امان اﷲ ……فی امان اﷲ

یہ دنیا جسے ایک روز ختم ہوجانا ہے ، مختلف قسم کے انسانوں اور رنگ ہا رنگ مزاجوں سے بھری ہے ۔ پیدائش سے وفات تک انسان نت نئے تجربوں سے گزرتا ہے اور قسم قسم کے اختلافات و اتفاقات کا شکار ہوتا ہے۔ زندگی کی اس ہما ہمی میں جب کوئی انسان نظریات کی جنگ میں داخل ہوتا ہے پھر اس کے مزاج کا رنگ ایک ہو جاتا ہے۔ وہ پورے یقین اور یکسوئی کے ساتھ اپنے نظریات کی ترویج کرتا اور ان کی آب یاری کے لیے اپنا لہو دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔وہ کسی ایک نظریے پر استقامت کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو پھر اس کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آتی ۔ جناب امان اﷲ خان بھی تحریک حریت کشمیرکا ایک ایسا ہی نام ہیں۔ انہوں نے یکسوئی کے ساتھ ایک نظریے کی تشکیل کی اور ساری زندگی اس نظریے کے لیے وقف کر دی ۔ ان کے خیال میں ریاست جموں وکشمیرکے مسئلے کا واحد حل یہ تھا کہ نہ بھارت نہ پاکستان ……اسے ایک خود مختار ریاست کا درجہ دیا جانا چاہیے ۔اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی عمر کے بیاسی سال لگا دیے ۔ اس جدوجہد میں انہوں نے کمزوری نہیں دکھائی ۔خود مختار کشمیر کے مقابل ’’ کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے کو زیادہ پذیرائی حاصل رہی ہے اور ریاست جموں وکشمیر کی ایک غالب اکثریت اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کرنے کی متمنی ہے۔ اس پذیرائی کے باوجود جناب امان اﷲ خان نے پوری زندگی خود مختار کشمیر کے لیے وقف کر دی جس کی وجہ سے انہیں لا تعداد مرتبہ جیل جانا پڑا۔ مصائب و آلام کے دور سے گزرے، ہزار ہا مشکلات کے باوجود ان کے موقف میں لچک نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کے ایک طبقے نے اس فلسفے پر لبیک کہا ۔اس جدوجہد کے دوران ان کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھی بارہا اختلافات ہوئے اور یہ اختلافات باہمی دشمنی کا باعث بھی بنتے رہے لیکن ان کی مخلصانہ جدوجہد ہر حال میں جاری رہی ۔ انہیں اپنی منزل پانے کا پورا یقین تھااور اس یقین نے انہیں استقامت دی ۔
میں نے برسوں ان سے اختلاف کیا ۔ خود مختار کشمیر کے مضمرات پر لکھا۔ پاکستان سے کشمیریوں کی بے مثل محبت کے تذکرے قلم بند کیے ۔وہ میرا کالم پڑھتے اور کبھی کبھی تبصرہ بھی کرتے تھے۔ اس تبصرے کے جواب میں کئی مرتبہ شاید مجھ سے گستاخی بھی ہوجاتی تھی ۔ لیکن وہ ایک شفیق باپ تھے، ایک محبت کرنے والے رہنما کی طرح اپنے نظریے کے حق میں دلائل دیتے ۔دوسروں کا احترام کرنے اور اپنی بات منوانے کا سلیقہ جانتے تھے۔ آج وہ دنیا میں نہیں ہیں تو دل بے اختیار گواہی دیتا ہے کہ ان کا فہم تحریک اخلاص پر مبنی تھا۔ انہوں نے جس بات کو درست جانا اس پر عمل کیا ۔ اختلاف نظر کو اشتراک سفر کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیا،یہ جذبات توازن کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ان کے نظریات ہمیشہ جذبات پر غالب رہے ۔

