احتساب آخر کب ہوگا؟

کچھ نعرے ایسے ہیں جن کو سنتے سنتے برسوں بیت گئے، لیکن نہ تو وہ نعرے تبدیل ہوئے اور نہ شرمندہ تعبیر ہوئے، بلکہ ان نعروں کا مقصد ہی صرف سیاسی درجہ حرارت کو بڑھانا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک نعرہ کرپشن کے خاتمے اور بلاتفریق احتساب کا نعرہ ہے، جس کو ہم میں سے ہر فرد نے ضرور سنا ہوگا، لیکن ان نعروں پر آج تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔ بااثر افراد سالوں بعد بھی پوری آزادی کے ساتھ کرپشن کررہے ہیں، لیکن کسی کا احتساب نہیں ہوسکا، اگر کسی کے خلاف کوئی کیس دائر ہوا بھی ہے تو اس کیس کی فائلوں پر گرد اٹی پڑی ہے۔ ملک میں ایک بار پھر احتساب احتساب کی صدا گونج رہی ہے۔ ہر کوئی دوسرے کے احتساب کا مطالبہ کر رہا ہے۔ پانامہ لیکس کے معاملے میں سب سے زیادہ ملک کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے احتساب کی دہائی دی جارہی ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سمیت پوری اپوزیشن کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں، اس لیے سب سے پہلے ان کا احتساب ہونا چاہیے۔ اپوزیشن جماعتیں مشترکہ اجلاس میں وزیر اعظم کے خاندان سے احتساب کے آغاز پر اتفاق کرچکی ہیں۔ آرمی چیف کے بلاتفریق احتساب کے اعلان اور بعض افسران کی معطلی کے بعد سے تو نہ صرف سیاست دانوں پر احتساب کے حوالے سے دباﺅں بڑھ گیا ہے، بلکہ ملک میں ہر جانب سے احتساب احتساب کے شور میں مزید اضافہ بھی ہوگیا ہے۔

ملک میں احتساب کا نعرہ آج سے نہیں بلکہ برسوں سے لگایا جارہا ہے، لیکن قیام پاکستان کے بعد سے آج تک وہ احتساب نہیں ہو سکا جو بیک وقت کڑا اور کھرا ہو، کیونکہ ہر کوئی دوسرے کا احتساب کرنے پر تلا ہوا ہے اور خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان میں احتساب کے سب قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عملی نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ جو بھی شخص چاہے کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو، اگر اس نے ملک کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچایا ہو، ملک و قوم کی دولت میں خیانت کی ہو اور ٹیکس چوری کی ہو تو اس کا احتساب ضرور ہونا چاہیے اور احتساب کا عمل اسی وقت کامیاب ہوتا ہے، اگر اس کی ابتدا اپنی ذات سے ہو، سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا جائے۔ اگرچہ خود احتسابی کا عمل اپنے آپ سے شروع ہو کر اپنے آپ پر ختم ہونے والا عمل ہے، لیکن جب ہر شخص خود کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہے تو اس عمل سے پیدا ہونے والے نتائج و ثمرات کا دائرہ اپنی ذات اور اپنے گھر سے ہوتا ہوا پورے معاشرے تک وسعت اختیار کرتا چلا جاتا ہے، لیکن ملک میں جب بھی احتساب کا نعرہ لگتا ہے تو اس کا مطلب دوسروں کا احتساب، گزرے لوگوں کا احتساب، مخالفین کا احتساب ہوتا ہے، جسے یوں کہا جاسکتا ہے کہ احتساب صرف وہی ہے جو صرف دوسروں کا ہو اور سب کے احتساب کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ میرے سوا سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ اسی رویے کی وجہ سے آج تک ملک و قوم کی دولت لوٹنے والوں کے ہاتھ روکا جاسکا ہے اور نہ ہی ملکی دولت کو ہتھیانے والوں کا احتساب ہوسکا۔ اس وقت حقیقی احتساب، کڑے احتساب، سب کے احتساب، بروقت اور شفاف احتساب کی اشد ضرورت ہے۔ اگر یہ ہوسکتا ہے تو فوری کیا جائے، ورنہ ماضی کی طرح ایک بار پھر عوام تو بے وقوف بننے کے لیے تیار بیٹھے ہی ہیں۔

