظ سُن کر لیٹے ہوئے شخص نے کہا کہ”اے گُھڑ سوار بھائی! اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو اور کوئی تکلیف نہ گزرے ....؟تو میرا ایک انتہائی معمولی سا کام کر دو گے....؟گُھڑ سوار اتنا سُن کر خاموش رہا.....پھر لیٹے ہوئے شخص نے کہا کہ”بھائی !میرے پیٹ پر پڑا یہ سیب جو تم دیکھ رہے ہو کیا....؟تم مجھے اٹھا کر دے سکتے ہو ....مجھے بڑی زوروں کی بھوک لگی ہے تمہارے اِس ذرا سے کام سے میں بھوکا کچھ کھا لوں گا......“‘ابھی لیٹا ہوا شخص اور کچھ بولتا....کہ گُھڑ سوار نے لیٹے ہوئے شخص سے سوال کیا اور پوچھا کہ ...”اے لیٹے ہوئے بھائی !کیا تیرے دونوں ہاتھ نہیں ہیں جو تو اتنا بھی اپنے لئے نہیں کرسکتا کہ اپنے پیٹ پر پڑے سیب کو اٹھا کر کھا لے اور اپنی بھوک مٹا لے.....““‘اِس سے پہلے کہ گُھڑ سوار اور مزید کچھ کہتا...لیٹے ہوا شخص ترنت بول پڑا کہ”نہیں نہیں بھائی ایسا کچھ نہیں ہے اللہ کا فضل ہے کہ میرے دونوں ہاتھ سلامت ہیں .....“اِس پر گھوڑے پر سوار شخص نے کہا کہ” تو پھر تو اپنے ہاتھ استعمال کیوں نہیں کر رہا ہے ....؟اور اِس کے ساتھ ہی پھر گُھڑ سوار شخص نے کہا ہت تری کی ہم تیرے اِس کام کے لئے اپنے گھوڑے سے اُتریں اور آٹھ دس فٹ چل کر تیرے پاس آئیں ....جھکیں اور تیرے کو سیب اٹھا کر دیں اور تجھے سیب کھلا کر آئیں اور پھر اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی منزل کو روانہ ہوں.....اے کاہل اور سُست شخص شائد تجھے نہیں معلوم کہ ہم تجھ سے بھی بڑے کاہل اور سُست انسان ہیں کیونکہ اَب سے کچھ دیر پہلے ہم بھی برابر والے باغ میں تیری طرح سے لیٹے ہوئے سو رہے تھے کہ اِسی دوران ہمارے منہ پر ایک کُتا پیشاب کر گیا ہم یہ جانتے ہوئے بھی کُتا ہم پر پیشاب کر رہا ہے ہم اُسے بھاگا نہیں سکے تو اَب تو ہی بتا کہ ہم تیری کیا مدد کرسکتے ہیں......؟ کیونکہ یہ بات تیرے اور میرے عمل سے ثابت ہوگئی ہے کہ ہم دونوں ہی کاہلوں کی دنیا کے شہنشاہ ہیں جو اپنا کوئی کام خود سے نہیں کرسکتے....جب کہ ہمارے پاس اللہ کی دی ہوئی تمام نعمتیں اور سہولتیں ہیں اور وہ تمام وسائل بھی اگر ہم دونوں اپنی کاہلی اور سستی کو دفن کر کے اِنہیں استعمال کریں تو کیا مجال ہے کہ ہم اپنے مسائل خود حل نہ کرلیں اور اِسی کو ہی دیکھ لو کہ اللہ نے تمہیں دونوں ہاتھ دیئے ہیں اور تم اِنہیں خود اپنے لئے ہی استعمال نہیں کر رہے ہو اور یہاں لیٹے لیٹے یہ انتظار کر رہے ہو کہ کوئی آئے اور تمہارے پیٹ پر پڑے ہوئے اِس سیب کو اٹھا کرتمہارے منہ میں ڈالے تو تم اِسے کھاؤ اور اپنے پیٹ میں لگی بھوک کی آگ کو بجھاؤ.....اور اِسی طرح میری کاہلی اور سستی کا یہ عالم ہے کہ میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ کُتا مجھ پر پیشاب کر رہا ہے میں اُسے دہت.... دہت اور ہش.... ہش کر کے نہ بھگا سکا اور اِس سے زیادہ میری اور کیا کاہلی اور سُستی ہوگی کہ میں اپنے منہ سے یہ الفاظ بھی ادا نہ کرسکا اور کُتا خاموشی سے اپنا کام کر کے چلا گیا۔

اور اِس طرح پھر گُھڑ سوار شخص کی یہ ساری باتیں سُننے کے بعد لیٹے ہوئے شخص کو اپنے اُوپر ندامت محسوس ہوئی اور اِس نے اُسی وقت یہ تہیہ کرلیا کہ اگر اُسے زندگی میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اُسے کاہلی اور سُستی کا دامن چھوڑنا ہوگا اِس کے بعد لیٹا ہوا شخص تیزی سے اٹھا اور اِس نے جلدی سے اپنے پیٹ پر پڑے سیب کو اٹھایا اور اِسے کھا کر اپنی بھوک مٹائی اور گُھڑ سوار کے قریب آکر بولا”کہ اے بھائی! تمہارا مجھ پر بڑا احسان ہے کہ تم نے میری آنکھیں کھول دی ہیں اور میری آپ سے بھی یہی درخواست ہے کہ اَب آپ بھی اپنی کاہلی اور سُستی وغیرہ چھوڑیں اور اپنے آپ کو ایک چاک و چوبند انسان بنائیں اور اپنی باقی زندگی ایک کامیاب طریقے سے گزاریں اور اپنے تمام وسائل اپنی مدد آپ کے تحت خود استعمال کریں نہ کسی سے اپنے معاملات میں مدد طلب کریں اور نہ ہی یہ اُمید رکھیں کہ ہم کسی کو اپنے وسائل استعمال کرنے کی اجازت دیں گے تو کوئی ہمارے فائدے کی سوچے گا ہرگز نہیں کیونکہ اِس میں بھی اگلے کے اپنے مفادات وابستہ ہوں گے وہ ہمارے سے زیادہ اپنے فائدے کی سوچے گا اور ہمارے ہی وسائل سے کما کر اپنی کمائی میں سے ہی ہمیں بھیک اور خیرات جتنی رقم دے ہماری مدد کرے گا۔ اور ساری دنیا میں یہ گاتا پھرے گا کہ میں اِس کی مدد کر رہا ہوں اِس کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی یہ چاہئے کہ یہ بھی اپنے ملکی وسائل اپنی مدد آپ کے تحت خود ہی استعمال کریں اور تھر کے کوئلے کے ذخائر سے خود کوئلے نکالنے کا بندوبست کریں ناں کہ کسی اور کو اِن ذخائر کو دے کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں کہ کوئی اِنہیں نکال کر ہماری مدد کرے گا.....؟جبکہ کوئی دوسرا ایسا کچھ نہیں کرے گا جیسا ہمارے حکمران سوچ رہے ہیں لہٰذا اَب ضرورت اِس امر کی ہے کہ اَب ہمیں یہ تہیہ بھی کرلینا چاہئے کہ ہم ہمت کریں اور کاہلی اور سُستی کو چھوڑیں اور اپنے وسائل خود استعمال کرتے ہوئے یہ کرنا چاہئے کہ ہم ایمان کے اُجالے میں بدی کو نہ پروان چڑھنے دیں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 890302 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.