سولر بچے

اسلام آباد کے ہسپتال میں ان بچوں کو دیکھنے کے لئے لوگ بے تاب ہو رہے ہیں۔ یہ بچے کوئٹہ سے یہاں لائے گئے ہیں۔ انوکھی بیماری کے شکار ان بچوں کے لاتعددا میڈیکل ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ کوئٹہ سے لاہور اور اسلام آباد تک ابھی کوئی اس بیماری کا نام و پتہ نہیں بتا سکا ہے۔ یہ کون سی بیماری ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں۔ اس کی کیا تشخیص ہو گی۔ علاج کیسے ہو گا۔ کوئی نہیں جانتا۔ اس نئی بیماری کی علامات بھی انوکھی اور منفرد ہیں۔

پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی بیماری ہے۔ اس سے پہلے یہاں اس طرح کی بیماری کی کوئی تاریخ یا مثال نہیں ملتی ہے۔ محمد ہاشم خضدار کے ایک گاؤں کا رہنے والا ہے۔ میاں گھنڈی نامی یہ چھوٹا سا گاؤں کوئٹہ سے صرف45کلوم میٹر دوری پر واقع ہے۔ اس گاؤں میں محمد ہاشم کے گھر پیدا ہونے والے ایک نہیں بلکہ پانچ بچے اس بیماری کے شکار ہوئے ہیں۔ دو کی لاعلاج موت واقع ہو چکی ہے۔اب یہ کل چھ بہن بھائی ہیں۔ دو بہنیں اور ایک بھائی معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن تین بھائی اس نئی بیماری میں مبتلا ہیں۔ شعیب کی عمر14سال، عبدالرشید 9اور الیاس ایک سال کا ہے۔

طلوع آفتاب کے وقت یہ بچے بیدار ہوتے ہیں۔ ان کا جسم معمول کے مطابق حرکت کرتا ہے۔ یہ مدرسے میں قرآن پاک پڑھنے جاتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ اچھلتے کودتے ہیں۔ معمول کی خوراک تناول کرتے ہیں۔سورج ان کی زندگی ہے۔ جوں ہی سورج غروب ہونے لگتا ہے۔ ان کی زندگی بھی غروب ہونے لگتی ہے۔ آہستہ آہستہ ان کے جسم سے توانائی ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ لاغر ہو کر گر پڑتے ہیں۔ غروب آفتاب کے بعد سے ان کے جسم نیم مردہ ہو جاتے ہیں۔ یہ اٹھ بیٹھ نہیں سکتے۔ بات کرنا کجا ہونٹ بھی نہیں ہلا سکتے۔ اور بھر سوجاتے ہیں۔ نیندموت کا دوسرا نام ہے۔ اگلی صبح یہ پھر زندہ ہو جاتے ہیں۔ پھر اسی طرح سورج کے ساتھ ہی ان کی نقل و حرکت ہوتی ہے۔ ان کی زندگی طلوع اور غروب ہوتی ہے۔

گل آفتاب کے بارے میں سب نے سنا ہوگا۔ دیکھا بھی ہو گا۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو یہ پھول کھل اٹھتا ہے۔ یہ سورج کے ساتھ ہی اپنا رخ بھی تبدیل کرتا ہے۔ جس طرف سورج ، اسی جانب اس پھول کا کھلا ہوا چہرہ، رات کو یہ مرجھا جا تا ہے۔ اسی لئے اسے گل آفتاب کہتے ہیں۔ ان بچوں کو کیا نام دیا جائے۔ ڈاکٹروں نے ان کا نام سولر بچے رکھاہے۔ یعنی شمسی توانائی پر چلنے پھرے والے بچے۔ اب شمسی توانائی پر زندہ رہنے والا انسان دریافت ہوا ہے۔ جسے آدم آفتاب یا سولر انسان بھی کہا جا سکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں کہ یہ کیا بیماری ہے۔ اس کے کیا اسباب ہیں۔ علاج کیا ہو گا۔

