خلافت کے بغیر آزادی ممکن نہیں

پاناما لیکس نے جہاں اور بہت سے راز وں سے پردہ اُٹھایا وہاں دنیا پر مسلط سرمایہ دارانہ نظام کے کریہہ چہرے سے بھی نقاب اُلٹ دیا جسے مغرب نے نام نہاد جمہوریت کے خوبصورت اور دلکش لبادوں میں چھپا کر دنیا کے سامنے آزادی کی نیلم پری کے طور پر پیش کیا تھا اور دنیا اس راز سے بے نیاز ہوکر کہ جمہوریت میں درحقیقت ان کی آزادی سرمایہ داروں کے ہاں رہن رکھ دی گئی ہے اسے نجات کا پروانہ سمجھ رہی تھی ۔ حالانکہ اہل دانش و بینش کے نزدیک یہ راز کبھی بھی راز نہ تھا اور وہ ببانگ دہل دنیا کے سامنے کہہ رہے تھے ؂
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قباء میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

لیکن کیاکیجیے عوام کی سادہ دلی کا کہ وہ سرمایہ داروں کے زرخرید میڈیا کے پروپیگنڈے کے زیر اثرمیگا لیکس کے بعد بھی یہی سمجھتے رہیں گے کہ جبر و استبداد کے قصے صرف بادشاہوں یا آمروں کے دور میں ممکن تھے ، موجودہ دور تو جمہوریت کا ہے اور ایسی عوامی حکومت میں جبر واستبداد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔سرمایہ داروں کے وظیفہ خواردانشور جمہوریت کی تعریف میں ہمہ وقت رطب اللسان رہیں گے ۔حتیٰ کہ اقبال کو بھی جمہوریت کا حمایتی ثابت کرنے کے لیے بے ڈھنگے اور بھونڈے دلائل دیتے رہیں گے ۔ عوام سیاسی مداریوں کے دام فریب میں گرفتا ر ہو کربظاہر جمہوریت کے لیے اپناقیمتی وقت ، پیسہ اور اپنی جانیں لگاتے رہیں گے لیکن اصل میں سرمایہ دارانہ نظام کے پنجۂ استبداد کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے رہیں گے ۔ اپنے ملک میں ہی دیکھ لیجیے ! ہر الیکشن میں ایک دو درجن سیاسی کارکن اپنی جانیں ہار جاتے ہیں۔ لیکن انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ جنہیں وہ اپنی آزادی اور حقوق کے علمبردار اور قوم کے نمائندے سمجھ رہے ہیں وہ درحقیقت عالمی سامراج کے کٹھ پتلی ثابت ہوں گے اور حکومت میں آنے کے بعد قومی مفادات اور عوامی خواہشات کے برعکس صرف عالمی سامراجی ایجنڈے پر عملدرآمد کو آگے بڑھائیں گے۔ہر پالیسی ، ہر بل ، ہر فیصلہ ، ہر عمل اورہر اقدام قومی اقدار و نظریات اور عوامی جذبات کے منافی اور عالمی سامراجی قوتوں کی خواہشات کے مطابق ہوگا ۔ پھر چاہے عوام ان کے قوم اور ملک مخالف فیصلوں کے خلاف سڑکوں پر ہی کیوں نہ نکل آئے ۔انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوگی ۔ یہ تو دنیا کے سامنے یہی کہیں گے کہ ہم تو منتخب ہوکر آئے ہیں اور عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے ۔

بے چارے عوام جنہیں الیکشن سے قبل’’ عوام کی حکومت ، عوام کے لیے‘‘ کا سلوگن پڑھایا جاتا ہے اب حکومت سے یہ تک پوچھنے کا اختیار بھی نہیں رکھتے کہ کیاانہوں نے مینڈیٹ ناموس رسالت کے محافظوں کے قتل کے لیے دیا تھا ، عورتوں کی آزادی کے نام پر خاندانی اور گھریلو نظام کوتلپٹ کرنے اور ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو چوک چوراہوں میں کھڑا کرنے کے لیے دیا تھا ، اقبال کی چھٹی ختم کرنے اور پاکستان کو لبرل ازم کے نام پر بے دینی ، فحاشی اور عریانی کے سیلاب میں دھکیلنے کے لیے دیا تھا؟۔۔۔ اگر نہیں دیا تو پھر یہ فیصلے کس کے اشارے اور کہنے پر ہو رہے ہیں ؟

