پاناما لیکس کا دوسرا دھماکہ
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسر مظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
فرق ہے ، بہت فرق بہادری اور سرکشی میں ۔بہادر اپنے عزم وہمت اورحلیمی کی
بدولت دلوں کومسخر کرتا اورمقبولیت کی رفعتوں کو چھو لیتاہے جبکہ سرکش کی
ضِد ، ہٹ دھرمی اورانانیت اُسے ہزیمت سے دوچار کرتی ہے ۔ اﷲ تعالےٰ نے
فرمایا ’’اﷲ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جواپنے آپ کو بڑی چیز بتاتے
اورفخر کرتے ہیں ‘‘ (الحدید)۔ حضورِ اکرم ﷺ کافرمان ہے ’’جو شخص نرمی کی
صفت سے محروم کردیا گیا وہ سارے خیرسے محروم کردیا گیا ‘‘۔اور خلیل جبران
نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ ’’ترس کھاؤ اُس قوم پر جوسرکش انسانوں کو اپنا
ہیروبناتی ہے ‘‘۔ کپتان صاحب کی نرگسیت ، انانیت ، ضداور ہٹ دھرمی اپنی
انتہاؤں کو پہنچ چکی ، اپنے آپ کوبڑا ثابت کرنے کے لیے وہ جاوبے جاشوکت
خانم کینسر ہسپتال ، نمل یونیورسٹی اور 1992ء کے ورلڈ کپ کے حوالے دیتے
رہتے ہیں ۔ نرمی اورحلیمی اُنہیں چھو کربھی نہیں گزری ، کالمی درویشوں والے
صاحب کہاکرتے تھے کہ ’’کپتان جھوٹ نہیں بولتا ‘‘۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ
کپتان سوائے جھوٹ کے کچھ بولتاہی نہیں۔ کپتان صاحب عمرے سے واپس تشریف لائے
تو بغیرتصدیق کے میاں نواز شریف پرالزام دھردیا کہ اُنہوں نے مری میں اپنے
ذاتی گھرکی تزئین وآرائش کے لیے قومی خزانے سے کروڑوں روپے منظور کروالیے ۔نبیٔ
مکرم ﷺ کافرمان ہے ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ جونہی
کوئی بات سنے ، بغیر تحقیق اور غوروفکر کے اُسے پھیلاتاپھرے ‘‘۔ کپتان صاحب
کے کان میں جو پھونک دیاجاتا ہے وہ بغیر تحقیق وتصدیق کے نہ صرف آگے
پھیلاکر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اُس کی آڑمیں
مسندِاقتدار تک رسائی کی تگ ودَو میں بھی مصروف ہوجاتے ہیں ۔ پانامالیکس
کاپہلا بم پھٹاتو خاں صاحب نے سڑکوں پر نکلنے کی ٹھانی ۔ اب دوسرابم بھی
پھٹ گیا ۔
پانامالیکس کی دوسری قسط میں بے نظیر کے کزن، عمران خان کے فنانسر، پرویز
الٰہی کے خلف الرشید مونس الٰہی ، سیٹھ عابد، پی ٹی آئی کے علیم خاں، سابق
وزیرصحت نصیر خاں کا بیٹا، پورٹ قاسم اتھارٹی کے سابق ایم ڈی عبدالستار
اوڈیرو اور شرمین عبیدچنائے کے نام بھی سامنے آ گئے۔ اب پتہ نہیں پیپلز
پارٹی اور تحریک انصاف اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے کون سے حربے استعمال
کرتی ہیں۔ بہرحال احتساب ان دونوں بڑی جماعتوں کا مقصد ہرگز نہیں کیونکہ
اگر وہ واقعی احتساب چاہتیں تو چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے مجوزہ
تحقیقاتی کمیشن کی بھرپور حمایت کرتیں۔ لیکن ہوا یہ کہ جب حکومت نے تمام
مطالبات کو تسلیم کر لیا تو ٹی او آرز پر شور مچا دیا گیا حالانکہ حکومتی
ٹی او آرز مکمل اور جامع تھے۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر، جن کے بارے میں سبھی
جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ درست سمجھتی ہیں لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کر دیتی
ہیں ، انھوں نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے ٹی او آرز ’’کینہ پروری‘‘ جبکہ حکومت
کے بہت زیادہ وسیع ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے جس
خلوصِ نیت کی ضرورت ہے وہ ہم میں نہیں۔ اپوزیشن کے شور کی وجہ یہی ہے کہ
