ننگے سادھو اور ننگے مجذوب ولی: قائین کرام ! جب حقیقت
ایک ہو تو محض نام بدلنے سے کیا ہوتا ہے-ہمارے یہاں قلندر‘قطب‘ غوث ‘داتا
‘ابدال اور مجذوب ولی بنائے گئے اور مجذوبوں کے کپڑے اتار دئیے گئے-تو یہی
چیز ہندوں میں ہمیں اس طرح ملتی ہے کہ ان کے ولیوں/بزرگوں کو سادھو
‘سنیاسی‘یوگی‘تیاگی‘ گرو اور باوا کہا جاتا ہے-اسی طرح ان سادھوں میں بعض
ایسے سادھو ہوتے ہیں جو بالکل مادر زاد ننگے پھرتے ہیں-ان مادر زاد ننگے
سادھوں کو”ڈگمبر“ کہا جاتا ہے -ان سادھوں کا ایک میلہ ہر بارہ سال بعد
انڈیا میں الہ آباد کے قریب”پریاگ “ کے مقام پرشمالی ہندوستان میں منعقد
ہوتا ہے-(یوٹیوب پر اس میلے کی ویڈیو موجود ہیں)یہاں تین دریا گنگا ‘جمنا
اور سرسوتی باہم ملتے ہیں-شمشان بھومیاں...غلیظ سادھو اور پیر: یہاں ہندوں
کی”شمشان بھومی“بھی ہے اور ان کی شمشان بھومیاں عموما دریا کے کنارے پر
ہوتی ہیں-یہاں ہندو لوگ اپنے مردے آگ میں جلاتے ہیں-مردہ جو آگ میں جلتا ہے
تو اس جلنے کو ”چتا “ کہا جاتا ہے-یہ سادھو اس چتا پر کھانا پکا کر کھاتے
ہیں-مردے کی کھوپڑی کو بطور برتن کے استعمال کرتے ہیں-ان کے ہاں پیشاب پینا
تو معمولی بات ہے-یہ تو اپنا پاخانہ ‘گندگی اور غلاظت تک کھا جاتے ہیں-ایسے
ننگے سادھو ہندوں کے ہاں انتہائی متبرک ترین لوگ ہوتے ہیں- قارئین کرام
!یہی کچھ درباروں خانقاہوں اورآستانوں پر ولی'پیر'
سرکاراور گدی نشین بننے کیلئے ہوتا ہے-ذرا ملاحظہ کیجئے کتاب ”شاہراہ بہشت
“.... جس میں بھائی طارق محمود کی آپ بیتی کہ جو داتا دربار پہ ولایت کی
منزلیں طے کرنے جاتا ہے‘ تو اس کا ننگا مرشد ایک روز اس کے ہاتھ میں پیالی
تھما دیتا ہے‘اس میں تھوکنا شروع کردیتا ہے-بلغم کا بیمار مریض تو وہ تھا
ہی- چنانچہ اس ظالم نے تھوک تھوک کروہ پیالی آدھی کر دی اور پھر کہا ”اسے
پی جاو- بھائی طارق محمود کہتے ہیں: اب میرا اللہ جانتا تھا یا میں کہ میری
کیا حالت ہوئی؟ مگر ولایت کی منزلیں کراہت کرکے تو طے ہونے والی نہ
تھیں-چنانچہ اس راہ معرفت میں اس غلاظت کو امتحان سمجھ کر نگل گیا !-میرا
یہ مرشد اس قدر موٹا تھا کہ ایک قدم بھی چلنے کے قابل نہ تھا-وہ لکڑی کے جس
پھٹّے پر جلوہ افروز تھا-اس کے درمیان سوراخ کیا ہوا تھا-اور وہ یہیں بیٹھا
بیٹھا پیشاب(ٹٹی) کرتا تھا-یہ ولی بلا خور اور بلا نوش ہونے کی وجہ سے
اجابت با فراغت کرتا تھا-زیادہ وقت گندگی کا ڈھیر اس کے نیچے پڑا رہتا تھا
-اب اس نے مجھے ہاتھوں سے یہ گندگی صاف کرنے کا حکم دیا-میں نے حکم کی
تعمیل کی- کیونکہ یہ بات تو میں نے پہلے سے سن رکھی تھی کہ بزرگ آزمانے
کیلئے گندی چیزیں بھی کھانے کا حکم دیتے ہیں-اگر کھا لی جائیں تو بیڑہ پار
اور اگر نفرت کی جائے تو معرفت و ولایت کی گاڑی چهوٹ سکتی ہے-چنانچہ میں نے
