اس بارے میں مکمل خاموشی کیوں؟

ڈھاکہ کے مقتل
ملا عبدالقادر،علی احسن مجاہداور اب مطیع الرحمان نظامی ۔کوئی دکھ سا دکھ ہے ۔ڈھاکہ میں مقتل آباد ہو رہے ہیں اور ہم بے وفاؤں کے پاس ایک حرف مذمت تک نہیں رہا۔مقتلوں میں لٹکے لاشے کو زباں ملے تو کہے:
’’ پڑھی نمازجنازہ کی میری غیرو ں نے
مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے‘‘

لیکن شاید یہ بھی شہیدوں کاحسن ظن ہی ہو کیونکہ یہاں تو یاروں نے وضو کا تردّد بھی نہیں کیا ۔ایک سناٹا ہے۔ کیسے بے نیاز ہیں ہم لوگ، اسی لہو کو بھول گئے جو ہمارے لیے بہا تھا۔حادثے کے ذمہ دار البدر کے جوان تو نہ تھے۔ہمیں تو فوجی حکمرانوں اور بھٹو صاحب کی ہوس اقتدار لے ڈوبی۔جس نے ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی اسے ہم نے فخر ایشیاء بنا دیا اور جس نے دختر انگور کے مٹکے میں شعوراورغیرت ڈبو دی اسے ہم نے قومی پرچم میں لپیٹ کر توپوں کی سلامی دے کراعزاز کے ساتھ دفنا دیا،اور جن پاکبازوں نے اپنی جوانیاں وطن پہ نثار کر دیں انہیں ہم نے گناہ کی طرح بھلا دیا۔ ہتھیار پھینکتے وقت بھی نہیں بتایا کہ ہم توسرنڈر کرنے والے ہیں تم بھی ادھرادھرہو کر اپنی جان بچا لو۔احباب تو نرسوں کے لیے آئے ہیلی کاپٹرمیں بیٹھ کر فرارہو گئے، البدر کے جوانوں کا مکتی باہنی نے جی بھر کر قتل عام کیا۔ آج وطن سے محبت کے جرم میں ان کے لاشے پھانسی گھاٹ میں جھول رہے ہیں اورہمارے پاس انہیں دینے کے لیے لفظوں کاکفن بھی نہیں ہے ۔طبلچیوں کو صاحب منصب کی چمچہ گیری سے فرصت ملے تو کوئی اس موضوع پر بات کرے ۔اہل دربار جنہیں بادشاہ سلامت کے جھوٹے قصائد کے عوض راشن ملتا ہے سوال اٹھاتے ہیں پاکستان کیاکرسکتا ہے۔یہ بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ ہے۔سچ بات ہے جب حیا اٹھ جائے تو آدمی جو چاہے کرے۔سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ جب بنگلہ دیش بنا تو امکان تھاکہ وہ انتقام کی طرف جائے گا۔اسی لیے بھٹو نے ان ہزاروں بنگالیوں کو واپس جانے سے روک لیا جو مغربی پاکستان میں موجود تھے اور بنگلہ دیش قیادت کوپیغام دیا گیا کہ اگر اس نے جنگی جرائم کے نام پرانتقام کا سلسلہ شروع کیا تو ان بنگالیوں پر بھی مقدمات قائم کر دیے جائیں گے چنانچہ ایک معاہدے کے نتیجے میں طے پایا کہ ایسی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔اب اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنگلہ دیش کا وار ٹربیونل انتقام لے رہا ہے۔اس کا کوئی جوازنہیں ہے۔اگر سزائیں بنگلہ دیش سے غداری کے جرم میں سنائی جا رہی ہیں تو غیر قانونی ہیں کیونکہ اس وقت یہ سب لوگ اپنے وطن پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑ رہے تھے اوربنگلہ دیش نام کا کوئی ملک اس وقت نہیں تھا۔اور اگر یہ انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کی بنیاد پر دی جا رہی ہیں توکیا وجہ ہے ان کا نشانہ صرف البدر کیوں ہے۔مکتی باہنی کے کسی کارکن کو آج تک سزا کیوں نہیں سنائی جا سکی۔رہ گئی بات یہ کہ پاکستان کیا کرسکتا ہے تو جناب ایک سفارتی مہم توشروع کی جاسکتی تھی ۔آپ نے بنگلہ دیش وار ٹربیونل کے خلاف دنیا میں ایک دفعہ بھی ڈھنگ کی آوازاٹھائی؟دن میں پانچ دفعہ موذّن اذان دیتا ہے اور دس دفعہ ملک الشعراء نواز شریف کا قصیدہ پڑھتے ہیں۔کیا ایک دفعہ بھی ان کے منہ سے ان شہیدوں کے لیے کوئی لفظ ادا ہوا؟ وہ جیسے چباچبا کر عمران خان کی مذمت کرتے ہیں ایسے ہی چبا چبا کر دو فقروں میں اس ڈائن کی بھی مذمت کر دیتے جس کے سرپر خون سوار ہے۔بھارت کے ساتھ حکمران طبقے کے کاروباری مفادات کی نوعیت ہرروز پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے اور نت نئے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ہم ایسٹ انڈیا کمپنی کی واردات دیکھ چکے اب انڈیا سے کاروباری تعلقات سے سوالات اٹھنا فطری امر ہے۔یہاں ایک سرمایہ دارملک ریاض کسی سے نہیں سنبھالاجارہا اگر یہاں بھارتی سرمایہ آ گیا تو بھارتی مداخلت کوکیسے روکاجائے گا؟ایک نئی ایسٹ انڈیاکمپنی تونہیں وجود میں آرہی؟ آخرکیا وجہ ہے کہ ہر کام میں بھارتی خوشنودی دیکھی جاتی ہے۔کیا بنگلہ دیش وارٹربیونل پرمجرمانہ خاموشی کی وجہ بھی یہی ہے کہ بھارت سے حکمرانوں کے کاروباری مفادات ہیں اور اس کی ناراضی مول نہیں لی جا سکتی۔

