پیوستہ رہ شجر سے

بچپن میں سنا تھا کہ قائد کی زبان اور لہجا ایسا ہونا چاہئے کہ اس کی ہر بات پر ایمان لانے کو دل کرے۔ اس کا کردار اس کا اخلاق بہترین ہو اور اس کے ارادوں میں آپ کے لئے خلوص دکھائی دے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسے بہت قائد ہماری نظر سے گزرتے ہیں۔ جن میں سب سے پہلے ہمارے پیارے رسول حضرت محمدﷺ ہیں۔ آپﷺ کی حیاتِ پاک تمام انسانوں کے لئے ایک مثال ہے۔ آپﷺ کی حیات، پاک کا کون سا ایسا پہلو ہے جو ہمارے لیے مشعلِ راہ نہ ہو۔ آپ ﷺ کا لہجا، اُﷺ کا اخلاق، آپﷺ کا اپنے مخالفین کے ساتھ رویہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اس کے بعد صحابہ کرام ؓ کی زندگیاں بھی کسی مثال سے کم نہیں ہیں۔ خلافت کے اونچے مرتبے پر بھی فائز ہونے کے باوجود آپ صحابہؓ کے رویوں میں عاجزی اور خداخوفی برقرار رہی۔ پھر ہم مثال دے سکتے ہیں اپنے قائدمحمد علی جناح کی۔آپ نے مسلمانوں کے لئے جو الگ مملکت کے حصول کے لئے جدوجہد کی اسکو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں لیڈرز کی بھرمار دکھائی دے گی۔ کسی کا منشور کچھ تو کسی کا نعرہ کچھ۔ وقت کے ساتھ حالات ٹھیک ہونے کی بجائے اب تک بگڑتے ہی دکھائی دے رہے ہیں۔گزشتہ چند سالوں سے جو حالاک ملک کو درپیش ہین وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ پہلے پی پی پی کی حکومت تھی اورلوگ خون کے آنسو روتے تھے۔ اس دور میں ملک کی اقتصادی صورتحال کیا تھی یہ بھی ہم سب جانتے ہیں۔ پھر حکومت آئی مسلم لیگ نون کی۔ حکومتی جماعت کو اب تک جس پارٹی نے دھچکا دیا ہے وہ ہے پی ٹی آئی۔ میری نظر میں جب کسی کے چاینے والے بہت زیادہ ہوں اور وہ ہو بھی نوجوانوں کی جماعت کا قائد تو اس پر ذمہ داریاں بھی کچھ زیادہ ہی عائد ہوتی ہیں۔ جو کچھ بھی خان صاحب کے جلسوں میں ہوتا ہے اس سے باخدا ہر ذی شعور کو تکلیف ہوتی ہے۔ کیا ضروری ہے کہ یوں جلسوں میں جا کر ناچ گانا کر کے ہی خان صاحب کو دکھایا جائے کہ ہم آپ کے حامی ہیں۔ اگر جانا ضروری ہے تو پارٹی کی ساکھ کا ہی کچھ خیال رکھ لیا جائے۔ہم آپ کے حامی ہیں یہ دکھانے کے لئے سب سے بہترین طریقہ ووٹ ہے۔ قیادت کا سب سے اہم منشور اپنے سپورٹرز کی اصلاح ہونا چاہئے۔ ایک قائد کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے جب اسکے حمایتی اسکو اپنا سب کچھ تسلیم کرنے لگتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سپورٹرز کا بھی احوال کچھ ایسا ہی ہے۔ اپنے قائد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نوجوانوں کی زبان درازی کا یہ عالم ہے کہ جب حکومتی جماعت پرتنقید کرنے پر آتے ہیں تو زبان درازی کے وہ عظیم نمونے پیش کرتے ہیں کہ سامنے والا خاموش ہو جاتا ہے۔ اور انکو لگتا ہے انھوں نے میدان مار لیا۔
خان صاحب کیمطالبے اپنی جگہ درست ہوں گے پر جس طرح انکی پارٹی کے جلسوں میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات عام ہوتے جا رہے اور اس وجہ سے خان صاحب کیے مطالبات کو پسِ پشت ڈال کر صرف پارٹی کو تنقید کا نشانی بنایا جارہا ہے۔ اس سے پارٹی کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ بظاہردکھتا ہے کہ وہاں موجود افراد ہجوم میں پھنسی خواتین کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں پر ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی کو اس وقت سب سے زیادہ سپورٹ نوجوانوں کی حاصل ہے اور اگر اسی طرح یہ نا زیبا واقعا ت رو نما ہوتے رہے تو پارٹی کی شہرت کو کافی نقصان ہوگا۔ اور یہ بات بھی طے ہے کہ اگر نوجوانوں کے قائد نوجوانوں کی اصلاح پر بھی توجہ دیں تو انکی سپورٹ یقینی طور پر بڑھے گی۔ توجہ طلب امر پی ٹی آئی کے لئے اس وقت یہ ہے کہ اپنی سپورٹ کو دوبارہ بحال کرے کیونکہ لاہور کا جلسہ پارٹی کی مقبولیت میں کمی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ آج کا نوجوان تبدیلی کاخواہشمند ہے اور اس تبدیلی کے لئے وہ پرخلوص بھی ہے اور جذبوں سے لبریز بھی ہے اب یہ قائدین کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس جوش اور ولولے کو کس طرح ابھارتے ہیں اور تبدیلی لانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

