اگر اب بھی نہ جاگے تو…!
(Nazish Huma Qasmi, Mumbai)
اُٹھیں اور مولانا توقیر رضا خان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے زعفرانیوں کو بتادیں کہ اب ہم وہ نہیں جو تم سمجھ رہے تھے اب ہم متحد ہوگئے ہیں … ہمارے اتحاد پر اب کوئی شب خون نہیں مارسکتا۔اور اگر متحد نہیں ہوئے تو اسی طرح ستائے جاتے رہوگے اور جس طرح پہلے مارے کاٹے جاتے رہے ہو اسی طرح مارے کاٹے جاتے رہو گے کیوں کہ ملک میں جب بھی فساد ہوا ہے، مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ہے، ماؤں اور بہنوں کی عصمتیں تار تار کی گئی ہیں… کبھی بھی فسادیوں اور بلوائیوں نے مسلک پوچھ کر نہیں شہید کیا ہے، کہ یہ دیوبندی ہے انہیں مت مارو یہ بریلوی ہے ان سے کوئی گلہ نہیں ۔ |
|
امت مسلمہ پر جب بھی حالات آئے ہیں اس کا
ایک سبب اس امت کا آپسی انتشار رہا ہے، لیکن آج جو صورتحال مسلمانوں کو
درپیش ہے اس سے قبل ماضی میں تاریخ ہند کے ابواب اس قسم کے حادثات کو بیان
کرنے سے عاری ہیں۔ جس طرح ایک مخصوص طبقہ مسلمانوں کو پستی میں دھکیلنے
کیلئے کوشاں ہے اور اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا نے کیلئے ہر ممکنہ حد
تک جانے کو تیار ہے… اور بہت حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی
ہند میں بقا کیلئے بہت نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ نت نئے اندیشے اور فتنے
پیدا کئے جارہے ہیں ۔ مسلمانوں کو ہر طرف سے کمزور کرنے کی سوسالہ سازش
کامیابی کے دہانے پر ہے۔ ہر گائوں اور شہر میں مسلمانوں کو خوف میں مبتلا
کیا جارہا ہے ۔ ایسے میں بھگوا ذہن کے لیڈران کا پیغام کہ ہم مسلمانوں کو
آپسی انتشار میں مبتلا کرکے ان میں شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی کا بھید
بھائو پیدا کرکے اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑیں گے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اب وہ اپنے منصوبے میں بہت حد تک
کامیاب ہوچکے ہیں، ہماری مجرمانہ خاموشی اور آپسی انتشار نے انہیں شہہ دیا
ہے ورنہ کیا مجال کہ دھڑلے سے مسلم نوجوانوں کی بے جا گرفتاریاں ہوں…کوئی
اس کے خلاف آواز اُٹھانے والا نہیں اور جو آواز اُٹھائے انہیںمطلب پرستی
کا طعنہ دیا جائے۔ الزام تراشی کی جائے کہ وہی گرفتار کرواتے ہیںاور اپنی
واہ واہی کے لئے ان کی رہائی کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔ کسی بھی تنظیم یا
مسلمانوں کے گروہ کو ان بے قصورو مسلم نوجوانوں کی کوئی فکر نہیں ہے اگر
رہتی تو کیا ان کی زندگی کا طویل عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے برباد ہوتا؟
بے قصور مسلم نوجوانوں کے افراد خانہ ہر قسم کی ذہنی اذیت میں مبتلا رہتے؟
نہیں ہر گز نہیں لیکن کیا کیا جائے اس قوم کا۔ آخر بھگوائی اپنے عزائم میں
کامیاب ہورہے ہیں ان کے عزائم میں سے ہے کہ انہیں معاشی اعتبار سے بالکل
کمزور کردیا جائے کیس لڑتے لڑتے وہ کنگال ہوجائیں تب عدالت کا فیصلہ آئے
کہ ملزم پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد ہیں …لہذا انہیں باعزت بری کیا
جاتا ہے۔ کوئی نہیں ہے جو حکومت کو مجبور کرے … عدالت سے باز پرس کرے کہ ان
مسلم نوجوانوں کی زندگی سے کھلواڑ کرنے والے خاطی افسران سے کوئی پوچھ تاچھ
کیوں نہیں ہورہی ہے ؟ کیا صرف پھٹکار لگانا کافی ہے۔ جس طرح ان بے قصور
مسلم نوجوانوں کی ۲۲؍ ۲۲ سالہ ۱۰؍۱۰سالہ کی زندگیاں جیل کی نذر ہوئی ہیں ان
پر الزام لگانے والے اور انہیں جیل میں پہنچانے والے افسران کو بھی اتنی ہی
سزا دی جائے اور ان پر جرمانہ عائد کرکے پابند سلاسل کیا جائے تاکہ پھر
کوئی مسلم نوجوان کو مشکوک نگاہوں سے نہ دیکھے ۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ
یہ سارے لوگ جانتے ہیں کہ مسلمان آپسی مسائل میں اس قدر الجھ گئے ہیں کہ
اب انہیں اپنے نوجوانوں کی بھی کوئی فکر نہیں ہے۔ ایسے پرفتن اور حالات سے
مجبور دورمیں اگر کوئی آپسی اتحاد کیلئے کوشش کرتا ہے… مسلمانوں کی بکھری
ہوئی جماعت پر نظر ڈال کر انہیں ایک لڑی میں پرونے کی تگ و دو کرتا ہے…
عقائد ونظریات سے ہٹ کر ایک پلیٹ فارم پر آنے کی بات کرتا ہے تو وہ یقینا
قابل ستائش ومبارک باد کے مستحق ہیں … وہ اس قابل ہیں کہ ان کے اس کام کو
پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے قدم قدم پر ان کا ساتھ دینا چاہئے۔ نبیرہ اعلی
حضرت فخر بریلویت مولانا توقیر رضا خان صاحب نے جس طرح دیوبند پہونچ کر یہ
پیغام دیا ہے کہ ’’ ہم میں چند اختلاف تو ہے لیکن بحیثیت مسلمان ہونے کے ہم
سب ایک ساتھ ہیں… موجودہ دور میں جب تک ایک ساتھ کھڑے ہوکر حالات کا مقابلہ
نہیں کریں گے کامیابی نہیں مل سکتی ہے۔ دہشت گردی اور دیش دروہی جیسے
مقدمات میں پھانس کر مسلمانوں کی زندگی سے ہورہے مذاق کو روکنے… ملک میں
جمہوریت کو بچانے کیلئے ہمیں ایک ہونا ہوگا، انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی
ضرورت ہوگی میں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوں۔ ‘‘
اب جبکہ ایک نئے باب کا آغاز ہوگیا ہے… ہمارے راہنما ایک ساتھ مل بیٹھ کر
مسائل کے تصفیہ کیلئے تیار ہیں… عوامی سطح پر اس بات کو صحیح طریقے سے پیش
کرنے کی ضرورت ہے… عوام کے ذہن و دماغ میں اس بات کو پیوست کرنے کی ضرورت
ہے کہ اب بغیر اتحاد کے ہمارا وجود خطرہ میں پڑسکتا ہے… دیوبندی اور بریلوی
مساجدوں سے ایسے بورڈوں اور ایسے ٹرسٹیوں کو ہٹانے کی ضرورت ہے جو اس اتحاد
میں روڑے اٹکار ہے ہیں… انہیں یہ باور کرایا جائے کہ مساجد اللہ کا گھر ہے
وہاں اللہ کے بندے عبادت کرتے ہیں نہ دیوبندی نہ بریلوی نہ اہل حدیث نہ غیر
مقلد سبھی ایک امام کی اقتداء میں اپنے مسالک پر رہتے ہوئے عمل کرسکتا ہے
جنہیں رفع یدین کرنا ہو بھی اور جنہیں آمین بالجہر نہ کرنا ہو وہ بھی۔ جس
دن مساجد ومدارس سے یہ امتیاز ختم ہوجائے گا لوگ کلمہ کی بنیاد پر اگر ایک
ہوجائیں تو اس دن ہم کامیاب ہوجائیں گے کوئی ہماری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی
نہیں دیکھ سکتا … یہ تمام آفتیں ، مصیبتں اور رسوائیاں ہمارے جھنڈ میں
انتشار کی وجہ سے ہے۔ جب ہم دیش کی حفاظت کیلئے سنگھی نظریات کے حامل افراد
کے ساتھ پروگرام کرسکتے ہیں… قومی یکجہتی کا نعرہ دے کر غیر مسلم افراد کو
اپنے پروگرام میں مدعو کرسکتے ہیں… تو پھر مسلمانوں کے باہمی مسائل کو
سلجھانے کیلئے کلمہ کی بنیاد پر ایک ساتھ کھڑے کیوں نہیں ہوسکتے ہیں۔
اُٹھیں اور مولانا توقیر رضا خان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے زعفرانیوں کو
بتادیں کہ اب ہم وہ نہیں جو تم سمجھ رہے تھے اب ہم متحد ہوگئے ہیں … ہمارے
اتحاد پر اب کوئی شب خون نہیں مارسکتا۔اور اگر متحد نہیں ہوئے تو اسی طرح
ستائے جاتے رہوگے اور جس طرح پہلے مارے کاٹے جاتے رہے ہو اسی طرح مارے کاٹے
جاتے رہو گے کیوں کہ ملک میں جب بھی فساد ہوا ہے، مسلمانوں کا قتل عام کیا
گیا ہے، ماؤں اور بہنوں کی عصمتیں تار تار کی گئی ہیں… کبھی بھی فسادیوں
اور بلوائیوں نے مسلک پوچھ کر نہیں شہید کیا ہے، کہ یہ دیوبندی ہے انہیں مت
مارو یہ بریلوی ہے ان سے کوئی گلہ نہیں ۔ پولس کے شکنجے میں محروس ہوئے
نوجوانوں سے ان کا مسلک نہیں پوچھا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان
ہے یا نہیں۔ انہیں دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث سے کوئی سروکار نہیں وہ
کلمہ کی بنیاد پر ہمیں ایک سمجھتے ہیں …لیکن ہم ہیں کہ ایک نہیں۔ |
|