سچ یہ ہے کہ انسان ہی اپنی ہلاکت کے اسباب پیدا کرتا ہے۔ اس وقت ہمیں دستیاب ہر چیز مصنوعی ہے۔ یہ جعلی اور مصنوعی پن انسان میں بھی ہے۔ بازار میں ہر چیز نقلی دستیاب ہے۔ دودھ دیہی، انڈا، مرغ ، مصالحے سبھی چیز مصنوعی ہے۔ ہم مجبور ہیں۔ جب معیاری چیز نہ ملے تو یہی استعمال کرنا مجبوری ہے۔ دودھ کے بارے میں نئے سروے آ رہے ہیں کہ اس میں واشنگ پاؤڈر، کمیکلز اور زہریلی چیزیں ڈالی ہوتی ہیں۔ یہ دودھ نہیں بلکہ سفیدی ہوتی ہے۔ سفید رنگ بھی ہوتے ہیں۔ یوریا تک اس میں ڈالی جا رہی ہے۔لوگ زہریلی مٹھائیاں اور زہریلا دودھ پی کر مر رہے ہیں۔ زہریلی شراب پی کر مرنے والوں کے قصے سب نے سنے ہوں گے۔شراب ویسے بھی حرام ہے۔ حلال اشیاء بھی زہریلی ہو رہی ہیں۔جن کے استعمال سے انسان کی نشو ونما پر منفی اثر پڑتا ہے۔ مارکیٹ میں کون چیکنگ کرے گا۔ زیادہ تر لوگ راتوں رات دولت مند بننے کی لالچ میں ہیں۔ یہ رشوت ایسے لیتے ہیں جیسے اس پر ان کا حق ہو۔ کہتے ہیں کہ نوکری پر گزر بسر نہیں ہوتا۔ کیا کریں۔ دوم یہاں طبقہ بندیا ں بھی ہیں۔ ایک دفتر میں بیٹھنے والا دو لاکھ روپے تنخواہ لے رہا ہے اور اس کے ساتھ بیٹھا دوسرا چند ہزار روپے لے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ دونوں کے معیار زندگی میں زمین اور آسمان کا فرق ہو گا ۔ نیز ستم یہ کہ دو لاکھ والا چند ہزار والے کو انسان ہی نہیں سمجھتا۔ دونوں ادارے کے ملازم ہیں۔لیکن افسر کم تنخواہ دار کو بھی اپنا ملازم سمجھتا ہے۔ یوں یہ بے چارہ ایک تنخواہ پر کئی ملازمتیں کرتا ہے۔ کئی افسروں کی ملازمتیں۔ اسے ملاوٹ جیسے دو نمبر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جبکہ دو نمبر کام بے ایمانی ہے۔ یہ بالکل جائز نہیں ہو سکتا ہے۔

بازاروں میں ساگ سبزیا ں۔ پھل فروٹ بھی مصنوعی بک رہے ہیں۔ یہ بھی کمیکل سے تیار کئے جاتے ہیں۔ درختوں سے کچے اتار کر ان پر زہریلی ادویات چھڑکی جاتی ہیں۔ یہ فوری پک جاتے ہیں۔ قدرت کے ساتھ یہ ہمارا ہتک آمیز مقابلہ ہے۔ انسان اﷲ کے مد مقابل کچھ بھی نہیں آسکتا۔ قدرت سے کوئی نہیں لڑ سکتا۔

شمسی توانائی اور چاندنی راتیں بھی ہر جاندار کے لئے انتہائی مفید ہوتی ہیں۔ ان میں طاقت، مٹھاس، ٹھنڈک، یعنی ہر توانائی کا پہلو ہے۔ معلوم نہیں یہ بچے وتامنز یا پروٹینز یا کسی دیگر کمی کا شکار ہوئے۔ ان کے سیکروں ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ ابھی بھی جاری ہیں۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی سکول آف میڈیسن امریکہ، برطانیہ کے نیشنل ہوسپیٹل فار نیورالجی اید نیوروسرجری اور دیگر سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنز یا پیمز ہسپتال اسلام آباد کے ڈاکٹروں کے ساتھ ملک بھر کے ڈاکٹروں سے رابطے ہو رہے ہیں۔ ٹیسٹوں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

یہ تین بھائی ہی اس بیماری میں مبتال نہیں بلکہ ان کے دو بھائی اس مرض کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان کا والد چھوٹا کسان بھی ہے اور آئی ٹی یونیورسٹی میں نائب قاصد بھی ہے۔ اس نے اپنی کزن کے ساتھ شادی رچائی ہے۔ تا ہم حیرانی ظاہر کی جا رہی ہے ان کی دو بہن بالکل صحت مند ہیں۔ اگر پاکستانی ڈاکٹرز اس بیماری کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان دنیا کونئے بیماری سے متعارف کرنے والا ملک بن جائے گا۔ میڈیکل کی تاریخ میں پاکستان کے لئے انوکھی بیماری اور اس کی تشخیص اور علاج کا ایک موقع ہے۔ وفاقی حکومت نے ان بچوں کے علاج کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ سرکاری خرچ پر ان کے ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں۔ اﷲ کرے یہ بچے جلد صحت یاب وشفایاب اورپاکستان تمام بیماریوں سے محفوظ ہو۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 479658 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More