افسوس ہے کہ ہمارے ہاں کچھ عرصے کے بعد احتساب کی گونج تو سنائی دیتی ہے اور تمام اداروں میں احتساب کرنے کی بات بھی کی جاتی ہے، لیکن کچھ عرصے کے بعد بڑے بڑے لوگ اپنے مفادات کی خاطر خود ہی مل جل کر احتساب کی تحریک کو ختم کردیتے ہیں، کیونکہ سب کو اپنے احتساب کی فکر لاحق ہوجاتی ہے اور کچھ عرصے کے بعد احتساب کے عمل کو سب بھول جاتے ہیں اور یوں ہمیشہ احتساب کا عمل سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ ملک کا کوئی بھی شعبہ ہو یا ادارہ اگر احتساب کا عمل خود ایک سوالیہ نشان بن جائے تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ احتساب کا عمل تب ہی مکمل ہو سکتا ہے جب احتساب شفاف طریقے سے اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ احتساب کا عمل کبھی بھی شفاف نہیں رہا۔ ہمیشہ احتساب کا عمل حکمرانوں اور سیا ست دانوں کے آپسی مفادات کی نذر ہوجاتا ہے۔ ہر دور میں احتساب کے عمل کو حکومت وقت اور طاقت کے حامل اداروں نے اپنی دھاک جمانے کے لیے استعمال کیا۔ ملک میں جب بھی احتساب کا نعرہ لگتا ہے تو اس وقت بھی سیاست دان آپ کے مفادات کو سامنے رکھ کر ایک دوسرے کو بچا لیتے ہیں، اگر کوئی غریب اور کمزور سی کوئی غلطی ہوجائے تو اس کو تو فوراً سزا سنا دے دی جاتی ہے، جبکہ بااثر طبقہ قومی دولت سے اربوں کھربوں روپوں کی کرپشن بھی کر لے تو اس کا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ ملکی تاریخ میں ایسے بیسویں نہیں، بلکہ ہزاروں واقعات پیش آئے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں قانون صرف کتابوں کی حد تک محفوظ ہے اور صرف غریبوں کے لیے ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں جس کاجس حیثیت میں بس چلا اس نے دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا، لیکن دیا کچھ نہیں ہے اورجب ملک کو لوٹنے والوں کے احتساب کی بات کی جاتی ہے تو سب کی انگلیاں دوسروں کی جانب اٹھنا شروع ہوجاتی ہیں، خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا میں وہی اقوام بلند مراتب حاصل کرتی ہیں، جن میں شفاف احتساب کا عمل جاری رہتا ہے۔ جن معاشروں میں احتساب کا عمل ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہاں لاقانونیت، افراتفری، بد امنی، بے ضابطگی، بے قاعدگی، بد عنوانی اور انارکی فروغ پاتی ہے۔ ہمارے زوال کے اسباب میں سے ایک بڑا اور اہم سبب بھی احتساب سے دوری ہے۔احتساب صرف اداروں، سیاستدانوں اور کچھ افراد کا ہی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہر شخص کو انفرادی طور پر بھی اپنا احتساب کرنا چا ہیے، کیونکہ خود احتسابی ہر فرد کا دینی، قومی، اخلاقی، سیاسی اور سماجی فریضہ ہے، اس ضمن میں کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ عام شہری سے اعلیٰ منتخب حکمران، ماتحت عدالت کے اہل کاروں سے عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان، سیاسی جماعت کے گلی کوچے کے کارکن سے پارٹی کے سربراہ تک سب کو اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ بحیثیت مجموعی ہم میں سے کوئی بھی نہ تو خود کو اپنے احتساب کے لیے پیش کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی خود اپنا احتساب کرتا ہے۔ خود احتسابی دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے، کیونکہ انسان اپنی فطرت کے مطابق خود کو خامیوں سے پاک سمجھتے ہوئے تمام غلطیوں کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہراتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہاں وہی دیانت دار ہیں، جو بے اختیار ہیں، جبکہ باقی اکثریت کا جہاں جتنا بس چلتا ہے، کرپشن کرتا ہے، جن کا احتساب ضروری ہے، چاہے وہ کتنا ہی بااثر ہو اور کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.