تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور فرقہ پرستی ،جمہوریت پسند ہندوستانی عوام
کیلئے فی الوقت اہم ترین مسئلہ ہے جس کے اثرات آج شدت کے ساتھ پورے ملک میں دکھائی
دے رہے ہیں اس کی رفتار تو ایک عرصہ سے بدستورقائم ہے ، لیکن ادھر کچھ دنوں سے
مہنگائی اپنی رفتار کو بھی پیچھے چھوڑ چکی ہے جس کی مسلسل مار عوام کیلئے ناقابل
برداشت ہوتی جارہی ہے ۔
شاہ فیصل (سعودی عرب)عالمی پیمانے پر بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان تھے۔ ان کی
خواہش تھی کہ سعودی عوام پر اس مہنگائی کی ضرب کم سے کم پڑے ۔اس کے تدارک کے لیے
انہوں نے ملک کے تمام چھوٹے بڑے تاجروںکی میٹنگ طلب کی ، ان سے کہا مجھے معلوم ہے
کہ اس وقت پوری دنیا میں مہنگائی کا گراف بڑھا ہے ، ایسے میں سعودی مملکت اس سے
مستثنیٰ کیونکر رہ سکتی ہے۔ میں چاہتا ہوںکہ آپ لوگ بازار کے نرخ کو سابقہ نرخ پر
قائم رکھیں ،اسے بڑھنے نہ دیںتاکہ عوام بے چینی اور پریشانی کاشکار نہ ہو ،ظاہر ہے
اسطرح سے آپ لوگوںکو شدید خسارے کا سامنا کرنا ہوگا اس صورت میںہونے والے نقصانات
کی بھرپائی حکومت کرے گی۔
کسی بھی حکومت کے قیام کا اصل مقصد اورذمہ داری یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو ہر
طرح کی سہولتیں فراہم کرے تا کہ ملک بدامنی کا شکار نہ ہو اور ہر طرف امن وسکون
قائم ہوجائے،اس کے بغیر ایک کامیاب ترین حکومت کاتصور ممکن نہیں ۔ڈاکٹر من موہن
سنگھ کے دورحکومت میں ایک عوامی اجتماع کے دوران جب ان سے سوال کیاگیا کہ ملک میں
بے تحاشا بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تعلق سے آپ کی حکومت نے کون کون سے اقدامات اٹھائے
ہیں اور ذاتی طور پر یا بحیثیت وزیر اعظم آپ نے کیاکیاتدارکی تدابیر اختیار کیں،
انہوں نے جواب میںکہا تھا’’ کیا میرے پاس کوئی جادوئی چھڑی ہے جسے گھمادوں اور چشم
زدن میں مہنگائی ختم ہو جائے ‘‘ اس بیان کے بعد بھی وہ برسوں اقتدار پر جمے رہے
اپوزیشن کے ساتھ شطرنجی چالوں میں مصروف رہے شہ اور مات کا کھیل جاری رہا اور
بالآخر ایک دن اقتدار سے بے دخل کردیئے گئے ،لیکن مہنگائی کے تعلق سے کچھ نہ کرسکے
، سرکار تبدیل ہوگئی جس کے لئے موجودہ وزیراعظم نریندرمودی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا
دیا اچھے دن آنے والے ہیںجیسے نعرے کے نام پر انہوں نے بہت سے وعدے کئے جس میں
مہنگائی پر قابو پانا ان کی ترجیحات میں سرِفہرست طور پر شامل تھا لیکن وہ بھی ابھی
تک کچھ نہ کرسکے۔ کوئی کام محض تقریروں اور وعدوں سے نہیں ہوتا اس کے لئے عمل پیہم
اور مخلصانہ فکر مندی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مہنگائی کی مارعوام پر بڑھتی جا رہی ہے اس
کی رفتار اس قدرتیز ہے کہ ہر صبح کو نکلنے والا سورج مزید مہنگائی کے ساتھ طلوع
ہوتا ہے۔اس کااثرخواص پر بھلے ہی نہ ہولیکن عام لوگوں کی حالت بد سے بدترہوتی جارہی
ہے ان کی زندگیوں میں ویرانی اوراداسی کا گھیرا بڑھتا جا رہا ہے۔ریاستی اور مرکزی
حکومتیں بجٹ پیش کرتی ہیں تو وہ بھی خسارے کا ہی ہوتا ہے اور ہر سال خاطر خواہ
ٹیکسز اور محصولات میں معقول اضافے کے باوجود اگلے بجٹ میں پھر خسارے کا اعلان کیا
جاتا ہے۔ آخر ایسی کوئی محاسبہ کمیٹی کیوںنہیں قائم کی جاتی جو متعلقہ محکموں کے
