قاتل حسینہ

1971میں انسانیت کے خلاف جرائم میں کون لوگ ملوث تھے۔ پاکستان کو دو لخت کس نے کیا۔ الشمس اور البدر کس کی پیداوار تھی۔ اندرا گاندھی نے بنگلہ دیش میں قتل عام کا آغاز کیسے کیا۔ بنگالیوں کو اسلحہ ، تربیت، پیسہ کیسے ملا۔ بھارتی علاقوں میں ٹریننگ کیمپ قائم ہونے کے بعد سے یہ سوالات اٹھائے جاتے رہیں ہیں۔ اندرا نے مکتی باہنی کو مسلح کیا۔ بھارتی فوج کے کمانڈوز ڈھاکہ پہنچائے۔ انھوں نے مل کر قتل عام کیا۔لاکھوں لوگ موت کے گھاٹ اتار دیئے۔ سارا الزام پاک فوج پر ڈال دیا۔ پاک فوج کی حمایت کرنے والوں کو آج45سال بعد چن چن کر تختہ دار پر لٹکایاجا رہا ہے۔ بھارت کی کٹھ پتلی شیخ حسینہ واجد حکومت اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی کر رہی ہے جو پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں 1974کو طے پایا تھا۔ جس کے تحت تینوں میں سے کوئی بھی ملک 1971اور اس سے پہلے کے واقعات کی بنیاد پر کسی فرد پر مقدمہ قائم نہیں کر سکتا۔ بنگلہ دیش اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہے۔ بے گناہ لوگوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ پاکستان معاہدے کی خلاف ورزی پر بنگلہ دیش حکومت کے خلاف متعلقہ فورموں پر مسئلہ اٹھائے۔

امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مولانا مطیع الرحمان نظامی کا ایک ہی قصور تھا۔ ملک کو ٹکڑے کرنے کی مخالفت اور پاکستانی افواج کی حمایت۔ جس پر قاتل حسینہ واجد نے انہیں بھی شہید کر دیا۔ بھارتی اور پاکستان دشمنوں کی حمایت یافتہ حسینہ اسلام پسندوں کے لہو کی پیاسی ہیں۔ یکے بعد دیگر انہیں تختہ دار پر لٹکا کر بھارت اور اسلام دشمنوں کی داد وصول کر رہی ہیں۔
تختہ دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی ادا ٹھہری ہے

عبد القادر ملا، پروفیسر غلام اعظم، علی احسن مجاہد ، محمد قمرالزمان، میر قاسم علی اور اب مولانا مطیع الرحمان نظامی شہید کی قربانیاں کیا رنگ لائیں گی۔بی این پی کے صلاح الدین قادر چوھدری بھی حسینہ کے انتقام کا نشانہ بن گئے۔ ان بے گناہوں کو قتل کرنے پر قاتل حسینہ اور اس حکومت کے کارندوں کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمات قائم کئے جانے چاہیئں۔ پاکستان میں یہ مقدمے قائم کئے جا سکتے ہیں۔ اگر پاکستان میں پٹھانکوٹ حملے کی ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے تو بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان کے حامیوں کے قتل عام کی ایف آئی آر پاکستان میں کیوں درج نہیں کی جا سکتی۔

مولانا مطیع الرحمان کابینہ وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بنگلہ دیش قائم ہونے کے بعد اس ملک کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ملک و قوم کی خدمت کی۔ اس کے باوجود وہ شیخ مجیب الرحمان کی باقیات کے تعصب کا نشانہ بن گئے۔ جن لوگوں نے ڈھاکہ میں یونیورسٹی اساتذہ اور دیگر دانشور حضرات کو قتل کیا۔ وہ آج بھارت میں حکمران ہیں۔ اندرا گاندھی دردناک انجام کو پہنچ گئیں۔ ان کے فرزند کا بھی برا انجام ہوا۔ سزا اسلام پسند بنگالیوں دی جا رہی ہے۔ قومی اور پنجاب اسمبلیوں میں مذمتی قراردادیں منظور کی گئیں ۔ صرف مذمت ہی کافی نہیں۔

