اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آزاد کشمیر میں
راجہ فاروق حیدر خان جیسا دوسرا کوئی لیڈر نہیں ہے جو حق اور سچ کہنے کا
حوصلہ رکھتا ہو۔کشمیر کونسل کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی طرف سے پارٹی ٹکٹ
کے لئے بڑی بڑی رقومات لینے اور اسمبلی ارکان کی بولیاں لگنے کی صورتحال پر
راجہ فاروق حیدر خان نے کہا ہے کہ اگر وہ مسلم لیگ(ن)آزاد کشمیر کے صدر نہ
ہوتے تو وہ استعفی دے دیتے۔مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے سربراہ ، سابق وزیراعظم
آزادکشمیر اور قائد حزب اختلاف راجہ فاروق حیدر نے چیف الیکشن کمشنر سے
مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیر کونسل کے انتخابات میں خریدو فروخت کا از خود
نوٹس لیتے ہوئے تادیبی کاروائی کریں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کونسل کے الیکشن
میں بدترین ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے،آزادکشمیر کی سیاست کو اگر اسی طرح گندا
کیا جاتا رہا تو لوگوں کا پارلیمانی نظام سے اعتماد اٹھ جائے گا۔عمومی طور
پر یہی سمجھا جا رہا تھا کہ کشمیر کونسل کے الیکشن اسمبلی الیکشن کے بعد ہی
منعقد ہوں گے لیکن حیرت انگیز طور پر اسمبلی الیکشن سے پہلے ہی کونسل
الیکشن کا شیڈول جاری کر دیا گیا۔راجہ فاروق حیدر نے کونسل الیکشن اسمبلی
الیکشن سے پہلے کرانے کی رٹ ہائیکورٹ سے خارج ہونے پر اس فیصلے کے خلاف
سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔راجہ فاروق حیدر کا کہنا ہے کہ
ایک اسمبلی سے دو مرتبہ کشمیر کونسل کے ممبران کا انتخاب غیر اخلاقی ہے
کشمیر کونسل کے انتخابات میں بازار مصر کھلا ہو ا ہے۔
کشمیر کونسل کے الیکشن کی پہلی کہانی تو زود عام ہے کہ پیپلز پارٹی کے
مرکزی رہنماؤں نے بڑی رقومات کے عوض کشمیر کونسل کے لئے پارٹی ٹکٹ دیئے
ہیں۔اخبارات میں یہ خبریں عام ہیں کہ کونسل کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا
ٹکٹ دینے کے لئے مرکزی رہنماؤں کی طرف سے کروڑوں روپے لئے گئے ہیں ۔اسی
حوالے سے میڈیا میں شائع ایک خبر میں بتایا گیا کہ فریال تالپور نے پندرہ
سے بیس کروڑ فی کس کشمیر کونسل کے تین ٹکٹ فروخت کر دیئے۔پیپلز پارٹی کے
حوالے سے یہ کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں پیپلز
پارٹی کی حکومت نے دھڑلے سے سیاسی اور سرکاری حق کے طور کرپشن کی ۔آزاد
کشمیر میں تو پیپلز پارٹی حکومت کی لوٹ مار نے آزاد کشمیر کے سرکاری ڈھانچے
کو ہی بری طرح تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔اخبارات میں شائع خبروں کے مطابق
کونسل کے الیکشن کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کے خواہاں امیدواروں نے
بتایا کہ پونچھ ڈویژن کے پیپلز پارٹی کے ممبران اسمبلی نے "امجد جلیل "سے