اپنے ہاتھوں سے وہ گندگی صاف کی- اور اگر وہ حکم دیتے تو میں تھوک کی طرح
پاخانہ کھانے سے بھی گریز نہ کرتا !“ قارئین کرام !یہ ہیں میرے اس بھائی کے
الفاظ‘ جسے اب اللہ نے ہدایت سے نوازا ہے- مگر بتلانا یہ مقصود ہے کہ اگر
ہندوں کے سادھو اور سنیاسی ”اشنان بھومیوں “.... پیشاب پاخانہ کھاتے پیتے
ہیں تو یہ نام نہاد مسلمان ولی قبوری درباروں پر بھی ایسا ہی کرتے ہیں-اور
اگر وہ ننگے رہ کر ڈگمبر سادھو کہلواتے ہیں تو یہ ننگے رہ کر مجذوب ولی
کہلواتے ہیں-یہاں پر ایک اور بات بتاتا چلوں کہ جو جادو یعنی کالا علم حاصل
کیا جاتا ہے اس میں اوپر بیان کردہ تمام ناپاک امور پر عمل کیا جاتا ہے.اب
اللہ ہی بہتر جانے کہ یہ خانقاہی ولی کون سی ولایت حاصل کرنے کیلئے یہ غلیظ
کام سر انجام دیتے ہیں.دین اسلام تو ہو نہیں سکتا کیونکہ دین اسلام تو
صفائی کو نصف ایمان قرار دیتا ہے اور پاک چیزیں کهانے اور ناپاک چیزوں سے
دور رہنے کی تلقین کرتا ہے.......
اس وقت ہم ننگے مجذوب ولی بابا ککڑ سائیں کے دربار میں ہیں....یہ وہ دربار
ہے جسے گلاب رائے نامی ہندو نے تعمیر کروایا-وہ سمن سرکار کے ساتھ گھوما
کرتا تھا اور پھر اس جگہ دربار بنوا کر اس وقت انڈیا بھاگ گیا-جب 1947ء میں
پاکستان معرض وجود میں آیا-شاید یہاں ہندوں کے آنے اور اس دربار سے عقیدت
کا سبب یہ بھی ہو کہ اس دربار کی تعمیر ایک ہندو نے کی ہے- اور اب ہم گلاب
رائے کے بنائے ہوئے دربار کی طرف چل دئیے -جب دروازے سے داخل ہونے لگے تو
دروازے پر لوہے کی ٹلیاں بندھی ہوئی تھیں....سر جب ان کے ساتھ لگتا ہے تو
یہ ٹلیاں بجتی ہیں-ساتھیوں نے بتلایا کہ دوسال قبل تک یہاں ایک بڑا” ٹل“
ہوا کرتا تھا جو بھی زائر اندر جاتا پہلے وہ ٹل کو ہلاتا-ٹن ٹن کرتا اور
پھر اندر داخل ہو جاتا-یہ ہندوں کے مندر میں داخل ہوکر دیوتا کو متوجہ کرنے
کے لئے بجائے جانے والے ٹل کی نقل ہے جو گلاب رائے جاری کرگیا ہے.اوربهی
پاکستان کے دیگر درباروں پر یہ ٹل لٹکے ہوئے ہیں《 جن میں ایک دربار راقم
تالیف نے خود دیکها ہے کراچی ماچهکو سے تین کلو میٹر آگے نیول کلونی پولیس
ہیڈ کواٹر کے ساتھ... اور مسلمان کہلانے والے اس کو بے چوں چرا اپنائے ہوئے
ہیں》خیر!--جب ہم اندر داخل ہوئے تو پیر ککڑ شاہ کے سر کی جانب جو الماریاں
تھیں وہاں پنگھوڑوں کے چھوٹے چھوٹے کھلونے رکھے ہوئے تھے-ان پنگھوڑوں میں
بچہ نما کهلونا بھی لٹایا گیا ہے تو عورتیں ککڑ یہاں لاتیں ہیں-ان کی نیاز
دیتی ہیں اور ان پنگھوڑوں کو ہلا جلا کر لوریاں دیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ
ککڑ شاہ نے ککڑ قبول کر لیا ہے اور اب وہ پتر دے گا-؛--
موحد بچے اور درخت پر ظلم اگلی قسط میں پڑهیں....جاری ہے. |