یکم مئی ایک دن نہیں، بلکہ انصاف اور مساوات کے حصول کے لیے شروع کی گئی
محنت کشوں کی لازوال تحریک کی علامت ہے۔ یہ دن ظالم اور جابر کی حاکمیت کے
خلاف کھلی بغاوت کا دن ہے۔
1886ء میں محنت کشوں کی امریکا میں پہلی تنظیم قائم ہوئی۔ اُس زمانے میں
محنت کشوں کے اوقات ِکار مقرر نہیں تھے۔ تنظیم مسلسل50سال سے اس وقت کی
حکومتوں کو ایک ہی مطالبہ پیش کرتی رہی کہ محنت کشوں کے روزانہ کام کے
اوقات کار8گھنٹے مقرر کیے جائیں، لیکن حکومتوں نے مالکان کا ساتھ دیا اور
محنت کشوں کے مطالبات نہ مانے اور یکم مئی1886ء کو تنظیم ملکی سطح پر ہڑتال
کرانے میں کام یاب ہو گئی۔ یہ ہڑتال تین دن تک جاری رہی اور محنت کشوں نے
شکاگو میں جلوس نکالا۔ حکومت کے ایجنٹوں نے پولیس پر دستی بمبوں سے حملہ
کیا اور پولیس کی جوابی فائرنگ سے مزدور اور پولیس اہل کار ہلاک ہوئے اور
پولیس کے تشدد سے محنت کشوں کی قمیضوں کا رنگ سرخ ہو گیا۔ اس طرح محنت کشوں
کے جھنڈے کا رنگ سرخ ہوا۔ یہ وہ دن ہے جب1886ء میں امریکا کے شہر شکاگو میں
محنت کشوں کو ان کے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں ظلم و جبر کا نشانہ بنایا
گیا اور ان کا سرکاری سطح پر قتل کیا گیا۔
ہر سال پوری دنیا کے محنت کش یکم مئی کو اپنے اُن ساتھیوں کی یاد میں مناتے
ہیں جنہوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے شکاگو کی گلیوں میں اپنے لہو
کا نذرانہ دیا۔ شکاگو کے شہدا ء کی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں ان کے
اوقات ِ کار8گھنٹے مقرر ہوئے۔
یکم مئی تجدید ِ عہد کا بھی دن ہے۔ مزدور اس دن یہ عہدکرتے ہیں کہ وہ ظالم
اور جابر حکمرانوں کے خلاف اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔لہٰذا آج ہم
پاکستانی محنت کش یوم مئی ان حالات میں منا رہے ہیں جب کہ ملک میں نجکاری،
دہشت گردی، بیروزگاری، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ نے لوگوں کا جینا حرام کردیا
ہے۔ آج2016ء میں محنت کش انتہائی نامساعد حالات اور صنعتی پسماندگی کا شکار
ہیں۔ آجIMF, World Bank کی اجاہ داری کی وجہ سے پوری دنیا میں بدحالی اور
افلاس کی صورت حال ہے جس کی وجہ سے تقریباً1 ارب سے زیادہ لوگ فاقہ کشی کا
شکار ہیں۔
ان ہی پالیسیوں کی پیروی میں پاکستانی حکومت کسی طور پر کم نہیں۔ پاکستانی
حکومت اور حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے عالمی استحصالی قوتوں
خصوصاً امریکی سامراج ہر عوام دشمن پالیسی کو لاگو کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے
پاکستان کی53فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کسمپرسی اور انتہائی بدحالی
کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ حکمران عیاشیاں کررہے ہیں اور محنت کشوں کے
حالات1886ء میں شکاگو کے محنت کشوں کے حالات سے بھی بدتر ہیں۔ پاکستانی
حکمرانوں نے قوانین محنت میں ترامیم کرکے محنت کشوں کے اوقات کار8 سے بڑھا
کر12گھنٹے کردیے ہیں۔ محنت کشوں کے بنیادی حق یونین سازی پر پابندی ہے۔ جس
کی وجہ سے منظم محنت کشوں کی کثیر تعداد حکومتی اعدادوشمار کے مطابق صرف3%
کے قریب ہے۔ 18کروڑ کی آبادی میں صرف14فیصد شہری ایسے ہیں جن کے پاس پبلک
اور پرائیویٹ سیکٹر میں باقاعدہ ملازمتیں ہیں، جب کہ 87فیصد شہریوں کی
زندگی کا دارومدار اتفاقیہ آمدنی پر ہے۔ محنت کشوں کی اکثریت خواتین پر
مشتمل ہے۔ بھٹہ پر3.5فیصد، زرعی شعبہ میں 48.6 فیصد، قالین بانی میں62فیصد
اور غیر رسمی شعبے میں85.8فیصد خواتین انتہائی برے حالات میں غربت کی وجہ
سے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ زرعی شعبہ اور غیر رسمی شعبے کے لیے اب تک کوئی
قانون ہی نہیں بنا۔ یہ خواتین قوانین محنت کے تحت ملنے والی مراعات سے
محروم ہیں اور فیکٹری اور چھوٹی صنعتوں میں کنٹریکٹ اور سب کنٹریکٹ کے تحت
کام کررہی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین
کو تقرری نامہ ہی نہیں دیا جاتا اور کم از کم تنخواہ13,000/-روپے سے بھی کم
معاوضہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومت پاکستان نے I.L.O کے36کنونشز کو