حالانکہ حکومت جانتی بھی ہے کہ وہ جو اقدامات کررہی ہے وہ قومی اقدار و نظریات کے خلاف ہی نہیں بلکہ ملکی اساس کے بھی بالکل متضاد ہیں ۔اک عام آدمی بھی بخوبی جان سکتا ہے کہ ایک طرف ملک میں اسلام کا گلا گھونٹنا ، مدرسوں پر چھاپے ، علماء کو حراساں کرنا ، مذہبی طبقے کا گھیراؤ، مذہبی شعار و رسومات پر پابندیاں اور دوسری طرف ہولی و دیوالی میں شرکت اور کرسمس اور دیگر غیر اسلامی تہوار و تہذیب کی حوصلہ افزائی ، ہندی اور مغربی کلچر کا سرکاری سطح پر فروغ کیا معنی رکھتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی حکومت یہ سب کررہی ہے ۔ تو ایسی کون سی مجبوری ہے یا کون سی ایسی خفیہ قوتیں ہیں جو ایک آزاد و خود مختار ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتی ہیں اور ان سب اقدامات سے وہ آخر کار کیا چاہتی ہیں؟

یہی وہ بنیادی سوالات ہیں جن کے جوابات جاننا آج کی سب سے اہم ضرورت ہے ۔ کیونکہ ہمارے تمام تر مسائل اور مصائب کا حل انہی سوالات کے جوابات میں پنہاں ہے ۔ لہٰذا ان بنیادی حقائق کو تسلیم کیے بغیر ہم بحیثیت آزاد قوم ترقی نہیں کرسکتے ، نہ اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کے فیصلے کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی کی ایسی حکومت لا سکتے ہیں جوقومی اقدار و نظریات کے مطابق فیصلے کرنے میں آزاد و خود مختار ہو ۔

چنانچہ پانامہ لیکس میں ان سوالات کے کافی و شافی جوابات موجود ہیں ۔اگرچہ حقائق کے دروازے پہلے بھی ہر کس وناکس پر بند نہ تھے ۔ جمہوریت کی معلوم تاریخ سے بخوبی ظاہر ہے کہ اس کے نا م پر انسانیت کے ساتھ صرف کھلواڑ ہی ہوا اور اصل اختیارات جمہوریت میں ہمیشہ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے پاس رہے ۔مغرب جو اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپیئن قرار دیتا ہے اور تاریخی طور پر اپنے آپ کو یونان اور روم کی جمہوریت اور آئین سے منسلک کرتے ہوئے اس بات کا دعویدار بنتا ہے کہ جمہوریت کی صورت میں عوامی فلاح کا بہترین نظام انہوں نے دنیا کو دیا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یونان اور روم کی جمہوریتیں فی الواقعی عوامی تھیں ؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ یونان اور روم میں سینٹ تمام کی تمام سرمایہ داروں ، جاگیر داروں اور جرنیلوں پر مشتمل نہیں ہوتی تھی ؟ کیا عوامی اسمبلیوں میں عام آدمی کی رسائی ممکن تھی ؟ حقیقت یہ ہے کہ یونان میں سب سے پہلے جمہوریت کا شوشہ اس وقت( 508ق م میں) چھوڑا گیا جب مطلق العنان بادشاہت کو عوامی ردعمل اور فوجی جاگیرداروں سے خطرہ محسوس ہوا ۔اسی طرح روم میں جمہوریت کی شروعات اس وقت ہوئیں جب سرمایہ داروں( سینیٹرز لوکس ، جونیس اور بروٹس) نے آخر ی بادشاہ جولیس سیزرکو قتل کرنے کے بعد اقتدار اپنے قبضے میں کرنے کی کوشش کی ۔ اسی کوشش کے نتیجے میں 451ق م میں دس رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے سپارٹا کے نقش قدم پر روم میں جمہوری ڈھانچے کی بنیاد رکھی ۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس کمیٹی میں بھی دس کے دس ارکان سرمایہ دار اور جاگیر تھے ۔ یوں جمہوریت کے نام پرسرمایہ داروں ،فوجی جرنیلوں اور اشرافیہ نے قوت ، دولت اور اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے لیے جمہوریت کے نام پر ایک ایسا نظام متعارف کرایا جس میں عام آدمی کو حکومت میں حصہ دار بنانے کا جھانسہ دے کر بغاوت کے امکانات کودباد دیا گیا۔ لیکن یہ فراڈ زیادہ عرصہ تک نہ چل سکا ۔ یونان میں 371ق م میں جنگ ra Leuctمیں بالآخر فلپ میسیڈونین دوم کے ہاتھوں اس جمہوری ڈرامے کا ڈراپ سین ہوا ۔

