حسینہ واجد کی بھارت نوازی.... محبان پاکستان نشانے پر!

بنگلا دیش میں بھارت کی شہہ پر بنگال کی ”حسینہ“ نے متحدہ پاکستان کے حامیوں کو سولی پر چڑھانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ حسینہ واجد پاکستان سے محبت کے جرم میں اب تک کئی رہنماﺅں کو پھانسیاں دے کر انتقام کا نشانہ بناچکی ہے، لیکن نہ تو عالمی ادارے اس معاملے میں کوئی کردار ادا کرسکے ہیں اور نہ ہی حکومت پاکستان پھانسیاں رکوانے میں کامیاب ہوسکی ہے۔ مجیب کی بیٹی بلادھڑک بنگلا دیش میں پاکستان کے نام لینے والوں کو چن چن کر تختہ دار پر چڑھا رہی ہے۔ پھانسی پر چڑھائے جانے والے رہنماﺅں کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے تقسیم پاکستان سے پہلے مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بننے سے بچانے کی بھرپور کوشش کی تھی، حالانکہ بنگلادیش بننے کے صرف تین سال بعد 9 اپریل 1974ءکو بنگلا دیش کے وزیرِ خارجہ ڈاکٹر کمال حسین، پاکستانی وزیرِ مملکت برائے امورِ خارجہ عزیز احمد اور بھارتی وزیرِ خارجہ سورن سنگھ نے دہلی میں سہہ فریقی سمجھوتے پر دستخط کیے تھے، جس میں یہ طے پایا تھا کہ بنگلا دیش ماضی کی تلخیوں کو نظرانداز کرنے کے جذبے کے تحت پاکستانی فوجی افسروں پر انسانیت سوز جرائم کی پاداش میں جنگی جرائم کے ٹریبونل میں مقدمہ نہیں چلائے گا اور 1973ءمیں اس مقصد کے لیے جو خصوصی ٹریبونل قائم کیا گیا ہے، وہ توڑ دیا جائے گا۔ اس موقع پر بنگلا دیش کے اس وقت کے وزیرِ اعظم شیخ مجیب الرحمن نے کہا تھا کہ ان کی خواہش ہے لوگ ماضی کو فراموش کرتے ہوئے نئے دور کا آغاز کریں۔ بنگلادیش کے لوگ معاف کرنا جانتے ہیں۔چنانچہ سہہ فریقی سمجھوتے کے تحت جنگی قیدیوں کی پاکستان واپسی کی راہ ہموار ہوگئی اور یہ سمجھا گیا کہ جب جنگی جرائم کے محرکین کو معاف کردیا گیا ہے تو اس رعایت کا اطلاق ان محرکین کے مقامی مدد گاروں پر بھی ہوگا، جنہوں نے تقسیم پاکستان کے وقت بھارت کی سازشوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر تھی۔ ان میں جماعتِ اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیمیں البدر، الشمس کے رضاکار اور فوجی حمایت یافتہ مقامی تنظیم انصار کے کارکن شامل تھے، لیکن 1974ءمیں پاکستان سے سمجھوتا کرنے والے مجیب کی بیٹی بھارت کی محبت اور پاکستان کی نفرت میں اس قدر اندھی ہوئی کہ اسے اپنے باپ کا کیا ہوا سمجھوتا بھی یاد نہیں رہا اور 1971ءمیں پاکستان کو توڑنے والے پاکستان دشمن بھارت کی سازشوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرنے والے تمام لوگوں کو غدار قرار دے دیا اور وطن پاکستان سے غداری کرکے ملک کو دو لخت کرنے والوں کو محب وطن قرار دے دیا۔ حسینہ واجد نے محب پاکستان رہنماﺅں کو سولی پر چڑھانے کے لیے بنگلا دیش میں 2010ءمیں ایک متنازع خصوصی جنگی ٹربیونل بنایا، جس کو عالمی اداروں تک نے متنازع قرار دیا۔ اس ٹربیونل کے تحت حسینہ واجد نے محب وطن رہنماﺅں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا اور 2013ءسے اب تک متنازع وار کرائمز ٹریبونل جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری علی احسن محمد مجاہد، نائب امیر قمر الزماں، میر قاسم علی، نائب سیکرٹری جنرل اظہر الاسلام، اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبدالقادر ملا اور امیرِ جماعت اسلامی مطیع الرحمن نظامی سمیت اپوزیشن کی 13 ممتاز سیاسی شخصیات کو سزائے موت دے چکا ہے۔ جماعت کے واحد رہنما دلاور حسین سعیدی کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کی گئی، جبکہ سابق امیر پروفیسر غلام اعظم کو 90 برس قید کی سزا سنائی گئی۔ ان کا انتقال اکتوبر 2014 میں 91 برس کی عمر میں جیل میں ہوا۔