وزراء،اعلیٰ حکام اورملازمین کامحاسبہ کرتی ۔ معمولی معمولی امراض کے علاج کے لیے
لیڈران اور وزراء غیر ملکی اسپتالوں میں علاج کی خاطر مہنگے سے مہنگا سفرکرتے ہیں
اور بے تحاشا دولت صرف کرتے ہیں کیا ملک کے اسپتال اس لائق نہیں یا وہ صرف غریبوں
کے علاج کے لیے قائم کئے گئے ہیں۔
مہنگائی کی رفتار تیزرفتار ٹرینوں کو بھی مات کررہی ہے ۔ابھی ہم گذشتہ تین چار سال
قبل کی ہی بات کررہے ہیں ، عام ہوٹلوں اور چائے خانوں میں پانچ روپئے میں ملنے والی
چائے اب عام طور سے دس روپئے میں فروخت ہو رہی ہے اوراگر ذرا سا اونچے درجہ کے
ہوٹلوں میں جائیں تو یہی چائے پندرہ سے بیس روپئے میں فروخت کی جاتی ہے۔اسی طرح سے
دیگر اشیاء کی بڑھتی قیمتوں پر بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔روزمرہ کی وہ اشیائے ضروریہ
جو انسانی زندگی کے لیے لازم وملزوم کا درجہ رکھتی ہیں جس میں اناج سبزی ترکاری تیل
اورکپڑے وغیرہ شامل ہیں ان کی قیمتوں میں روزبروز کے اضافے سے عام زندگی اجیرن ہو
کر رہ گئی ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ یہاں کی حکومت شاہ فیصل والا اقدام کرے کیوںکہ ہر
ملک کے اپنے اپنے وسائل وذرائع ہوتے ہیں مسائل ومعاملات جدا ہوتے ہیں لیکن اتنا
ضرور کہیں گے کہ حکمرانوں کو شاہ فیصل والی سوچ توضرور پیدا کرنی چاہیئے جس میں
اپنے عوام کے لیے سچی ہمدردی اور خلوص ہو صرف جادو کی چھڑی اوراچھے دن آنے والے
جملے کہہ دینے کام نہیں چلے گا اس کے لیے ہمت جٹانی ہوگی،عوام کے ساتھ سچی ہمدردی
دکھانی ہوگی ،اپنے آرام اور تعیش کی قربانی دینی ہوگی،عوامی خزانے کو محفوظ رکھنے
کے لیے ہر اس بدعنوانی کومٹانا ہوگا جس کے سبب سرکاری خزانہ خالی ہو جاتاہے۔اس کے
ساتھ ہی یہ بھی دھیان دینا ہوگا کے پرائیویٹ سیکٹر کے افراد اپنی من مانی نہ کر
سکیں اور اس من مانی کے عمل میں سرکاری اہلکارا نہیں جو تعاون دیتے ہیں ان پر نظر
رکھنی ہوگی ۔کیونکہ ان کا یہ تال میل نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس کے
مضراثرات عوامی سطح پرتباہی پھیلا کر انہیں زندہ درگور کردیتے ہیں۔حکومت اپنا بجٹ
بڑھاتی ہے نئے نئے ٹیکسزنافذکرتی ہے اسی طرح مختلف سرکاری محکمے پیٹرولیم،ریلویز
اور ٹرانسپورٹ وغیرہ بجٹ کے علاوہ سال میں کئی کئی بارقیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں جن
سے پرائیویٹ سیکٹر والوں کے حوصلے بڑھتے ہیں اور وہ بھی دل کھول کر قیمتیں بڑھا
دیتے ہیں اوران کی گرفت اور نگرانی پر متعین افسران اور نوکر شاہوں کو ٹیبل کے نیچے
سے لفافے تھما دئیے جاتے ہیں اور سب کچھ چلتا رہتاہے۔اسی طرح سے الیکشن فنڈکے نام
سے مختلف سیاسی پارٹیاں بڑے بڑے پونجی پتیوںتاجروں اور صنعت کاروں سے لمبی لمبی
رقمیں وصول کرتی ہیںاور اقتدار کے حصول کے بعدپانچ سال تک انہی پونجی پتیوں کا پیٹ
بھرتی ہیںجن کا پیٹ دوزخ سے بھی بڑا ہے جو شایدکبھی بھرنے والا نہیں ۔ایسے میں عوام
کا پیٹ بھلا کیسے بھرسکے گا۔اچھے دن تبھی آئیں گے جب لوگوں میں ایمانداری خلوص
اورنیک نیتی پیدا ہوگی، ملک سے اور ملک کے عوام سے وفاداری کاجذبہ پروان چڑھے گا
۔اس کے لیے چاہے وہ حکمراں طبقہ ہو،یاعوام سبھی کو تیار رہنا بہت ضروری ہے۔ |