منظور کیا ہے۔ مگرI.L.O صرفRatify کرانے کی حد تک اور حکومت منظور کرنے پر
خوش ہے اور ورکرز پر ان کنونشز کا اطلاق نہیں ہے۔
کام کی جگہ پر خواتین کو جنسی تفریق اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور
اوقات ِ کار بھی بارہ گھنٹے سے زیادہ ہیں۔ اسی طرح بھٹوں اور زرعی محنت کش
خواتین بھی کسمپرسی کا شکار ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں خواتین گارمنٹس کی
صنعت میں کام کررہی ہیں، مگر افسوس کہ خواتین کے کام کو نظرانداز کیا جاتا
ہے اور کوئی اعداد شمار نہیں ہیں۔ طویل اوقات، گھروں میں دہری ذمہ داریاں
اور ٹھیکے داری نظام اور سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے محنت کش خواتین کا
استحصال ہورہا ہے۔ یوں تو ملک میں محنت کش مرد و خواتین کروڑوں کی تعداد
میں کام کررہے ہیں۔ مگر ٹھیکے داری نظام کی وجہ سے فیکٹریوں کو چھوٹے
یونٹوں میں تبدیل کردیا گیا ہے تاکہ وہ ایک بھرپور قوت اور طاقت نہ بن سکیں
اور یونین سازی نہ کرسکیں۔ ان یونٹوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے جو
قوانین محنت سے لے کر تمام مراعات سے محروم ہیں۔ غیر رسمی شعبے میں زراعت،
بھٹوں اور گھریلو صنعت کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ٹریڈ یونینز،مزدوروں کی
تنظیمیں بھی محنت کش خواتین کے حالات کار میں تبدیلی نہیں لارہیں، اس کی
ایک وجہ ٹریڈ یونین کی پدرشاہی سوچ ہے، جس کی وجہ سے خواتین کو ٹریڈ یونین
میں نہیں لایا جارہا۔ جس کی وجہ سے ٹریڈ یونین تحریک بھی خواتین کی شمولیت
کے بغیر اپنی افادیت کھوتی جارہی ہے۔ محنت کش خواتین کی تعداد کے حوالے سے
حکومت کے پاس کوئی اعدادوشمار نہیں۔محنت کش خواتین کی بہت کم تعداد ٹریڈ
یونین میں ہے، کیوں کہ یونین بھی خواتین کے مسائل کو محنت کشوں کے مسائل
نہیں سمجھتی۔حکومت وقت جو کہ مزدوروں اور عوام کی بہتری کے لیے بلندوبانگ
دعوے تو کرتی ہے مگر عملی اقدام نہیں۔ آج ملک میں بدترین دہشتگردی کی وجہ
سے معصوم شہریوں اور مزدوروں کی زندگیاں داؤ پر لگائی جارہی ہیں۔ ریاست
کاکام ہے کہ وہ عوام کو تحفظ فراہم کرے مگر ملک میں اشرافیہ کی حفاظت پر
اربوں اور کھربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں مگر غریب محنت کشوں کی زندگیاں
داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ملک سیاسی جماعتیں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے
بلندوبانگ دعوے تو کرتی ہے مگر عملاً کچھ نہیں۔ حکومت پاکستان نےI.L.O
کاکنونشن87-98 جو کہ یونین سازی اور تنظیم سازی کا حق دیتا ہے اس کی بھی
دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اگر کوئی محنت کش کسی ادارے میں یونین سازی کرتا ہے
تو مل مالک ان پر جبر کرکے نوکریوں سے برطرف کردیتا ہے یہی نہیں بلکہ پولیس
کی ملی بھگت سے ان پر جھوٹے مقدمات قائم کردیئے جاتے ہیں مگر بدقسمتی ہے کہ
غریب کو سالہا سال عدالتوں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا۔
جاگیرداری نظام ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہا ہے اورحکمران تمام تر
فرعونیت کے ساتھ قائم و دائم ہے اور غریب کسانوں کا استحصال کررہا ہے۔ کوئی
زرعی اصلاحات نہیں کی گئیں۔ گزشتہ69برسوں سے محنت کش طبقے کا استحصال کیا
جارہا ہے۔
آج پوری دنیا میں محنت کش بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ سرمایہ داری نظام
بھیانک شکل میں آ چکا ہے اور ملک میں حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ جان
لیوا مہنگائی نے محنت کش غریب عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، یہی نہیں حکومت
نے ایسے مزدور دشمن قوانین متعارف کروائے ہیں جن کے باعث محنت کش ان کے
حقوق سے محروم ہوگئے ہیں جو انہوں نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کیے۔
ہم محنت کش ٹریڈ یونین کے ساتھ مل کر ہی سرمایہ داروں اور استحصالی قوتوں
کو ناکام کرسکتے ہیں۔ یہی جذبہ تھا شکاگو کے محنت کشوں کا اور یہی طریقہ ہے
شکاگو کے شہداء کو سلام کرنے کا۔ یہی وقت ہے کہ ہم ایک ہو کر اپنی مشترکہ
جدوجہد سے ایک آواز ہو کر حقوق کے حصول کے لیے آگے بڑھیں۔ |