ناران
(iftikhar Ahmed Awan, Talagang)
پاکستان انتہائی متنوع مناظر،خدوخال، میلوں
لمبے ساحل سمندر سے لے کر بلند ترین پہاڑوں تک اور طویل و عریض صحراؤں پر
مشتمل ہو نے کے سیاحوں کاہمیشہ میلہ رہتا ہے اور ان متنوع مناظر میں سے ایک
مناظر ہے وادی کاغان اس وادی میں پہنچنا تسبتاآسان ہے یہ کہ لیے بہترین
سفری اور رہائیشی سہولتوں کی وجہ سے ہر سال موسم گرم میں سیاحوں کا ایک
ہجوم رہتا ہے۔ اس وادی میں دلکشں حھیلیں،آبشاریں، چشمے، اور سبزے سے بھرے
کھیت اور گلیشیئزز ہر کسی کو اپنے طرف آنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ اس پوری
وادی کو وادی کاغان کہتے ہیں یہ وادی بالاکوٹ سے بابو سر ٹاپ تک ہے اور اس
کا کل سفر ١٦١ کلو میٹر ہے۔ اس علاقے کی خوبصورتی کا راز دریائے کہنار ہےجو
نہی اس علاقے میں پہچنتے ہیں تو اس دریا کا شور آپکو ایک نیئ دینا میں لے
جاتا ہے تب اساس ہوتا ہے کہ ہمارا ملک بھیں کسی سے کم نہی اور آپ جاتے ہوئے
کسی بھی مقام پر اس دریا پر لازمی رکیے گا نہ رکنا اس دریا کا سا تھ زیادتی
ہو گی بلکہ یہ تک کہ اس دریا کے بغیر اس علاقے کو خوبصورتی کچھ بھی نہیں-
ہم براستہ مانسہرہ سے ہوتے ہوئے بالا کوٹ تک کا سفر کیا اس سفر میں ہم آٹھ
لو گ تھے۔ اس سے پہلے آپکو بتاتا چلوں کہ ہم نے آبیٹ آباد کے ایک ہوٹل میں
ناشتا کیا دیسی قسم ناشتا تھا پراٹھوں پر دیسی گھی دال ماش اور چائے مزہ سے
لطف اندوز ہوئے بد قسمتی سے ہمارے ہاتھ میں کیمرے نہی تھے کیمرے گاڑی میں
تھے ہم وہاں تصویر کاشوق پورا نہ کر سے میرے دوست عدنان عالم نے اسرار بھی
کیا مگر اس وقت میں نہ مانا جس کا افسوس مجھے آج بھی رہے گا۔آپ لوگ اس طرح
کی غلطی سے اجتناب کیجئے گا۔
ناشتے کے بعد ہم نے آپنا سفر جاری رکھا جو نہی گاڑی بالاکوٹ سے آگے پہنچئے
تو گرمی کی شدت ہی کم ہو گئی جیسے کسی اور دنیا یہ موسم سرما میں واپس چلے
گئے ہیں اور سٹرک کے ساتھ ساتھ دریائے کہنار کے ٹھنڈے پانی کی ٹھنڈی ہوا ہم
کو اپنی طرف بلانے پر مجبور کر گئی تو میں نے زاہد اقبال اعوان جو ہماری
گروپ کی لیڈ کر رہا تھاکہ ہم سب نے کہا کہ کچھ دیر دریا کے ساتھ گزارہ جائے
وہ آرام سے اپنی سیٹ پہ آنکھیں بند کر کہ کچھ سوچ رہا تھا جونہی اس کی آنکھ
کھلی تو اس نے دریا کی طرف دیکھاتو اس وقت کہا کیوں نہی یہاں کون انکار کر
سکتا ہے رکنے کو تو ہم رک گئے اور ہم سب لو گ جلدی جلدی گاڑی سے اترے اور
سیدھا دریا کے پاس اور جو نہی ہم نہ پاؤں دریا میں ڈالے تو دریا کے پانی نے
ہم کو مجبور کر دیا پاؤں واپس کرنے کو شاہد یہ دریا کے شایان شان نہی تھاکہ
ہم اس میں پاؤں ڈالے اس پر ہم نے دل میں دریاسےمعافی مانگی اور دریا کے
ساتھ جو پتھر تھے اس پہ تصویریں بنانا شروغ کر دی پھر گروپ فوٹو کے لیے ایک
مولانا سا کا سہارا لیا تو اس نے بڑی خوش اسلوبی کے ہماری گروپ فوٹو بنادیا
باقی گروپ والے جب بھی وہ تصویردیکھتے ہیں تو کہتےہیں کہ وہ تیرے دوست نے
کھچنی تھی۔۔
اور اس جگہ ہی ہم نے دریا میں کولڈ ڈرنک کو بوتلیں ڈال ٹھنڈی کی یہ چیز بھی
ہمارے لیے نئی تھی بہرحال کم وقت میں اور بغیر کچھ خرچ کیے ہم نے بوتلیں
ٹھنڈی کر لی۔۔
جاری ہے |
|