بنگلہ دیش نے مطیع الرحمان نظامی کو سزائے موت دے دی کہ مطیع الرحمان نظامی البدر کے سپریم کمانڈر تھے۔آج ہم میں سے کتنے ہیں جو جانتے ہیں کہ البدر کیا تھی؟یہ تنظیم میجر ریاض حسین ملک نے بنائی۔اور میجر سے میرا تعلق دو عشروں پر محیط ہے۔میجر ریاض بتاتے ہیں کہ راجشاہی میں فوج کی نفری کم تھی اورہمارے لیے ممکن نہیں رہا تھاکہ ہم پلوں اوررستوں کی نگرانی کرسکیں۔ایک روزکچھ بنگالی نوجوان ان کے پاس آئے اور کہا کہ دفاع وطن کے لیے آپ کے کچھ کام آ سکیں توحاضرہیں۔ان جوانوں کاتعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔میجر ریاض نے انہیں کہا ٹھیک ہے آپ فلاں فلاں پلوں پر پہرا دیجیے۔ایک نوجوان نے کہا:’’میجر صاحب ہمیں اپنی حفاظت کے لئے بھی کچھ دیں‘‘۔یہ وہ دن تھے جب ہائی کمان کی طرف سے حکم آچکا تھا کہ تمام بنگالیوں کو غیر مسلح کردو۔میجر ریاض کی آج بھی آہیں نکل جاتی ہیں جب وہ بتاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ اندر گئے اور سورہ یٰسین کا ایک نسخہ اس جوان کو پکڑا دیا کہ اپنی حفاظت کے لیے میں تمہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔وہ نوجوان چلے گئے، گھر نہیں بلکہ میجر کے دیے مشن پر۔بانس کے ڈنڈے انہوں نے بنا لیے اور ندی نالوں اورپلوں پر جہاں سے مکتی باہنی اسلحہ لاتی تھی پہرے شروع کر دیے۔میجر ریاض بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے اسلحہ نہیں مانگا۔لیکن میجرکے من کی دنیا اجڑ چکی تھی۔فوجی ضابطے انہیں عذاب لگ رہے تھے۔ایک روز تیس کے قریب نوجوان ان کے پاس آئے کہ انہیں بھی اس رضاکار دستے میں شامل کر لیں۔ان میں ایک بچہ بھی تھا۔ میجر نے اسے کہا بیٹا آپ بہت چھوٹے ہو واپس چلے جاؤ۔وہ بچہ اپنی ایڑیوں پرکھڑا ہو گیا اور کہنے لگا:’’ میجر شاب ہُن تو بڑا ہوئے گاشے‘‘( میجر صاحب اب تو بڑا ہو گیا ہوں)۔میجر تڑپ اٹھے، انہیں معوزؓ اور معاذؓ یاد آ گئے جن میں ایک نے نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں ایسے ہی ایڑیاں اٹھا کر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اتنے چھوٹے بھی نہیں کہ جہاد میں حصہ نہ لے سکیں۔میجر نے اس بچے کو سینے سے لگا لیا۔ہائی کمان کا حکم پامال کرتے ہوئے ان جوانوں کو مسلح کردیا اورجنگ بدر کی نسبت سے اس رضاکار دستے کو’’ البدر‘‘ کا نام دے دیا۔کئی ہفتے بعد ہائی کمان نے ان سے پوچھا کہ ان کے علاقے میں اتنا امن کیسے ممکن ہوا تو میجر نے یہ راز فاش کیا کہ میں نے آپ کی حکم عدولی کی اور میں نے تمام بنگالیوں پرعدم اعتماد نہیں کیا۔میں نے بنگالیوں کو مسلح کر کے بھارت اور مکتی باہنی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا ہے۔تب یہ رضاکار تنظیم پورے بنگال میں قائم کر دی گئی۔

