بھارت کا ایک بار پھر مذاکراتی عمل سے راہ فرار؟

 سیکرٹریز خارجہ کی ناکام ملاقات.... بھارت کا ایک بار پھرمذاکراتی عمل سے راہ فرار؟

پاکستان بھارت سیکرٹریز کی ہونے والی ملاقات اگرچہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی، لیکن اس میں کئی معاملات زیر بحث آئے ہیں۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے کہا ہے کہ جن معاملات پر پاکستان کو تشویش لاحق ہے، وہ مکمل تفصیل کے ساتھ اور دو ٹوک انداز میں بھارت کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں۔ نئی دہلی کو یہ بھی بتا دیا کہ پاکستان بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعہ پرامن انداز میں مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کا حل چاہتا ہے۔ نئی دہلی میں ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کی سائیڈ لائن پر بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ہونے والی ملاقات میں جامع مذاکراتی عمل کی بحالی، کل بھوشن کی گرفتاری، پٹھان کوٹ حملے، سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کی تحقیقات اور باہمی دلچسپی کے امور زیر بحث آئے۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے بھارتی ہم منصب سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ممالک کو مسلسل، بامعنی اور جامع مذاکرات پر کاربند رہنا چاہیے اور بھارتی سیکرٹری خارجہ کو جلد پاکستان کا طے شدہ دورہ کرنا چاہیے۔ مبصرین کی نظر میں پاک بھارت سیکرٹریز کی ملاقات کا نتیجہ خیز ثابت نہ ہونا دونوں ملکوں کے مابین ہونے والے مذاکرات کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت جامع مذاکرت کا حصہ نہیں، دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات کے طریقہ کار کو ابھی حتمی شکل نہیں دی گئی۔

مبصرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان رسمی ملاقاتوں سے بڑھ کر مذاکراتی عمل میں تسلسل اور سنجیدگی کا مظاہرہ حالات کا ناگزیر تقاضا ہے۔ ملاقات میں سیکرٹری خارجہ نے بھارتی ہم منصب کو باور کرایا کہ کشمیر اب بھی فوری طور پر حل طلب بنیادی مسئلہ ہے، یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے اور سیکرٹری خارجہ نے کراچی اور بلوچستان میں ”را“ کی مداخلت کا معاملہ کھل کر بھارت کے سامنے اٹھایا اور پاکستان میں ”را“ کی تخریبی کارروائیوں اور ”را“ کے حاضر سروس افسر کل بھوشن یادیو جو ”را“ کے پاکستان میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے اور اعترافی بیان کے بارے میں بھی بات ہوئی اور سیکرٹری خارجہ نے بھارت کو پاکستان میں تخریبی کاررائیاں بند کرنے پر زور دیا ہے، لیکن اس کے باوجود بھارتی سیکرٹری خارجہ کی طرف سے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی کہ آئندہ ”را“ کی سرگرمیاں روکی جائیں گی اور پاکستان میں دہشت گردی بڑھانے کے لیے کیے گئے اقدامات بھی معطل کر دیے جائیں گے، بلکہ بھارت نے الٹا پاکستان سے یہ فرمائش کر دی کہ کل بھوشن یادیو تک رسائی فراہم کی جائے اور تمام شواہد کے باوجود بھارت یہ بات ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے کہ وہ پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہے، حالانکہ بھارتی ایجنٹ کی گرفتاری کے بعد توبھارت کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی بڑھانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ بھارت روز اول سے پاکستان کے لیے درد سر بنا ہواہے۔ بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ پہلے پاکستان دشمنوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو دو لخت کیا اوراس کے بعد بھی جب بھی موقع ملا، ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت پاکستان کو نقسان پہنچانے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بناتا ہے اوراس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ملک میں بدامنی پھیلانے میں بھارت ملوث ہے۔ بھارت کے تخریبی اقدامات خطے کو کسی خطرناک انجام سے دوچار کرسکتے ہیں، اس لیے اسے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے سے باز رہنا ہو گا۔