انسانیت کے ساتھ جمہوریت کے نام پر سب سے بڑے دھوکے کا آغاز از سر نو مغرب نے سولہویں صدی عیسوی میں کیا لیکن اس وقت سے لیکر آج تک صرف سرمایہ دار ہی جمہوریت کے نام پر انسانوں پر حکومت کر رہے ہیں ۔ امریکہ اور برطانیہ میں آج بھی کوئی غریب یا متوسط طبقے کا آدمی الیکشن لڑنے کا تصور نہیں کر سکتا ۔امریکہ میں صدارتی انتخاب میں ایک اُمیدوار کو جتنا سرمایہ درکار ہوتا ہے کیا ایک عام آدمی اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کی بنیاد اس دجالی فلسفہ پر ہے کہ منظر عام پر نظام کچھ اور نظر آئے لیکن درپردہ قوت کچھ اور ہو ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ان درپردہ قوتوں میں سیکرٹ سوسائیٹیز کا غلبہ ہوا ۔ برطانیہ کی MI-5 اور MI-6نامی خفیہ ایجنسیوں اور امریکہ کی سی آئی اے کسی شہرت کی محتاج نہیں ۔ سی آئی اے نے 60کی دہائی میں خلیج خنازیر کے مسئلہ پر اختلاف کی بنیاد پر اپنے ہی صدر کنیڈی کو ٹھکانے لگا دیا تھا ۔اسی طرح امریکی صدر ریگن کی مرضی کے خلاف ایران گیٹ اسکینڈل بھی کافی شہرت کا حامل ہے ۔ کیا صدر کنیڈی اور ریگن امریکی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر نہیں آئے تھے ؟دوسری طرف برطانیہ جسے جمہوریت کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے وہاں بادشاہت کا ’’ پیوند‘‘ ابھی تک جگمگا رہا ہے ۔ صرف اس لیے کہ تمام کا تمام برطانوی شاہی خاندان فری میسن سیکرٹ سوسائٹی کا رکن ہے اور یہی وہ سیکریٹ سوسائٹی ہے جو سودا ور سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے دنیا کے سرد گرم تک رسائی حاصل کر چکی ہے ، دنیا کے تمام بڑے بنکوں پر ان کا ہولڈ ہے ،دنیا پر مسلط سرمایہ دارانہ اور سودی نظام کی بدولت پوری دنیا کے حکمران چاہے وہ جمہوری ہوں یا آمر ان کا ہر جائز و ناجائز حکم ماننے پر مجبور ہیں ۔ لہٰذا یہ قوتیں اپنے دجالی ایجنڈے کو پوری دنیا پر مسلط کرنے لیے آزاد ہیں ۔ ان کے راستے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو صرف نظام خلافت ہے ۔ لہٰذا یہ گروپ اپنی پروردہ سیکریٹ ایجنسیوں کے ذریعے جہاں پوری دنیا دہشت گردی کے واقعات کروا کر اسلام اور نظام خلافت کو بدنام کر رہا ہے ، وہاں حکمرانوں کو مجبور کرکے پوری دنیا میں ایسی قانون سازیاں بھی کروا رہا ہے تاکہ نظام خلافت کی آواز سر نہ اُٹھا سکے ۔

لہٰذا یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مسلمان جب تک نظام خلافت کے لیے متحرک اور متحد نہیں ہوجاتے وہ عالمی سامراجی قوتوں کے چنگل سے قطعی آزاد نہیں ہوسکتے ۔ عالمی سامراجی قوتیں کہیں السیسی ، مشرف ، بشار الاسد جیسے ڈکٹیٹروں کے ذریعے اور کہیں نام نہاد جمہوری حکمرانوں کے ذریعے عالم اسلام پر مسلط رہیں گی اوران کے ذریعے اسلام مخالف قانون سازیاں ہوتی رہیں گی ۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے ایک طرف تھر میں بچے بھوکے مرتے رہیں گے اور دوسری طرف آف شور کمپنیاں بنتی رہیں گی ۔ لہٰذا مسلمانوں کی نجات نہ رائیونڈ دھرنے میں ہے نہ روز روز کے حکومت مخالف مظاہروں میں بلکہ حقیقی آزادی اور نجات کا راستہ صرف صرف اس میں ہے کہ مسلمان مکاتب فکر مل کر صرف نظام مصطفی کے قیام کے لیے تحریک چلائیں ۔ اگر ایسا نہ کریں گے تو کبھی کس بل کے خلاف مظاہرہ کریں گے اور کبھی کس بل کے خلاف مگر سرمایہ دار اپنی مکر کی چالوں سے ان کو فریب دیتے رہیں اور عالمی دجالی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے رہیں گے ۔

 
Rafiq Chodury
About the Author: Rafiq Chodury Read More Articles by Rafiq Chodury: 38 Articles with 47075 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.