بنگلہ دیش کی عدلیہ بھی متنازعہ کردار ادا کر رہی ہے۔ اس نے اسلام پسندوں کے خلاف یک طرفہ مقدمات اور شواہد و دلائل کے بغیر ہی فیصلے صادر کئے۔ ملزموں کو اپنے دفاع کی اجازت نہ دی گئی۔ شفافیت کو مدنظر نہ رکھا گیا۔ وکلائے صفائی ، گواہوں اور دیگر کو ہراساں کیا گیا۔ آزاد عدلیہ پر دھبہ لگا دیا گیا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے۔ جس میں 1974کے معاہدے کا ذکر ہے۔ مگر بنگلہ دیش حکومت پاکستان پر اس معاہدے کی غلط تشریح کا الزام لگا رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ اس معاہدے کے تحت بنگلہ دیش 1971کے واقعات کی سزا ئیں اس طرح دینے کا روادار نہیں۔ مولانا مطیع الرحمان نظامی اور ان کے ساتھیوں نے صرف متحدہ پاکستان کے آئین و قانون کی پاسداری کی۔ پاک فوج کا ساتھ دیا۔ مکتی باہنی اور بھارتی فوج کی دہشت گردی کی مخالفت کی۔ ان دہشت گردوں کی جانب سے بنگالیوں کے قتل عام کی مذمت کی۔ اسی لئے ان کے خلاف 2009سے مقدمات کی شنوائی شروع ہوئی۔ جنگی مجرموں نے اسلام پسندوں کو جنگی مجرم قرار دے دیا۔ پاکستان نے اگر چہ سخت احتجاج کیا ہے۔ جس پر ڈھاکہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر شجاع عالم کو بنگلہ دیش دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور انہیں احتجاجی نوٹ دیا گیا۔

بنگلہ دیش اس معاہدے کو تسلیم کرتا ہے ۔ وہ معاہدے کو اسلام پسندوں کے عدالتی قتل سے الگ رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش حکومت کی جانب سے بے گناہوں کے عدالتی قتل کی مذمت کرنے میں حق بجانب ہے ۔ یہ عمل گمراہ کن نہیں ہو سکتا۔ جنگی جرائم کا مقدمہ مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے خلاف درج کرنے کے بجائے اسلام پسندوں کو ہی پھنسا دیا گیا۔ 1971میں قتل عام کے جنگی مجرم، منصوبہ سازسزا سے ساف بچ گئے اور معصوموں کو مجرم قراردے کر پھانسیاں دی اج رہی ہیں۔ قاتل حسینہ سے اس ظلم اور نا انصافی کی جواب طلبی ہونی چاہیئے۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔

ڈھاکہ سنٹرل جیل میں مولانا نظامی پھانسی پر جھول گئے مگر اپنی غیرت کا سودا نہ کیا۔ انھوں نے اور ان کے خاندان نے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ اسی لئے تین بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ بی این پی کے دور حکومت میں بیگم خالدہ ضیاء کی کابینہ میں بھی شامل رہے۔ وہ تقریبا ڈیڑھ دہائی تک جماعت اسلامی کے سربراہ رہے۔ انھوں نے جماعت کے اندر نئی روح پھونکی اور کارکنوں کی تربیت کی جانب خاص توجہ دی۔

مولانا مطیع الرحمان نظامی کی شہادت پر بھارت نے خوشی کا اظہار کیا۔ بھارتی وزارت خارجہ (مغرب) کے سکریٹری سجاتہ مہتہ اور جوائنٹ سیکریٹری سری پریا رنگا ناتھن نے ڈھاکہ میں ان کی پھانسی کی نگرانی کی۔ انھوں نے اس پھانسی پر بنگلہ دیش کے وزیرمملکت خارجہ شاہریر عالم اور خارجہ سکریٹری شاہدالحق سے ملاقات میں مبارکباد دی اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا قاتل حسینہ کے نام پیغام پہنچایا۔ ان ملاقاتوں کے بعد ہی بنگلہ دیش نے پاکستان کے ردعمل کو اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ۔ وزر داخلہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کے ردعمل سے ثابت ہوا کہ مولانا نظامی ہمارا غدار اور پاکستان کا وفادار تھے۔ اگر پاکستان کو ان کی فکر لاحق تھی تو اسے پاکستان لے جاتے۔

بنگلہ دیش حکومت بھارت اور پاکستان دشمنوں سے شے پا کر اشعال انگیزی پر اتر آئی ہے۔ قانونی ماہرین اور عالمی حیثیت کے حامل معاہدوں کے نکتہ داں حضرات بنگلہ دیش کی قاتل حسینہ اور اس کے کارندوں کے خلاف جنگی جرائم اور نہتے و معصوم لوگوں کے عدالتی قتل پر ضروری اقدامات تجویز کریں تو یہ اسلام آباد حکومت کے لئے فائدہ مند ہوں گے۔ نیز شیح حسینہ واجد کی دہشت گردی سے بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کو تحفظ فراہم کرنے پر غور و خوض کیا جانا لازمی بن گیا ہے۔بنگلہ دیش نے اپنی عدلیہ کو اپنے انتقام کے لئے سیاسی آلہ کار بنا دیا ہے۔وہ اسلام پسندوں کا آزادانہ اور شفاف ٹرائیل یقینی بنانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اﷲ مولانا مطیع الرحمان نظامی سمیت تمام شہداء کی شہادت قبول فرمائے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555918 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More