میری ان سے آخری ملاقات کوئی ایک ڈیڑھ سال پہلے ہوئی تھی ۔ میں ہالیڈے ان ہوٹل سے راولپنڈی کے لیے نکلا تو باہر سڑک پر انہیں ٹیکسی کے لیے کھڑے پایا۔ وہ ہاتھ کے اشارے سے ٹیکسی روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے گاڑی روکی نیچے اترا اور انہیں تھام کر اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔ بیٹھتے ہی انہوں نے مجھے گھور کر دیکھا اور پھر قہقہہ لگا کر ہنس دیے۔

’’ آپ نے مجھے کیسے دیکھ لیا میں تو بہت دیر سے یہاں کسی ٹیکسی کے انتظار میں کھڑا تھا۔ ‘‘ اور پھر کہا ’’ اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی۔‘‘

حال احوال کے بعد انہوں نے راجہ عبدالقیوم صاحب کے بارے میں پوچھا۔ (راجہ عبدالقیوم صاحب اور میں ایک ہی علاقے کے رہنے والے ہیں)واضح رہے کہ راجہ عبدالقیوم ان کے پرانے ساتھیوں میں سے ہیں اور مہاترے قتل کیس میں چوبیس برس برطانیہ کی جیل میں قید رہے ہیں ، جیل میں جانے کے بعد راجہ صاحب نے ان سے اختلافات یا غلط فہمی کے باعث اپنا راستہ الگ کر لیا تھا ( اب انہی کے ساتھ محو جدوجہد ہیں) ان کے خیال میں راجہ عبدالقیوم صاحب کسی غلط فہمی کی وجہ سے ان سے دور ہو گئے تھے۔ راستے میں وہ بار بار ان کا تذکرہ کرتے رہے اور مجھے ان تک سلام پہنچانے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ جب بھی ان سے ملاقات ہو ،انہیں کہنا میں آپ کو بہت یاد کرتا ہوں ۔وہ راجہ عبدالقیوم کی قربانیوں اور اخلاص کے قدر دان تھے۔ راجہ عبدالقیوم صاحب کی امی سے انہیں خاص عقیدت تھی ۔ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ آبدیدہ ہو گئے ۔ کہنے لگے ۔ کاش! ان کی امی زندہ ہوتیں تو میں ان سے بات کر کے راجہ عبدالقیوم کو راضی کر لیتا۔ اس ملاقات کے بعد ان سے کئی بار فون پر بات ہوئی ۔ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی آواز میں نقاہت تو تھی لیکن لہجے کی گن گرج ہمیشہ باقی رہی ۔ وہ ہمیشہ یہ توقع رکھتے کہ میں متوازن کالم لکھا کروں ۔ وہ کہتے پاکستان سے ان کو بھی محبت ہے لیکن جب ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے مستقبل کا مسئلہ ہوتا تو پھر سب کے جذبات کی قدر کرنا لازم ہے۔

جناب امان اﷲ خان ۲۴ اگست ۱۹۳۴ء کو گلگت کے علاقے استور میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم کے بعد آپ کشمیر یونیورسٹی سری نگر چلے گئے ،جہاں سے ۱۹۵۰ء میں میڑک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پا س کیا۔ایس۔ پی کالج اور امر سنگھ کالج سری نگر میں بھی زیر تعلیم رہے ۔۱۹۵۲ ء میں وہ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور ایس۔ ایم کالج کراچی سے۱۹۵۷ء میں گریجویشن کیا اور بعد ازاں۱۹۶۲ء میں قانون کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ۱۹۶۳ء میں قائم ہونے والی ’’کشمیر انڈیپنڈنٹ کمیٹی ‘‘کے شریک بانی تھے۔۱۹۶۵ء میں جے۔ کے۔ پی۔ایف (J&K Plebiscite Front) کے سیکریٹری جنرل بھی منتخب ہوئے ۔۱۹۷۶ء میں وہ برطانیہ چلے گئے اور مئی۱۹۷۷ء میں محاذ رائے شماری کو تبدیل کر کے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی جس میں متعدد کشمیری رہنما شامل ہوئے۔ امان اﷲ خان اس کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے۔