اب پاکستان دشمن بنگال کی ”حسینہ“ نے بھارت کی ایما پر منگل کی شب پاکستان سے محبت کے جرم میں مطیع الرحمن نظامی کو بھی سولی پر چڑھا دیا ہے۔ مطیع الرحمن نظامی جماعت اسلامی بنگلا دیش کی ٹکٹ پر دو بار بنگلا دیشی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1991ءمیں پارلیمنٹ ممبر بنے۔ 2001ءمیں ان کو جماعت اسلامی کا امیر منتخب کیا گیا۔ 2001ءمیں دوبارہ پارلیمنٹ کے ممبر بنے۔ 2003ءتک زراعت کے وزیر رہے، جبکہ 2003ءاور 2006ءتک انڈسٹری کے وزیر رہے۔ 4 مئی 2011ءکو ناکردہ جرائم کے الزام میں گرفتار کیے گئے اور 30جنوری 2014 کو انہیں ایک متعصب ٹربیونل کی طرف سے 13 ساتھیوں سمیت سزائے موت سنائی گئی، جبکہ 10 مئی 2016ءکو ڈھاکا میں ان کو پھانسی دے دی گئی۔ حکومت کی طرف سے ان کو رحم کی اپیل کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے کہا کہ اللہ کے سوا کسی سے رحم کی اپیل نہیں مانگتا، اگر اللہ نے میری شہادت قبول فرمالی تو اس سے بڑا اعزاز اور سعادت کوئی نہیں ہے۔ وہ 1971ءمیں جماعت اسلامی کی حامی طلبہ تنظیم سے منسلک تھے اور ان پر الزام تھا کہ انہوں نے البدر نامی ملیشیا کے کمانڈر کی حیثیت میں بھارت نواز علیحدگی پسند بنگالیوں کی نشاندہی کرنے میں پاکستانی فوج کی مدد کی تھی۔ مطیع الرحمن کی پھانسی بنگلا دیشی حکومت کا گڑے مردے اکھاڑنے اور ماضی کی تلخیوں کو ہوا دینے کے مترادف ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ جن الزامات کے تحت جناب مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی کی سزا دی گئی وہ بے بنیاد ہی نہیں، غلط اور بے جواز بھی ہیں۔ 1971ءمیں جب بھارت سازش کے تحت مکتی باہنی اور عوامی لیگ علیحدگی کی تحریک چلا رہی تھی تو جناب مطیع الرحمن نظامی اور ان کے ساتھیوں نے اپنے وطن، جو اس وقت مشرقی اور مغربی حصوں پر مبنی مشترکہ پاکستان تھا، اس کو بچانے کے لیے جو مناسب سمجھا کیا۔ بنگلا دیش کے نام نہاد، غیر قانونی اور غیر آئینی عدالتی ٹربیونل نے انہیں سزا سناتے ہوئے اس زمینی حقیقت کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا کہ جس دور کے اقدامات کی سزائیں ان لوگوں کو دی جا رہی ہیں، اس وقت بنگلا دیش ابھی بنا نہیں تھا، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان لوگوں نے اپنے ملک سے غداری کی، وہ تو ایک غیرملکی حملے کے خلاف اپنے ملک کا دفاع کر رہے تھے، جو غداری نہیں، بلکہ حب الوطنی ہے۔ علاوہ ازیں بنگلا عدالتی ٹربیونل کا فیصلہ 1971ءمیں سقوط ڈھاکا کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے مابین طے پانے والے معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ سارا کھیل بھارت کا رچایا ہوا ہے۔ جناب مطیع الرحمن نظامی، عبدالقادر ملا، صلاح الدین چودھری اور علی احسن محمد مجاہد صاحب نے پاکستان کے ساتھ بھرپور وفاداری نبھائی ہے۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے 71ءمیں پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کے دوران پاکستانی فوج کا ساتھ دیا اور متحدہ پاکستان کیلئے آواز اٹھائی تھی۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں تمام مسلمانوں نے مل جل کرجدوجہد کی۔ اس میں کسی شک وشبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ بنگالیوں نے پاکستان بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،ایک عظیم اسلامی مملکت وجود میں آئی، لیکن اسے دشمنوں نے دل سے قبول نہ کیا۔ اپنوں کے درمیان غلط فہمیاں پھیلانے سے لے کر جذبہ نفرت کو ابھارکربھارتی افواج کی مدد سے ”مکتی باہنی“ کی تشکیل اور”بنگلا دیش“ کے قیام تک کی ریشہ دوانیوں کی ایک المناک داستان تاریخ کے اوراق میں رقم ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی”آزادی“ کی اس جنگ میں مکتی باہنی کے شانہ بشانہ لڑنے کا انعام واکرام موجودہ بنگلا دیشی حکومت سے پا چکے ہیں۔ ”را“ نے خود وہ پیپرز طشت ازبام کیے ہیں ، جن میں پاکستان کو توڑنے کی سازش درج ہے۔