چیف جسٹس اس معاملے کو متنازع سمجھ کر اس سے دور رہیں تاکہ وہ بچ جائیں جو
کپتان کے دائیں بائیں ہیں۔
ادھر عمران خان پر اعتمادکا یہ عالم کہ اب اعلیٰ عدلیہ سمیت، ان کی کسی بھی
بات پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں کیونکہ کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کب
یوٹرن لے لیں۔ سابق چیف جسٹس ناصرالملک انتہائی دیانت دار تھے اور خود خاں
صاحب اپنے ساتھیوں کو کہتے تھے کہ ناصرالملک چیف جسٹس بن گئے تو 2013ء کے
انتخابات میں دھاندلی پر فیصلہ ان کے حق میں آئے گا لیکن جب چیف جسٹس
ناصرالملک کی سربراہی میں بننے والے کمیشن نے یہ فیصلہ دیا کہ 2013ء کے
انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی اور وہ عوامی امنگوں کے عین مطابق تھے تو
کپتان صاحب نے ان پر بھی سوال اٹھا دیے۔ اس سے پہلے وہ چیف جسٹس افتخار
محمد چودھری پر بھی وہ دھاندلی میں ملوث ہونے کا الزام دھر چکے تھے،
حالانکہ انتخابات سے پہلے وہ افتخار محمد چودھری کی تعریف میں رطب اللسان
رہتے اور ان کی بحالی کا کریڈٹ لیتے نہیں تھکتے تھے۔ عمران خاں کی ہی شدید
ترین خواہش پر اعلیٰ عدلیہ نے ججز کو بطور ریٹرننگ آفیسرز کام کرنے کی
اجازت دی۔ انتخابات 2013ء میں ناکامی کے بعد خان صاحب نے نہ صرف ریٹرننگ
آفیسرز بلکہ الیکشن کمیشن اور عبوری حکومت کو بھی دھاندلی میں ملوث ہونے
کابرابر کا مجرم قرار دیا، حالانکہ مرکز اور پنجاب میں عبوری حکومتیں عمران
خاں کے مشورے اور ان کی ایماء پر ہی قائم ہوئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاحال
چیف جسٹس صاحب حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
جب کپتان صاحب نے یہ الزام لگایا کہ مری ہاؤس میں سارک سربراہ کانفرنس کے
لیے وزیراعظم کے ذاتی گھر پر تزئین وآرائش کی مد میں قومی خزانے سے 43 کروڑ
روپے منظور کر لیے گئے ہیں۔تب وفاقی وزیراطلاعات پرویزرشید نے کہا کہ
’’عمران خاں جھوٹ بنانے والی فیکٹریوں کے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ عمران خاں
عمرے سے واپس آئے لیکن افسوس کہ اپنی خامیوں پر نظر نہیں ڈال سکے۔ بے بنیاد
الزام پر عمران خاں کو شرمسار ہونا چاہیے۔ عمران خاں عمرے سے واپس آئے ہیں
لیکن جھوٹ نہیں چھوڑا۔‘‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کپتان صاحب اتنے تواتر
سے جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ساری قوم ہی فاترالعقل ہے جو
ان کے جھوٹ پر ایمان لے آئے گی؟ یا پھر وہ یہ یقین کر بیٹھے ہیں کہ ہم وہ
سدھائے ہوئے بندر ہیں، جنھوں نے ان کی ڈگڈگی پر ناچنا ہی ناچنا ہے۔خاں صاحب
ذرادھوم دھڑکے اور میوزیکل کنسرٹ کے بغیر بھی کوئی جلسہ منعقد کرکے دیکھیں
، اُن کی ساری مقبولیت کھُل کرسامنے آجائے گی ۔ اُنہوں نے جلسے جلوسوں کے
لیے جوانداز اپنایاہے اُس کی دین اجازت دیتاہے نہ معاشرہ ۔وہ اسلامی معاشرے
کوتہس نہس کرنے پرتُلے ہوئے ہیں ۔ اُن کے جلسوں میں جواخلاق باختہ حرکات
کیمر ے کی آنکھ دکھارہی ہے ، اُسے دیکھ کر سَر شرم سے جھُک جاتے ہیں۔
لاہورکے جلسے میں توخواتین کے ساتھ ناشائستہ حرکات کاالزام نوازلیگ پردھر
دیاگیا لیکن پشاور میں تواُن کی اپنی حکومت اوراپنی پولیس تھی ۔ وہاں پر
بھی وہی کچھ دہرایا گیا جولاہور میں ہوا تھا ۔ ہم تودست بستہ یہی عرض
کرسکتے ہیں کہ خُدارا ! اِس قوم پررحم فرمائیے اورمعاملہ پانامالیکس کی
تحقیقات تک ہی رہنے دیجیئے کہ اسی میں سب کابھلا ہے ۔لیکن وہ بھلاایسا کیوں
چاہیں گے کہ اُن کی جماعت کے بڑے بڑے بُرج تو آف شور کمپنیز میں ملوث ہیں ۔
|
|