ستمبر۱۹۸۵ء میں امان اﷲ خان ایک بار پھر گرفتار ہوئے اور دسمبر ۱۹۸۶ء میں آپ کو انگلینڈ سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ان کا شمار ان کشمیری حریت پسند رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے ۱۹۸۸ء میں کشمیر میں قابض ہندوستانی فوجوں کے خلاف بھرپور مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔۱۱ فروری۱۹۹۲ء کو چکوٹھی کی جانب سے سیزفائر توڑنے کی کوشش کی گئی جس میں ہزاروں کشمیری نوجوانوں شریک ہوئے۔ اس دوران فائرنگ سے متعدد نوجوان شہید ہو گئے ۔ راقم اس سارے منظر کا چشم دید گواہ ہے ۔اس روز امان اﷲ صاحب ایک بپھرے ہوئے شیر کی مانند لگ رہے تھے۔وہ آزادی پسند رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ صحافی، مصنف اور شاعر بھی تھے۔ انہیں مختلف کشمیری زبانوں کے علاوہ انگریزی پر بھی مہارت حاصل تھی۔انہوں نے اپنی جدوجہد کے حوالے سے دو کتابیں ’’فری کشمیر‘‘ اور ’’جہد مسلسل‘‘ تحریر کیں۔کشمیر کی آزادی کی جدوجہد سے متعلق انگریزی اور اردو میں درجنوں رسالے ، کتابچے اور پمفلٹ بھی تحریر کیے ۔

ان کے نظریات اور خیالات غیر متزلزل تھے۔ وہ خلوص نیت کے ساتھ کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کی منزل کے حوالے سے ایک نظریہ رکھتے تھے۔ شاید ان کے انہی خیالات و نظریات کی وجہ سے مشکلات اور طعنے بھی برداشت کرنا پڑے۔ وہ زمانے کی سرد و گرم ہواؤں کے علی الرغم چلتے رہے اور بالآخر اپنے رب کے پاس چلے گئے۔گزشتہ ۲۷ برسوں سے ان سے محبت اور عقیدت کا تعلق تھا۔ نظریات میں زمین و آسمان کے بُعد کے باوجود مجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہ وہ ہم جیسے طفل مکتب کے خیالات کو اہمیت نہیں دیتے۔ وہ میرے بے ڈھنگے ، بے ربط اور الجھے ہوئے خیالات اتنی غور سے سنتے گویا میں کوئی ایسا فلسفہ پیش کر رہا ہوں جو کبھی انہوں نے پہلے نہ سن رکھا ہو۔ کبھی وہ اپنے دلائل سے رد کر دیتے کبھی ایک مشفقانہ قہقہے میں گم کر دیے ۔ وہ سب کا احترام کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سلگائی ہوئی چنگاری نے کشمیرکے میدان وغا میں بر سر پیکار وفاشعاروں کو اور مہمیز دی ہے ۔وہ وقت آ کر رہے گا جس کے لیے ان جیسے قائدین نے اپنی ساری زندگی جدوجہد میں کھپا دی ۔

کشمیر کا مستقبل ان کی خواہش کے مطابق ہوگا یا کوئی اور ؟ اس کا جواب ابھی ہزار پردوں میں چھپا ہے لیکن مورخ جب بھی جموں وکشمیر کی تاریخ لکھے گا ان جیسے قائدین کا نام ہمیشہ سرفہرست ہوگا ۔ اﷲ ان سے راضی ہو اور وہ اپنے رب سے راضی ہوں ۔ایک بے قرار ، بے چین روح کو رب کے پاس پہنچ کر قرار آ گیا ۔ فی امان اﷲ …… خان صاحب……!!
Saghir Qamar
About the Author: Saghir Qamar Read More Articles by Saghir Qamar: 51 Articles with 34136 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.