ٹرک کی بتی کا پیچھا چھوڑو
(Shehzad Aslam Raja, Lahore)
لو جی صاحبو آج پھر سے پاناما کی پٹاری کھلنے جارہی ہے اور اس وقت یہ سطور لکھتے وقت پاناما کا پارٹ ٹو آنے میں کچھ ہی گھنٹے بچے ہیں جس میں کم و بیش چار سو افراد کے نام سامنے آنے والے ہیں۔ جب تک میرے یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ آپ صاحبان کے سامنے آئیں گے تب تک آنے والے چار سو ناموں میں ہمارے سیاسی لیڈر ان اور ان کے ہم نواؤں کے نام سامنے آجائیں گے ۔ |
|
لو جی صاحبو آج پھر سے پاناما کی پٹاری
کھلنے جارہی ہے اور اس وقت یہ سطور لکھتے وقت پاناما کا پارٹ ٹو آنے میں
کچھ ہی گھنٹے بچے ہیں جس میں کم و بیش چار سو افراد کے نام سامنے آنے والے
ہیں۔ جب تک میرے یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ آپ صاحبان کے سامنے آئیں گے تب تک آنے
والے چار سو ناموں میں ہمارے سیاسی لیڈر ان اور ان کے ہم نواؤں کے نام
سامنے آجائیں گے ۔ ابھی کچھ دیر قبل ایک نجی ٹی وی چینل پر حکومتِ وقت کے
ایک وزیر مملکت ایک ٹاک شو میں اپوزیشن میں شامل ایک اونچے نام کے سوال کے
جواب میں فرما رہے تھے کہ پاناما پیپر میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد
نواز شریف صاحب کا نام شامل نہیں البتہ ان کے خاندان کے افراد جن میں ان کے
بیٹے حسین نواز اور حسن نواز جو کہ غیر ملک میں رہتے ہیں اور وہاں کاروبار
کرتے ہیں کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹی مریم نواز اور ا ن کے داماد کا نام بھی
کسی نا کسی واسطے سے شامل ہیں ۔ مذکورہ وزیر صاحب کا کہنا تھا کہ حسین نواز
اور حسن نواز جس ملک میں رہتے ہیں وہاں پچھلے بیس ، پچیس سال سے اپنا
کاروبار کررہے ہیں وہ خود مختار و خود کفیل بھی ہیں ، وہاں کے قانون کے
مطابق انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔اب چونکہ وزیر اعظم صاحب کا نام
پاناما پیپر میں نہیں ہے اس لئے ان کا پاناما پیپر کے بارے وضاحت دینا
ضروری نہیں لیکن پھر بھی وہ خود کو اپنے خاندان کو احتساب کے لئے پیش کرتے
ہیں ۔ یہ میاں صاحب کا بہت اچھا قدم ہے اور دلیرانہ فیصلہ بھی۔
صاحبو ! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بچے پچھلے پیس پچیس سال سے غیر ملک
میں اپنا کاروبار اپنی خود مختاری اور خود کفیلی میں کر رہے ہیں تو ان کے
کاروبار کے لئے ابتدائی رقم ان بچوں کے پاس کیسے آئی ؟ کیا وہ اپنے منہ میں
سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے تھے ؟ کیا ہم اپنے بچے کو کاروباری لائن میں
ڈالنے سے پہلے ابتدائی رقم نہیں دیتے جو کہ ایک قسم کی ’’جاگ ‘‘ ہوتی ہے ۔
’’جاگ‘‘ لگتی ہے تو دہی جمتا ہے بِنا ’’جاگ‘‘ کے دہی کیسے جما ؟ ۔ اپوزیشن
والوں کے منہ بند کروانے اور خود اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کے لئے وزیر اعظم
صاحب کو چاہیئے کہ جس دن سے وہ سیاست میں آئے تب سے اب تک کا سارا حساب
ایوان میں عوام کے نمائندوں کے سامنے رکھ دیں اور سب پر واضح کر دیں کہ
انہوں نے اپنے کاروبار سے کیا کچھ کمایا اور کرسی پر بیٹھ کر کیا کچھ کھویا
۔ جو کچھ پایا وہ اگر قابلِ ٹیکس آمدنی تھی اس کاپورا ٹیکس ادا کیا یا نہیں
، تما م آمدن جس سے حسین نواز اور حسن نواز کے کاروبار کو ’’جاگ‘‘ لگائی وہ
آمدن جائز ہے ۔ اگر میاں صاحب کا دامن صاف ہے تو ڈر کس بات کا ؟
ملک میں ایسی قانون سازی کی جائے کہ جس پر بھی الزام ثابت ہو جائے اسے کڑی
سے کڑی سزا دی جانی چاہیئے چاہے وہ وزیر اعظم صاحب کے خاندان سے تعلق رکھتا
ہو یا وہ تحریک انصاف سے جڑا ہو، آصف زرداری ہو یا عمران خان، جہانگیر ترین
ہو یا علیم خان ہوسب کا کڑا احتساب ہو اور قصور وار کو بلا امتیاز سزا ملی
چاہیئے ۔
صاحبو! ایسا تب ہو گا جب ہم خود کو خوابِ غفلت سے جگائیں گے۔ اپنے اندر کے
انسان کو جھنجھوڑ کر اٹھائیں گے۔ ہم سیاستدانوں کی ’’ٹرک ‘‘ کی بتی کے
پیچھے چلنا چھوڑ دیں گے جس کے پیچھے وہ ہم سب کو بڑی مہارت سے لگا دیتے ہیں
۔ اگر ہم آج نہ اٹھے تو ہمارا حال اُس بادشاہ جیسا ہو گا جس کی تمام اولاد
میں خیر سے لڑکیاں ہی تھیں ۔ کچھ سال بعد اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ۔اب
محل میں وہی ایک لڑکا تھا ۔ شاہی خاندان کے افراد کنیزیں ، لونڈیاں سبھی
عورتیں تھیں شہزادے کی پرورش اسی ماحول میں ہورہی تھی ۔ ایک دن محل میں
اچانک آگ بھڑک اٹھی ۔ آگ بجھانے کے لئے کوئی مرد موجود نہیں تھا۔ شور مچ
گیا سبھی عورتیں چلانے لگیں ’’کسی مرد کو بلاؤ ‘‘ ’’کسی مرد کو بلاؤ ‘‘ اب
اس چیخ و پکار میں سب سے بلند آواز ’’کسی مرد کو بلاؤ‘‘ ’’کسی مرد کو
بلاؤ‘‘ ’’کسی مرد کو بلاؤ‘‘وہ شہزادے کی آواز تھی ۔شہزادہ جو کہ عورتوں میں
پلا بڑھا تھا اے معلوم نا ہوسکا کہ وہ خود بھی اک مرد ہے۔اب یہ ہی حال ہم
’’نادان ‘‘ عوام کا ہے جو سالوں سے خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور
سیاستدانوں کے ٹرک کی بتی پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ ایک دوسرے کو جھنجھوڑ کر
اندر کاضمیر جگاؤ، خدارا اپنے اندر کا ضمیر جگاؤ ۔ مگر اپنے اندر کا ضمیر
نہیں جگا رہے ہم بھول چکے ہیں کہ ہمارے اندر بھی ایک ضمیر ہے جسے ہم نے
ابھی تک نہیں جگایا۔اپنا ضمیر جگاؤ اور ٹرک کی بتی کا پیچھا چھوڑو ۔ |
|