سیاسی جماعتیں اپنی جگہ پر اب میڈیا کا رول ہی دیکھ لیں تو بہت دھچکا لگتا ہے۔ آپکو ہرجرنلسٹ آگ لگاتا ہی دکھائی دے گا۔ کوئی حکومت کی حمایتمیں بول رہا ہے اور کوئی اپوزیشن کی حمایت میں۔ ہر جانب ہمیں انتہا پسندی دکھائی دے رہی ہے۔ میانہ روی کا کہیں کوئی نشان ہی باقی نہیں رہا۔ کیا یہ زیادتی نہیں ہے کہ ہم اگر کسی کی مخالفت میں کھڑے ہوں تو اس کے ہر اچھے اقدام پر بھی تنقید کو اپنا نصب العین بنا لیں۔ ہم سب مانتے ہیں کہ حکومتی جماعت میں برائیاں ہیں تو صرف اچھائیاں تو اپوزیشن جماعتوں میں بھی نہیں ہیں۔ سب انسان ہیں اور سب میں اچھائیاں اور برائیاں موجود ہیں۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ جو نوجوان تبدیلی کے نعرے سن سن کر جلسوں میں شرکت کے لئے آرہے ہیں انکو حقیقی تبدیلی سے آشنا کروایا جائے۔ تبدیلی کا مطلب خواتین کو جلسوں میں لا نا نہیں ہے۔ تبدیلی کا مطلب انکو جلسوں میں لا کر انکی سیکیورٹی کو یقینی بنانا بھی ہے۔

تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آگئی ہے یہ بات اپنی روح کے ساتھ اس دن سامنے آئے گی جب ڈگری لے کر نوجوان کو سڑکوں پر گھومنا نہیں پڑے گا۔ جب ایک مزدور کو ساری رات یہ سوچ کر جاگنا نہیں پڑے گا کہ اگر کل بھی مزدوی نہ ملی تو میں واپسی پر بچوں کے لئے کھانا کیسے لاؤں گا۔ جب معاشرے میں تحفظ کا احساس ہوگا وہ ہوگی تبدیلی۔ جب ایک بیوہ عورت کواپنی جوان بیٹوں کی عزت کی حفاظت کا غم راتوں کوجگائے گا نہیں اس دن ہوگی تبدیلی۔ جب سب کو تعلیم کے ایک جیسے مواقع حاصل ہوں گے تب آئے گی تبدیلی۔ جب معاشرے سے کرپشن ختم ہوگی تب آئے گی تبدیلی۔ جس دن پاکستانی دنیا کے سامنے سر اٹھا کر جا سکیں گے کہ ہم دہشتگرد نہیں ہیں وہ ہوگی تبدیلی۔صرف نعروں سے نہیں عمل سے آئے گی تبدیلی۔ نوجوان تیار ہیں کہ تبدیلی لانے کے لئے کیا انکے قائد بھی تیار ہیں؟ بدقسمتی یہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک پاکستانیوں کیجذبہِ حب الوطنی کے ساتھ کھیلا ہی گیا ہے۔ کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے لگا کر تو کبھی سادگی اپناؤ کے نعرے لگا کر۔ پر خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستانیوں نے کبھی ہار نہیں مانی اور نہ ہی مانیں گے۔ جب تک تبدیلی نہیں آجاتی ہم امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ قائدین عوام کے ساتھ ایک مضبوط تعلق قائم کریں اور ان کے درد اور غم کو اپنا مانیں تب ہی آئے گی تبدیلی۔ عوام پر جوش اور پر امید ہے ۔اور اس دن کے انتظار میں ہیں جب ہم دیکھیں گے وہ پاکستان جس کا خواب اقبال نے د یکھا تھا اور قائدِاعظم نے اسکی تعبیر کے لئے کوششیں کی۔
بقول اقبال
مِلت کے ساتھ رابطہ اِسطوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ!
 
Fizza Imtiaz
About the Author: Fizza Imtiaz Read More Articles by Fizza Imtiaz: 4 Articles with 2762 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.