پاکستان سے محبت کے جرم میں سزائے موت پانے والے جماعت اسلامی بنگلا دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر پورا عالم اسلام رنجیدہ ہے۔ ترکی نے احتجاج کرتے ہوئے ڈھاکا میں تعینات اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور امیر جماعت اسلامی بنگلا دیش کی پھانسی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ترکی کا کہنا تھا کہ بزرگ سیاستدان کو اتنی بڑی سزا دینا قابل مذمت ہے۔ اس قسم کے واقعات سے ہمارے بنگلا دیشی بھائیوں کے دلوں میں نفرت کی آگ بڑھے گی، جبکہ پاکستان نے اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے پرغور شروع کردیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بنگلادیش میں امیر جماعت اسلامی کی پھانسی پر ہمیں شدید تشویش ہے اور اس معاملے پر پاکستان کا موقف کمزور نہیں ہے۔ ہم نے اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور بنگلا دیش کے قائم مقام سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔ مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی کے بعد بنگلا دیش میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی ہے اور جگہ جگہ مظاہرے بھی ہوئے ہیں، جبکہ پاکستان میں بھی کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔ قومی اور پنجاب اسمبلی نے متفقہ مذمتی قراردادیں منظور کیں۔ دونوں ایوانوں میں کئی ارکان نے بنگلا دیش کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔وزیر داخلہ چودھری نثار نے بنگلا دیش میں مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی دینے پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کے رہنماﺅں سے کیا جانے والا سلوک غیرانسانی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، پوری دنیا اس معاملے پر خاموش ہے، ہمیں اس غیر انسانی پالیسی کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ مطیع الرحمن نظامی کی شہادت کے واقعہ پر حکومت اور اپوزیشن کے جذبات یکساں پائے گئے ۔ اگر بنگلادیش حکومت کی طرف سے سزائے موت کے فیصلہ پر عمل درآمد سے قبل ہماری پارلیمنٹ متحرک ہو جاتی تو اس بات کا قوی امکان تھا بنگلا دیش کی حکومت سزائے موت پر عمل درآمد کا فیصلہ موخر کر دیتی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے وزیراعظم، چودھری نثار علی خان سمیت متعدد حکومتی عہدیداروں کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ حکومتی عہدیدار تو ان دنوں پاناما لیکس معاملے پر اپنی صفائیاں دینے میں مشغول ہیں۔اگرچہ چودھری نثار بنگلا دیش میں پاکستانیوں پر مظالم پر آواز بلند کرتے رہے ہیں،لیکن مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی کے معاملے میں وہ کردار ادا نہ کرسکے۔اب بھی وقت ہے چودھری نثار علی خان اس ایشو کو اٹھانے کی ذمہ داری قبول کر لیں تو بنگلا دیش میں مزید پاکستانیوں کا قتل عام رکوایا جا سکتا ہے، کیونکہ حسینہ واجد بھارت کے احکامات پر بنگلادیش میں موجود ہر ہر محب پاکستان کو اپنا دشمن تصور کرتی ہے اور انتقام کا نشانہ بنانا چاہتی ہے۔

یہ امر باعث تشویش ہے کہ دسمبر 2013ءسے جاری متنازعہ ٹرائل کے بعد سے اب تک مطیع الرحمن نظامی سمیت جتنے افراد کو سزائیں سنائی گئیں اور پھانسیاں دی گئیں، ٹربیونل نے اپنے فیصلوں میں بار بار پاکستان کا تذکرہ کر کے بے بنیاد الزامات عاید کیے ہیں، جو براہ راست دھمکیوں کے مترادف ہیں۔ متنازعہ خصوصی جنگی ٹربیونل کی یہ انتقامی سزائیں اس سہ فریقی معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں جو 19 اپریل 1974ءکو پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان ہوا تھا۔ ماضی میں متحدہ پاکستان کی حمایت کے لیے آواز اٹھانے اور اپنی فوج کا ساتھ دینے والے پاکستانیوں نے کسی آئین اور قانون کی خلاف ورزی نہیں کی، بلکہ اپنا فرض ادا کیا۔ حکومت پاکستان کو بنگلا دیش میں نام نہاد ٹربیونل کے ذریعے سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھانی چاہیے۔ ماضی میں پاکستان کی محبت میں بنگلا دیش میں پھانسی کا پھندا چومنے والے شہداکے حوالے سے پاکستان اور عالم اسلام کی خاموشی اور بے حسی افسوسناک ہے۔ حکومت کو بنگلا دیش میں 45 سال پرانے زخموں پر نمک چھڑکنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اقوام متحدہ کے فورم پر انسانی حقوق و انصاف کی عالمی تنظیموں، او آئی سی کے ساتھ مل کر آواز اٹھانے اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ماضی میں متحدہ پاکستان کی حمایت میں آواز اٹھانے والوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636610 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.