پاکستان کی سیاست میں کچھ چیزیں بہت عام پائی جا تی ہیں
ذرا سی فوجی آہٹ ہوئی تو جمہوریت کو خطرہ ہے ، جبکہ پاکستان میں رائج الوقت
جمہوریت خود ایک بہت بڑا خطرہ ہے جس میں عام عوام کے مسائل اور ملکی مفادات
کو پس پشت ڈال کر سیاسی کشتیاں عروج پر ہیں اسی لیے کہتے ہیں کہ ایسی
جمہوریت خود اپنے لئے ایک خطرہ ہے ، دوسری مشہور چیز دھرنا ہے جس کے ذریعے
اپوزیشن حکومت کو اپنی پاور کے بارے میں باور کرواتی رہتی ہے
پاکستانی دھرنوں کا بھی بالواسطہ تعلق جمہوریت کے لئے خطرہ سمجھا جاتا ہے
اور اپوزیشن اسی طاق میں رہتی ہے کہ کو ئی ایشو ہاتھ آئے جس سے دھرنوں کو
دوام بخشا جائے پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا دھرنا ایک جج کو بحال
کروانے کے بعد عمران خان نے اور ڈاکٹر قادری نے دیا پہلا دھرنا تو کامیاب
ہوا اور افتخار چوہدری کو بحال کروالیا گیا لیکن باقی دھرنے کسی بھی منطقی
انجام تک نہ پہچ پائے کچھ لوگ اس کا نتیجہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنا سمجھتے
تھے لیکن سب غلط ثابت ہوئے . اس کے حکومت کے ایک پر سکون وقت آیا لیکن پھر
پاناما لیکس نے حکومت کی نیندیں حرام کردیں الزام تو وزیر اعظم کے ذاتی
خاندان پر آیا لیکن تمام کی تمام حکومتی مشینری حرکت میں آگئی جیسے سب کو
بہت بڑا بونچال آتا ہوا محسوس ہوا ہو،
سب حکومتی مشیر وزیر ملکر بیٹھے اور پلان بنایا کہ وزیر اعظم اور چند سینئر
وزراء کو بیرون ملک بھیج دیا جائے بلکہ وزیر اعظم ہاؤس ہی چرچل ہوٹل میں
منتقل کر دیا جائے تب تک پاکستان میں منصوبہ تیار کیا جائے کہ اب پاناما
لیکس پر کیسے کلین چٹ حاصل کی جائے . وزیر عظم کی ہو نہار ٹیم بیٹھی کمیشن
میں تو ٹیم پہلے ہی بہت ماہر تھی اور یہ بھی جانتی تھی کہ دھاندلی کمیشن سے
کتنی آسانی سے نجات حاصل کرلی تھی اب پاناما کمیشن پر بھی کچھ ایساہی ترتیب
دیا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے مطلب سب کو چپ بھی لگ
جائے ور وزیر اعظم بمعہ اہل عیال صاف شفاف قرار پائیں.
ٹیم نے پھرتی دکھائی پلان تیار کیا اور وزیر اعظم کو متعین وقت سے پہلے ملک
واپس بلا لیا ذرائع کے مطابق منصوبہ وزیر اعظم کی مرکزی ٹیم جس میں اسحاق
ڈار اور فواد حسن سر فہرست ہیں ان کی جانب سے ایسا منصوبہ تشکیل دیا گیا جس
میں میاں نواز شریف کو کلین چٹ دی جائے گی بالکل اسی طرز کا منصوبہ جو
دھاندلی کمیشن میں تشکیل دیا گیا تھا -
اس وقت بھی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے جس میں حکومت کی جانب سے
اعلیٰ عدلیہ کو بھیجے جانے والے ٹرمز آف ریفرنس کے ذریعے کمیشن کے متوقع
نتائج میں پیچیدگیا پیدا کی جا ئیں گی جو اپوزیشن میں شاید ہی کسی کی سمجھ
میں آ سکیں-
جبکہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار اور ایڈیشنل رجسٹرار ڈی ایم جی بیوروکریٹس جو
کہ وزیر اعظم کی ٹیم کے روحرواں فواد حسن کی جانب سے مقرر کیے گئے ہیں
دونوں تقرریاں عدالتی ہو نے کے باوجود وزیر اعظم ہاؤس سے چلائی جاتی ہیں -
اور دونوں کی قسمت کا فیصلہ وزیر اعظم کے پاس ہے نہ صرف یہ بلکہ اس ضمن میں
کچھ قانونی ماہریں سمیت ایک سابق چیف جسٹس کی خدمات بھی حاصل کی گئیں ہیں
الیکشن دھاندلی میںبنائے جانے والے کمیشن کی فاتح ٹیم کو یہ ٹاسک بھی اسی
امید اور منظم منصوبہ بندی کیساتھ فراہم کیا گیا ہے کہ وہ اس کمیشن میں بھی
فتح حاصل کرکے اپوزیشن اور عوام کی آنکھوں میںدھول چونکنے میں کامیاب ہو
جائیں گے-
قارئین کرام ساری منصوبہ بندی وزیر اعظم کی ٹیم نے ان دنوں ہی مکمل کر لی
تھی جب وہ بیرون ملک دورے پر تھے جب انہیںاس بات کی یقین دہانی کرائی گئی
کہ سب ہمارے حق میںہو گا تو وہ خوشی خوشی وطن واپس لوٹے اور پھر اپنی مرضی
کے ٹرمز آف ریفرنس بنائے خط لکھے اور سب سے بڑی بات چیف جسٹس پاکستان انور
ظہیر جمالی سات دن کے دورے پر اٹلی روانہ ہو گئے-
اس کی بجائے کہ ایک شفاف کمیشن بنتا میاں نواز شریف کی آف شور کمپنیز کا
پیسہ ملک میںواپس آتا ان کا جرم ثابت ہوتا سب کچھ اس کے برعکس کرنے کے لئے
وزیر اعظم کو معصوم اور باکردار ثابت کرنے کے لئے سیٹ سجا دیا گیا ہے جس کا
نتیجہ روایتی انداز میںسب کے سامنے ہو گا- |