بھارتی سفارت کاروں کے سامنے کشمیرپرپاکستانی بے بسی کا رونا

 زیادہ ترپاکستانیوں کی رائے میں فوج اصل حکمران جماعت ہے جس کی ایما اور مشاورت سے ہی خارجہ اور داخلہ امور طے پاتے ہیں ، اگر ایسا ہے تو تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بھی فوج کی خاص پالیسی ہوگی جس میں کشمیریوں کی رائے بھی شامل ہوگی، سرحدی و ریاستی امور کے وفاقی وزیر لیفٹنٹ جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ کے اعداد وشمار میں پاکستان کی مسلح افواج میں 15فیصد جنرلز کا تعلق کشمیر سے ہے ، جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ نے اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک سٹڈیز کے زیر اہتمام انسانی حقوق ، نوجوان اور مسلہ کشمیر پر سمینار میں بتایا کہ کشمیر آزاد ہوگاتو پاکستان کے قریب تر ہوگا کیوں کہ کشمیر کے 11قدرتی راستے پاکستان سے ملتے ہیں۔ پاکستان کی فوج میں ایک فیصد کشمیری ہوں گے تاہم دس سے 15فیصد کشمیری جنرل ہیں۔ پاکستان کی بیوروکریسی میں 20فیصد کشمیری ہیں اس لیے پاکستان میں کشمیریوں کا عمل دخل زیادہ ہے وہ نظر انداز نہیں ہیں ۔ اگر یہ ریسرچ درست مان لی جائے تو پاکستان سے کسی شکایت کو جواز نہیں رہتا ادھرپاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جنرل (ر) قیوم کی ریسرچ کہتی ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں گمنام قبروں میں مدفون کشمیریوں کا ڈی این اے ٹیسٹ ہو گیا ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے نتیجہ میں 570افراد کی شناخت ہوگئی ہے ۔ آئی ایس ایس آئی میںجنرل قیوم نے اپنی ریسرچ کے حوالے سے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بھارتی فوج کے ہاتھوں بے آبرو ہونے کے بعد 17ہزار خواتین نے خود کشی کر لی ہے۔ اسی مسئلے پر سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ نے بھی اپنی ریسرچ کے نتائج آئی ایس ایس آئی سمینار میں جاری کیے۔ ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ نے دعویٰ کیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں 6ہزار گمنام قبریں موجود ہیں۔ ڈاکٹر عطیہ کے مطابق ان 6ہزار گمنام قبروں میں مدفون کشمیریوں کے ڈی این اے ٹیسٹ ہو گئے ہیں۔ پارلیمانی کشمیر پارٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمان نے کشمیر کے حوالے سے کوئی ریسرچ کی ہے اور نہ ہی مقبوضہ جموںوکشمیر کے حوالے سے کوئی اعداد شمار پیش کیے تاہم مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے تجزیہ میں یہ بات سامنے لائی کہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی مدد کرنا چاہتا ہے تاہم پاکستان کشمیریوں کی مدد کے حوالے سے مکمل طورپر بے بس ہے ۔مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق پاکستان کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے یا بھارت سے کشمیر لینے کے لیے جنگ نہیں کرسکتا۔ اس مسئلے پر عالمی برادری حتی کہ اسلامی دنیا بھی پاکستان کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنی اس رائے کے حق میں دلیل دیتے ہوئے بتایا کہ 90کی دہائی کے ابتدا میں پاکستان مسلم لیگ کی حکومت نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں کشمیر پر قرارداد لانے کا فیصلہ کیا تھا ۔ قرارداد کا مسودہ بھی تیار کر لیا گیا تھا۔ تاہم نواز شریف کے حکومت ختم ہو گئی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اسی قرار داد کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ پاکستان نے قرارداد تو پیش کر لی مگر دنیا کا کوئی ملک اس قرارداد کے حق میں پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کے لیے سامنے نہیں آیا۔ قرارداد یہ تھی کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے بھارت کو کشمیریوں کی نسل کشی سے روکا جائے ۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں پاکستان کی بے بسی دیکھ کر لیبیاء نے پاکستان کی حمایت کا فیصلہ کیا پاکستان کے حق میں ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے لیبیاء نے پاکستان سے یہ بھی کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر آپ تو تنہا ہیں ہی ہمیں بھی کیوں دنیا سے تنہا کررہے ہو۔ چنانچہ پاکستان نے اس مشکل صورتحال میں ایران سے رابطہ کیا پاکستان کی درخواست پر ایران نے ایک اور قرارداد پیش کی جس کے نتیجہ میں پاکستان کی قرارداد واپس لے لی گئی ۔آئی ایس ایس آئی سمینار میں مولانا فضل الرحمٰن جذباتی تھے، ایک خاص موڈ میں تھے اور دو ٹوک بات کرنا چاہتے تھے، کہنے لگے کشمیری دونوں طرف سے ظلم کا شکار ہیں یعنی پاکستان اور بھارت کی طرف سے بھی ظلم کا شکار ہیں۔ ایک ظلم یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کشمیر کے ساتھ رشتہ مفادات کا بنا لیا گیا ہے جب کبھی کشمیر کاز یا کشمیریوں کے حق خودارادیت کا ذکر ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے کشمیر کے دریائوں سے ہمارے لیے پانی آتا ہے چناچہ پاکستان کے معاشی مستقبل کے لیے کشمیر انتہائی ضروری ہے۔ مولانا نے کہا کشمیر کی حمایت کرنی ہے تو اپنے فائدہ کی بات نہ کی جائے۔ مولانا فضل الرحمٰن پھر بولے پاکستان کے بچے بچے کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت رائے شماری کروانے سے بھارت انکاری ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ 1951میں بھارت نے اپنے آئین میں تبدیلی کیوں کی کس وجہ سے بھارت نے آئین میں تبدیلی کر کے کشمیر کو آٹوٹ انگ قراردینے کا فیصلہ کیا۔ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمٰن کشمیر کے حوالے سے مکمل طورپر مایوس تھے۔ پاکستان کی مایوسیوں اور محرومیوں کا ذکر کر تے ہوئے پھر بولے کہ ہم جنگ کا آپشن استعمال نہیں کرسکتے ۔ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے عالمی طاقتوں کے روبوٹ ہیں جو ہمارا کام کرنے سے قاصر ہیں ہم کیا کریں ؟۔ ہمارے پاس واحد راستہ مذاکرات کا ہے مگر مذاکرات کی کنجی بھی بھارت کے پاس ہے۔ ہم درپردہ یا پس پردرہ کشمیریوں کی حمایت کرتے رہے ہیں مگر اب یہ اپشن بھی مشکل ہے ۔بھارت کشمیر کی عسکریت کا الزام پاکستان پر لگاتا رہا ہے پاکستان سے درااندازی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے ہم بھارت کے یہ الزامات تسلیم نہیں کرتے مگر جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں اعلان کیا آئندہ دراندازی نہیں ہوگی اس اعلان سے کشمیر میں پاکستان کی درااندازی اور کشمیر میں جاری عسکریت کی پاکستانی حمایت کا برملا اظہار کر کے پاکستان کو مشکل میں ڈال دیا گیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹیٹجک اسٹڈیز کے سیمناز میں کشمیر حریت پسندوں نے بھی مولانا فضل الرحمان کے مایوسی پروگرام کا بھرپور ساتھ دیا حریت رہنمائوں محمد فاروق رحمانی، لبریشن فرنٹ کے رہنما رفیق ڈار مایوسی پروگرام کو آگئے بڑھایااور یہ نتیجہ سامنے لایا کہ ہمارے پاس اب کوئی آپشن نہیں ہے۔ رہی بات ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ کی تو وہ سردار قیوم سے جنرل مشرف تک کشمیر یوں کی ترجمان کہلاتی رہی ہیں ۔ ان کا زور اس بات پر تھا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کا معاملہ جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے اس سلسلے میں کام کرنے کی ضرورت ہے مگر کسی شخص نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ جنگی جرائم کی عدالت میں صرف ملک جاسکتا ہے کوئی فرد واحد یا کوئی سیاسی جماعت کوئی مسئلہ اس عدالت میں نہیں لے جاسکتی۔ ڈاکٹر نزیز گیلانی نے مجھے بتایا کہ یہ عدالت مختلف ممالک کی طرف سے پیش کیے جانے والے مقدمات کو سنتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت پاکستان اب تک کشمیر کے حوالے سے اس عدالت کا دروازہ ک لھٹکھٹانے میں کامیاب کیوں نہیں ہوئی ۔ جنگی جرائم کی عالمی عدالت یا عالمی عدالت انصاف کے معاملے کو الگ رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ بھی ہے جس نے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کے لیے 23سے زیادہ قراردادیں منظور کر رکھی ہیں۔ یہ تمام قراردادیں متفقہ طورپر پاس ہوئی ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ پاکستان اس حوالے سے اقوام متحدہ سے رجوع کر سکتا ہے کوئی نئی قرارداد لائی جاسکتی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب مسعود خان نے اس سوال کاجواب دیا کہ پاکستان کو خطرہ ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں اب پہلے کی طرح کی حمایت نہیں ملے گی اس لیے نئی قرارداد نہیں لائی جاسکتی ۔ معلوم ہوا ہے کہ کشمیر کے بارے میں اس غیر معمولی سیمنار میں دو بھارتی سفارتکاروں نے بھی شرکت کی جو خاموشی سے سیمنار کی کاروائی دیکھتے رہے مگر پاکستان قیادت اور خود کشمیری رہنمائوں نے کسی نئے عزم اور نئی حکمت عملی سامنے لانے کے بجائے رونے دھونے کے سوا کوئی کام نہیں کیا ۔ بدقسمتی سے کشمیر کے حوالے سے انسانی حقوق کی شعبے میں دستاویزی ریکارڈ رکھنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے چنانچہ جب ہر کشمیر کے پاس مختلف اعداد وشمار ہیں ظاہر ہے اس سورت حال میں ان کی صحت پر کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے ؟ کشمیر میں اعداد وشمار کے حوالے سے دستاویزی ریکارڈ رکھنے والا کوئی قابل اعتبار ادارہ نہیں ہے ۔۔ ایسے کسی میکانزم کے نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ جنرل قیوم کی ریسرچ کہتی ہے کہ کشمیر میں 2ہزار 730گمنام قبریں ہیں جن میں سے 570کے ڈی این اے ٹیسٹ ہو چکے ہیں اور یہ کہ 17ہزار کشمیری خواتین نے خودکشی کر لی ہے۔ ڈاکٹر عطیہ عنایت کے مطابق گمنام قبروں کی تعداد 6ہزار ہے جن کے ڈی این اے ٹیسٹ ہو چکے ہیں۔ یہ سارے اعداد شمار غلط ہیں اور ڈی این اے ٹیسٹ کا دعویٰ کر کے بھارت کی مدد کی جارہی ہے ۔ بھارت گمنام قبروں میں مدفون افراد کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کروانے سے انکاری ہے۔ اس سمینار میںایک نئی سوچ بھی سامنے آئی ہے ۔وزیراعظم نوازشریف کے قریبی ساتھی اور وفاقی کابینہ میںشامل شخصیت نے تجویز دی ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی حکومت کو تسلیم کر لے مقبوضہ کشمیر میںقائم ہونے والی حکومت کو مستردنہ کیا جائے ریاسی و سرحدی امور بارے وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ نے پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین مولا نافضل الرحمان سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفرالحق اور صدرآزادکشمیر سردار یعقوب خان کی موجودگی میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جو بھی حکومت قائم ہوتی ہے ہم اس کو مسترد کردیتے ہیں وہاں کی حکومت کو کٹھ پتلی حکومت قرار دیا جاتا ہے ۔ میرے خیال میں اس پالیسی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہاں کی سیاسی (بھارت نواز)قیادت کو یکدم مسترد کرنا غلط ہے یہ سوچ درست نہیں ہے ۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50731 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More