15کروڑ جبکہ وزیر اعظم آزاکشمیر چوہدری ادریس سے 20 کروڑ اور کروڑوں روپے
مالیت کی گاڑی لے چکے ہیں۔ شائع خبروں کے مطابق امیدواران کرنل ضمیر ،
سردار عظیم ایڈووکیٹ ، حبیب حسین شاہ اور کئی دیگرنے کہا کہ ایک شخص امجد
جلیل ،جس کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے اسے سردار قمر زمان ممبر
کشمیر کونسل بنوانا چاہتے ہیں اور اس کیلئے پونچھ ڈویژن کے پیپلز پارٹی کے
ممبران اسمبلی نے ایک کروڑ سے آٹھ کروڑ (کل 15 کروڑ)تک رقم وصول کر رکھی ہے
اب ان کو ممبر بنوانا ممبران اسمبلی کی مجبوری بن چکی ہے۔اسی طرح میرپور
ڈویژن سے چوہدری ادریس نے وزیر اعظم کو 20 کروڑ اور ان کے بیٹے بلال مجید
کو کروڑوں روپے مالیت کی گاڑی دی جس پر وزیر اعظم آزادکشمیر ان کو ممبر
کونسل بنوانا چاہتے ہیں۔اس طرح اخبارات میں کشمیر کونسل کے الیکشن میں
پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کے لئے کروڑوں روپے کی رشوت لینے کی خبریں شائع ہوتی
رہیں لیکن پیپلز پارٹی کی طرف سے ان خبروں کی کوئی تردید نہ کی جا سکی۔
کشمیر کونسل کے الیکشن کی دوسری کہانی مختصر لیکن نہایت دلچسپ اور معنی خیز
ہے۔جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ آزاد کشمیر اسمبلی الیکشن کی تیاری کی
صورتحال میں سب کو توقع تھی کہ اسمبلی الیکشن کے بعد ہی کونسل الیکشن کرائے
جائیں گے۔اسمبلی الیکشن کے بعد کونسل الیکشن کے انعقاد کے امکانات سے پیپلز
پارٹی کے ان رہنماؤں کو لازمی طور پر شدید پریشانی لاحق ہو گئی ہو گی کہ
جنہوں نے پارٹی ٹکٹوں کے لئے کروڑوں روپے وصول کئے تھے۔یوں پیپلز پارٹی کے
رہنماؤں کی ’’حق حلال‘‘ کی کمائی ڈوب جانے کے قوی امکانات پیدا ہو چکے
تھے۔’’خون پسینے‘‘ کی اس کروڑوں روپے کی کمائی ڈوبنے کے امکانات کی صورتحال
میں پیپلز پارٹی کے’’ محنت کش‘‘ لیڈر اگر چند کروڑ روپے دے کر کشمیر کونسل
کا الیکشن اسمبلی الیکشن سے پہلے ہونے کو یقینی بنا سکتے،تو یہ سودہ مہنگا
نہیں تھا،چند کروڑ دے کر کئی کروڑ بچا لینے کی اس ’’خصوصی مہم‘‘ اور ’’
رسائی‘‘ کی داد نہ دینا سیاسی بخل قرار پا سکتا ہے۔کشمیر کونسل کے الیکشن
کی دوسری کہانی کا ڈرامائی مرحلہ اس وقت دیکھنے میں آیا کہ جب کشمیر کونسل
کے دو اعلی افسران خصوصی طور پرمظفر آباد پہنچے اور انہوں نے چیف سیکرٹری
کے ہمراہ چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی ۔بات یہیں تک رہتی تو کچھ پردہ رہ
جاتا لیکن ستم یہ ہوا کہ کشمیر کونسل کے دو اعلی افسران کی چیف سیکرٹری کے
ہمراہ چیف الیکشن کمشنر سے ہونے والی ملاقات کے اگلے ہی دن چیف الیکشن
کمیشن کی طرف سے کشمیر کونسل کے الیکشن کا شیڈول جاری کر دیا گیا۔اب یہ
قارئین پر منحصر ہے کہ وہ ان دونوں کہانیوں کو الگ الگ دیکھتے ہیں یا ان
دونوں کہانیوں کو سیاسی اور سرکاری ستم کے ایک انداز کے طور پر دیکھتے ہیں۔ |