ایک روزمیں نے میجرسے پوچھاکہ ہم میں عمروں کے فرق کے باوجود تکلف باقی نہیں ہے،’’ البدر نے ظلم تو بہت کیے ہوں گے اپنے سیاسی مخالفین پر؟‘‘یہ سوال پوچھتے ہوئے میرے ذہن میں موجودہ اسلامی جمعیت طلبہ کاکردار تھا جو اختلاف رائے برداشت نہیں کرسکتی اور گاہے تشدد پر مائل ہو جاتی ہے۔یہ سوال سن کر میجر کو ایک چُپ سی لگ گئی۔کہنے لگے:’’ تم میری بات کا یقین کرو گے؟‘‘میں نے کہا آپ سے پچیس سال کا تعلق ہے میرا نہیں خیال کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔میجر نے کہا:’’ میں اپنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے البدر کے لوگوں سے زیادہ قیمتی اورنیک لڑکے نہیں دیکھے، یہ لڑکے اللہ کا معجزہ تھے، میرے علم میں کوئی ایک واقعہ بھی نہیں کہ انہوں نے کسی سے ذاتی انتقام لیا ہو۔مجھے تو جب یہ پتا چلا کہ ان کی فکری تربیت مودودیؒ نام کے ایک آدمی نے کی ہے تو اشتیاق پیدا ہوا کہ دیکھوں یہ مودودؒی کون ہے۔برسوں بعد جب میں بھارت کی قید سے رہا ہوا تو میں اپنے گھر نہیں گیا،میں سیدھا اچھرہ گیا، مودوؒدی صاحب کے گھر، میں دیکھنا چاہتا ہے وہ شخص کیسا ہے جس نے ایسے باکردار اور عظیم نوجوان تیار کیے‘‘۔

آج یہی البدر پھانسی گھاٹ پر لٹک رہی ہے اور ہم ایک حرف مذمت بھی نہیں کہہ سکتے۔ہم سا بے حس بھی کوئی ہو گا؟سیکولر مُلائیت کا تو پیشہ ہی اہل مذہب سے نفرت ہے ان مجہول عصبیت فروشوں سے کیا گلہ؟ کیا یہ بھی نامناسب ہوتا کہ آج پارلیمنٹ کے لان میں پاکستان پر قربان ہونے والے مطیع الرحمان نظامی کی جنازہ ہی پڑھ لی جاتی؟سماج کدھر ہے؟ آزاد میڈیا کیا ہوا؟حقوق انسانی تخلص کرنے والی سول سوسائٹی کہاں کھو گئی ؟سکوت مرگ کیوں ہے ؟کیا سب مر گئے؟

جماعت اسلامی نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔پاک فوج کے شہداء کے بعداس ملک پرقربان ہونے والوں میں یہ سب سے آگے ہے لیکن اُدھر بھی یہ غدار،اِ دھربھی یہ غدار۔ جونکوں کی طرح اس ملک کو لوٹ کھانے والے گدھ یہاں معتبرٹھہرے لیکن وطن عزیز سے محبت جرم ہوا۔ یہاں نہ سوئس بنکوں میں لوٹ کامال رکھنا جرم ہے نہ پانامہ لیکس میں بے نقاب ہوتے کرتوت۔صرف پاکستان سے محبت جرم ہے۔
اس جرم میں متقل آباد کرنے والوں کے لیے نہ کوئی پرسہ نہ کوئی آنسو ۔
’’ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز‘‘۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390140 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.