سنو ! ۔۔تسکین !!

کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں ذہنی امراض کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر آفتاب آصف کے مطابق پاکستان میں تقریباََ 40فیصد افراد مختلف قسم کے ذہنی مسائل کا شکار ہیں ذہنی طور پر معذور افراد کے علاوہ یہاں ذہنی امراض کے بہت سے لوگوں کو پاگل پن اور سوشل فوبیا ( لوگوں سے ملنے جلنے سے کترانا ) جیسی بیماریوں کا بھی سامنا ہے پاکستان میں ذہنی مریضوں کی زیادہ تر تعداد خواتین پر مشتمل ہے اور پچھلے چند برسوں سے حیرت انگیز طور پر نوجوان لڑکیوں اور بوڑھے والدین بھی ذہنی امراض کا شکار دیکھے جا رہے ہیں۔پاکستان میں 18کروڑ عوام کے لئے ذہنی امراض کے علاج کیلئے صرف ساڑھے چار سو تربیت یافتہ ماہر ڈاکٹر موجود ہیں جو کہ قطعی طور ناکافی ہیں ۔ ابھی تک کسی بھی صوبے نے ذہنی امراض کے علاج کیلئے مینٹل ہیلتھ ایکٹ ہی پاس نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی صوبے میں مینٹل ہیلتھ اتھارٹی قائم کی جاسکی ہے۔معاشرتی مسائل سارے ذہنی امراض کی جڑ ہیں ۔ یہ بات ماننا ہے ان افراد کا جن کا کام ہی ذہنی افراد کے مسائل کی تشخیص کرنا ہے۔ پاکستان میں ذہنی امراض کو اول تو کوئی بیماری ہی نہیں سمجھا جاتا اور اگر اگر کسی نے ایسا کہہ دیا تو اس مرض کو فوراََ پاگل پن کانام دیکر علاج سے گریز کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں اپنے معالج سے رجوع نہ کرنا شائد اس کی وجہ ہمارے معاشرے میں اس اہم مرض کی اہمیت و نقصانات سے متعلق درست آگاہی کی فراہمی میں فقدان ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے صحت کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ افرادی قوت اور ملازمت پیشہ افراد میں ڈپریشن اور دیگر ذہنی امراض کی وجہ سے ان کی کارکردگی پر فرق پڑ رہا ہے اور اس طرح عالمی معیشت کو سالانہ900ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے جو 90ہزار ارب روپے پاکستانی روپے کے برابر ہے ۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں خوفناک انکشاف کیا گیا کہ دنیا کی 10فیصد آبادی کسی نہ کسی ذہنی یا دماغی مسئلے میں گرفتار ہے اور اس کے نتیجے میں پیشہ وارانہ طبقہ درست انداز میں کام نہیں کرسکتا یا کام سے غیر حاضر رہتا ہے اگر اسے کام کے دنوں میں بیان کیا جائے تو یہ12ارب دن یا 5کروڑ سال بنتے اور اس کا مالیاتی نقصان 90ہزار ارب روپے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے عالمی ادارہ صحت نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ دنیا بھر میں ان کا علاج مشکل ، صبر طلب اور مہنگا ہے ،36 ممالک کے جائزے میں 2016سے2030تک 15برس میں ذہنی اور دماغی مسائل کے علاج پر140ارب ڈالر کے لگ بھگ اخراجات آئیں گے ، اگر مزدور طبقے کی صرف 5فیصد تعداد ڈپریشن اور دیگر امراض سے چھٹکارہ پالیسی ہے تو400 ارب ڈالر کے مالیاتی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔یقینی طور پر یہ ہوشربا معلومات ہیں کہ ہم جنھیں مرض ہی نہیں سمجھتے اس کی وجہ سے90ہزار ارب روپے کے نقصانات عالم انسانی کو برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ شائد کسی کو یہ خیال گذرے کہ ذہنی امراض اپَر کلاس فیملی کے ہی گلے کا ہار ہے تو ایسا نہیں ہے۔ اس اہم مسئلے کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے کہ ذہنی امراض سے کوئی ایک طبقہ متاثر نہیں ہے ، ان طبقات کے مسائل کچھ دوسری نوعیت کے ضرور ہوسکتے ہیں لیکن خاص طور پر پاکستانی تمام طبقات اس مرض کے ہاتھوں جتنی شدت سے متاثر ہے اس کا اندازہ آپ اپنی طبعیت میں درشتی اور معاشرے سے گلے شکوے کی صورت میں کرنے سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پاکستان میں تھیٹر کے گرتے معیار اور اصلاحی و سماجی مسائل کے آگاہی کے لئے ناکافی کردار نے مجھے اس فورم سے دور کردیا تھا ۔ تھٹیر کو محض تفریح کا ذریعہ اور بھانڈ ،مراثے ، جگل بندی ، ڈانس اور فضولیات تک محدود کردیا گیا ہے ۔ لیکن بعض ایسے افراد اور تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ معاشرے میں سماجی برائیوں کی نشان دہی کیلئے ان ذرائع کا درست استعمال کیا جائے تو اس کی اثر پزیری طاقت ور ہوسکتی ہے ۔ کراچی آرٹس کونسل میں داؤ د فاونڈیشن کے تحت تسکین نامی ایک سماجی ذہنی امراض کی بحالی کی این جی او نے نفسیاتی امراض سے متعلق آگاہی کیلئے ایک تھیٹر پلے کا اہتمام کیا ۔ تھیٹر ڈرامہ’ سنو ‘کے نام سے پیش کیا گیا اور یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ نوجوان طبقے نے سماجی مسائل کو کس کمال خوبی سے معاشرے کے سامنے سہل انداز میں پیش کیا ہے۔ حمزہ بنگش کے پیش کردہ اس ڈرامے میں متوسط طبقے کے مسائل کو اس طرح لیا گیا ہے کہ ہم یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہمارا رویہ ہماری اولاد پر کس طرح گذرتا ہوگا اس کے اثرات کیسے نمودار ہوسکتے ہیں۔ ڈرامہ’ سنو‘ میں حساس موضوع کو خوب صورت و سہل انداز میں پیش کرنے پر ذہنی صحت کی بحالی کے ادارے تسکین مبارکبار کی مستحق ہے ۔والدین کا رویہ اپنے والدین کی جانب سے ملنے والی میراث ہے کیونکہ گھر ہی اصل تربیت گاہ ہے ، اگر گھر کا ماحول درست ہو تو وہاں پلنے والی نئی نسل معاشرے کا مثبت فرد تیار کرسکتی ہے۔اپنے بچوں کیساتھ رویہ ، اپنے والدین کیساتھ، رویہ اپنے دوستوں کیساتھ رویہ ، اپنے رشتے داروں کے ساتھ رویہ اور کود اپنے ساتھ اپنا رویہ ہمیں بے شمار مسائل کو سمجھنے اورنجات دلانے میں معاون کار ثابت ہوسکتا ہے اگر ہم اس کی مضر اثرات کو محسوس کرسکیں۔تھیٹر ڈرامے ’ سنو ‘ نے یہی کچھ بتانے کی کوشش کی اور میرے اپنے ذاتی تجربے کے سبب مجھے یہ سمجھنے کیلئے کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا کہ تمام تر خرابی یا اچھائی کا آغاز ایک گھر ایک خاندان سے ہوتا ہے ، والدین اپنے خوابوں کی عدم تکمیل کی بنا پر اپنے خوابوں کا محور اپنی اولاد میں تلاش کرتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ان کی اولاد کے اپنے جذبات و منصوبے ہونگے جنھیں وہ بھی آپ کی طرح تکمیل تک پہنچانے کی کوشش میں جُت جانا چاہتا ہے ، کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ہمارے خواب جو ادھورے رہ گئے ہیں تو انھیں اپنی اولاد پر مسلط کرنے سے اجتناب کریں، اس پرجبراََ عمل کرنے کے سبب اگر اس کے مضر اثرات پر غور کریں تو نوجوان نسل ، نشے ، بے راہ روی ، اچھے مستقبل بنانے کی خواہش میں جرائم کی جانب راغب ہوجاتی ہے ۔جرائم پیشہ افراد کا اگر اجمالی جائزہ لیں تو ان میں یہ بات قدر مشترک نظر آتی ہے کہ گھر کی ناہمواری اور والدین کی باہمی چپقلش کی وجہ سے وہ گھر سے دور محفلوں میں وقت گزارنا زیادہ بہتر سمجھتا ہے جہاں کوئی روک ٹوک نہ ہو ، اس کی خواہشات فوری پوری ہو رہی ہوں چاہے جس طریقے سے بھی، یہ عام مسائل اس قدر تیزی کیساتھ سنگین نوعیت کے بن جاتے ہیں کہ بیماری ، گھریلو جھگڑے ، جائیداد کے تنازعات ، تعلیمی بے انصافیاں، معاشرے میں پیسے کی غیر مسا وی تقسیم ، انصاف و قانون کی راہ میں حائل کرپشن ، معاشرے میں رونما ہونے والے دلزوز مناظر ، انسانی ذہن پر اثر انداز ہونے ولاے ناگہانی واقعات بد امنی ، بے سکونی ، عدم تحفظ ، عدم اطمینان ،معاشی مسائل ، فرقہ وارانہ فسادات ، ڈاکہ زنی ، عورتوں کے ساتھ ہونے والے زیادتیاں ، بچوں کی عصمت دری ، بد عنوانیاں ، بلیک میلنگ ، دھوکہ دہی ، بے ایمانی ، حقوق کی پامالی خود کش دہماکے ، دہشت گردی ، اسٹریٹ کرائمز ، ڈکیتیاں ، جیسے واقعات معمول کا حصہ دیکھائی دینے لگتے ہیں ، اس کی صرف ایک ہی بنیادی وجہ ہے ۔گھر سے معاشرے تک عدم تسکین اور عام مسائل سے سنگین مسائل تک مسئلے کو بیماری سمجھنے کے بجائے اس سے اجتناب برتنا ۔ہمیں اپنی ذات کے مضر پہلوؤں کو حل کرنے کیلئے مناسب فورم یا علاج گاہ میں جانے میں کوئی قباحت نہیں جان ہے تو جہاں ہے۔اس لئے خود نظر انداز مت کیجئے ،ملک میں جاری دہشت گردی بد امنی دہماکے غربت ، بے روزگاری ، لوڈ شیدنگ ، خاندانی نظام کی توٹ پھوٹ کے علاوہ بے یقینی اور عدم تحفظ سمیت معاشرتی نا انصافیوں کا احساس اضطراب غصے اور ذہنی امراض کا باعث بنتا ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659023 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.