حقیقت یہ ہے کہ جب سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی اعترافی ویڈیو اور دیگر بھارتی ایجنٹوں کی بلوچستان اور دیگر شہروں سے گرفتاری عمل میں آئی ہے، اس وقت سے بھارت پریشان ہے اور وہ بڑے سفارتی بحران سے نمٹنے کی کوشش میں ان زمینی حقائق اور بلوچستان کی شورش زدہ صورتحال سے لاتعلقی کے اب بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ اس معاملے میں بھارت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کلبھوشن کا معاملہ کوئی مفروضہ نہیں ہے، بلکہ حقیقی واقعات سے جڑا ہوا معاملہ ہے، جو بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا واضح ثبوت ہے۔ اسے پاکستانی علاقے سے حراست میںلیا گیا ہے اور اس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اعترافی بیان کے لیے اس پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ بھارت کو اپنے تخریب کار ایجنٹ کی اعترافی ویڈیو کے مندرجات پر جلد پاکستان کو جواب دینا چاہیے، لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان سے تعلقات کی بحالی کی بات کرتے ہوئے بھی بھارت اپنے ذمے عاید ہونے والی کسی بھی شرط یا وعدے کی پاسداری نہیں کر رہا، اس کی سفارتی کوششوں کا لب لباب یا نکتہ عروج حقائق سے گریز اور پاک بھارت تعلقات کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوںکو دور کرنا نہیں ہے، بلکہ رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ کل بھوشن یادیو کے معاملے کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر کرے اور اقوام عالم کو بتایا جائے کہ کل بھوشن یادیو محض جاسوس نہیں، بلکہ ایک تخریب کار اور وار کریمینل ہے، جو پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری کوششوں کو ناکام بنانے کی سازش میں ملوث ہے۔ اس سے کم از کم دنیا پر تو یہ واضح ہوجائے گا کہ بھارت کا پاکستان کے خلاف واویلا سراسر پروپیگنڈا ہے اوربھارت خود پاکستان کے خلاف دہشتگردی میں ملوث ہے۔

پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات میں اگرچہ جامع مذاکرات بحال کرنے کے سلسلے میں کوئی بڑی پیش رفت نہ ہو سکی، لیکن اس ملاقات میں کم از کم یہ ضرور ہوا ہے کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ ”را“ کے افسر کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کا معاملہ اٹھا دیا اور پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے اپنے بھارتی ہم منصب پر واضح کر دیا کہ ”را“ کی بلوچستان اور کراچی میں تخریب کاریاں باہمی تعلقات میں رکاوٹ ہیں اور یہ کہ بھارتی خفیہ ایجنسی کی مسلسل مداخلت کا سلسلہ بند کیے بغیر خطے میں پائیدار امن کا قیام یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے، اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ملک میں دہشتگردی کے متعدد واقعات میں ”را“ کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی ہیں، اس کے باوجود اب تک پاکستان بھارت کی تخریب کاری کے معاملے میں تقریباً خاموش ہی رہا ہے، بلکہ بھارتی جاسوس کی گرفتاری پر وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے کوئی واضح ردعمل بھی ظاہر نہیں کیا گیا، جبکہ یہی جاسوس اگر پاکستان کا ہوتا اور بھارت میں پکڑا جاتا تو بھارتی حکومت نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا۔ اس ملاقات میں پاکستان نے معذرت خواہانہ طرز ترک کرتے ہوئے اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے بھارت سے دو ٹوک بات کرنے کی ہمت کی ہے۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان ہمیشہ مذاکرات کے ذریعے بھارت کے ساتھ جاری تنازعات کے حل کے لیے آمادہ رہا ہے، اسی بات کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے پر یقین رکھتا ہے، کیونکہ صرف اسی سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین نصف صدی سے چلتے آرہے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لیے 1998ءسے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا، لیکن 1999ءمیں کارگل کا واقعہ پیش آگیا، جس کے بعد مذاکرات کا سلسلہ معطل ہوگیا۔ پھر2004 ءاور2005 ءمیں جامع مذاکرات کے ادوار ہوئے، جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے اور تمام رابطے منقطع ہوگئے۔ تاہم2010 ءمیں ایک بار پھر جامع مذاکرات کا آغاز ہوا، لیکن یہ بے نتیجہ مذاکرات بھی2012 ءمیں ختم ہوگئے۔ پاکستان ہمیشہ بھارت سے وسیع تر مذاکرات کے آغازکے لیے کہتا آرہا ہے، لیکن ہمیشہ بھارت کی جانب سے ہی مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا سامان کیا جاتا ہے اور ہر سطح کے پاکستان بھارت مذاکرات کی میز ہمیشہ بھارت کی جانب سے الٹائی جاتی رہی، جو یواین قراردادوں کے باوجود کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور کسی بھی سطح کے مذاکرات میں اسے کشمیر کا لفظ سننا بھی گوارا نہیں ہوتا، چنانچہ کشمیر کا ذکر آتے ہی وہ کوئی نہ کوئی بہانہ تراشی کرکے جاری مذاکرات کو ادھورا چھوڑ دیتا ہے یا مذاکرات کی نوبت ہی نہیں آنے دیتا۔ واضح رہے کہ پاکستان نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو کم کر کے مذاکرات کا سلسلہ ایک بار پھرشروع کرنے کی سعی کی ہے،جبکہ اس سے پہلے سال رواں 14-15 جنوری کو دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان باہمی مذاکرات ہونے والے تھے، لیکن دو جنوری کو بھارتی فضایہ کے پٹھان کوٹ ائیر بیس پرحملے کی وجہ سے یہ مذاکرات منسوخ کردیے گئے تھے۔

بھارت ہمیشہ اشتعال انگیزی اورہٹ دھرمی سے کام لیتا ہے۔ کبھی تو پاک بھارت سرحد پر بلااشتعال فائرنگ کر کے پاکستان کے نہتے باسیوں کو شہید کر دیتا ہے اور کبھی پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتیں کرواتا ہے۔ لگتا ہے کہ بھارت مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے کے حق میں ہے ہی نہیں، اس پر جنگی جنون سوار رہتا ہے، اسی لیے وہ ہمیشہ سے اسلحہ جمع کرنے میں مشغول ہے۔ گزشتہ روز کی خبر کے مطابق بھارت روس سے ایس فور ہنڈریڈ دفاعی میزائل سسٹم خریدے گا۔ بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے کہا بھارت نے روس کے ساتھ ایس فور ہنڈریڈ دفاعی میزائل سسٹم کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ روس کا دفاعی میزائل سسٹم ایس فور ہنڈرڈ جدید قسم کا سسٹم ہے۔ جو تین مختلف قسم کے میزائلوں کا حامل ہے جو فضا میں اپنے ہدف کو چاہے وہ شارٹ رینج ہو یا لانگ رینج تباہ کر سکتا ہے۔ یہ میزائل، بیلیسٹک اورکروز میزائلوں کا پتہ لگا کر انھیں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔دوسری جانب اگر پاکستان نے امریکا سے ایف 16 طیارے لینے کا معاہدہ کیا تو بھارت نے واویلا شروع کردیا اوراس معاہدے کو ختم کروانے کی ہر کوشش کی،جس کے نتیجے میں امریکی حکام نے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی خریداری کی مد میں دی جانے والے امداد روک دی ہے اوراس پابندی کے نتیجے میں پاکستان کو آٹھ ایف سولہ طیارے خریدنے کے لیے سترکروڑ ڈالررقم خودادا کرنا پڑے گی۔
Abid Mehmood Azzam
About the Author: Abid Mehmood Azzam Read More Articles by Abid Mehmood Azzam: 869 Articles with 740862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.