آج ہم گناہوں اور فتنوں کی جس
دلدل میں پھنس چکے ہیں اُس سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ اور وہ ہے
توبہ۔ اللہ رب العزّت کا ارشادِ پاک ہے "مومنوں! خدا کے آگے صاف دل سے توبہ
کرو۔ امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تم کو باغہائے بہشت
میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا" ﴿تحریم:۶۶﴾۔ نبی کریم سرکار
ِدو عالم ﷺ سے بڑھ کر کوئی نیک اور متقی نہیں ہو سکتا اور نبی تو ویسے بھی
معصوم ہوتے ہیں ان سے تو گناہ سرزد ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن حضور ﷺ نے ارشاد
فرمایا "میں اللہ تعالیٰ سے روزانہ ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں"۔ اب ہم ذرا
اپنی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ ہمیں توبہ و استغفار کی کتنی ضرورت
ہے۔ توبہ سے روکنے کے لئے عام طور پر شیطان انسان کو دو طرح کی پٹّی پڑھاتا
ہے۔ ایک تو یہ کہ ابھی تو بڑی عمر پڑی ہے، ابھی توجوان ہیں، ابھی تو ہنسنے
کھیلنے کے دن ہیں، مزے کرو، بعد میں توبہ کر لیں گے۔ تو سب سے پہلے تو ہمیں
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ توبہ کی توفیق بھی اللہ تبارک
وتعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ آج اگر دل میں توبہ کا خیال پیدا ہو رہا ہے تو
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا پیغام ہے۔ اس کو غنیمت جانیں اور آج ہی
فوراً اس پر عمل کر لیں، کیا خبر کل یہ توفیق حاصل ہو یا نہ ہو۔ اگر ہم
اپنے ارد گرد دیکھیں تو ایسی بہت سی مثالیں نظر آئیں گی جن کو بڑھاپے میں
یہاں تک کہ زندگی کے آخری ایام میں بھی توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اور
وہ اپنے گناہوں کا بوجھ اُٹھائے قبروں میں چلے گئے﴿اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے﴾۔
لہٰذا اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اگر آج ہم توبہ نہیں کرتے تو کل ہمیں
توبہ کی توفیق ہوگی۔ گناہوں کی دلدل تو ایسی ہے کہ جب تک انسان اس میں سے
نکلنے کی کوشش نہ کرے ہر لمحہ مزید گہرائی میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ ہر نیا
آنے والا دن نہ صرف ہمارے گناہوں میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ ان کو پختہ کر
کے ہماری توبہ کو مشکل بنا رہا ہے اور ہمیں اللہ پاک سے دور کر رہا ہے۔ اسی
لئے گناہ ِصغیرہ پر اصرار گناہِ کبیرہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ا ور پھر کسی
آدمی کو اپنی موت کا علم نہیں، اگلے لمحے بھی آ سکتی ہے۔ اور جب آتی ہے تو
ایک لمحہ بھی مہلت نہیں ملتی۔ اگر آج توبہ نہ کی تو کیا خبر کل تک زندہ ہی
نہ رہیں۔ اس لئے یہ سوچ کر گناہ کرنا کہ بعد میں توبہ کر لیں گے بہت بڑی بے
عقلی ہے۔ لہٰذا توبہ کو کل پر ٹالتے رہنا نفس و شیطان کا دھوکہ ہے۔ نفس
انسان کو یہ دھوکہ اس لئے دیتا ہے کہ وہ اُن حرام لذتوں کو چھوڑنا نہیں
چاہتا جو توبہ کے بعد چھوڑنی پڑتی ہیں۔ تو اللہ کے واسطے ہم سب اپنے آپ کو
نفس و شیطان کے حیلوں سے بچائیں جو وہ توبہ سے روکنے کے لئے استعمال کرتے
ہیں۔
دوسری پٹی شیطان یہ پڑھاتا ہے کہ تم نے تو اتنے گناہ کئے ہیں کہ تمہاری
بخشش ہو ہی نہیں سکتی۔ یا تم گناہ تو چھوڑ نہیں سکتے اس لئے توبہ سے کوئی
فائدہ نہیں۔ایک بات کا جواب تو ہمیں اس حدیثِ قدسی سے مل جاتا ہے، اللہ
تعالیٰ نے فرمایا کہ "جو شخص ساری زمین بھر کر گناہ کر لے اور پھر میرے پاس
آجائے بشرطیکہ اس نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں اس کو اتنی ہی مغفرت
عطا کروں گا جتنے اس کے گناہ تھے"۔ اور فرمایا کہ "میری رحمت میرے غضب پر
سبقت لے گئی" پھر اسی کو اللہ تعالیٰ نے قانون بنا دیا۔ اور اسی رحمت کے
باعث اللہ پاک نہ صرف گناہ معاف فرما دیتے ہیں بلکہ "جس نے توبہ کی اور
ایمان لایا اور اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے
بدل دے گا"﴿فرقان: ۰۷﴾۔ اس آیت سے توبہ کی یہ شرط بھی معلوم ہوتی ہے کہ
توبہ کے بعد پھر گناہوں سے باز آجائے اور نیک اعمال کرے۔ اور ماضی کے
گناہوں کو بھول جائے کیونکہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ"جس نے گناہ کے بعد
توبہ کر لی وہ گویا بے گناہ ہو گیا "۔ اور رہی دوسری بات کہ ہم گناہ نہیں
چھوڑ سکتے تو اللہ پاک کی توفیق کے بغیر ہم واقعی گناہ نہیں چھوڑ سکتے۔
لیکن ہمارے کرنے کے دو کام ہیں ایک تو پکّا ارادہ کرنا اور دوسرا خلوصِ نیت
سے اللہ کے راستے میں کوشش کرنا اور اسی کے ہم مکلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے
فرمایا " جو لوگ ہمارے راستے میں کوشش کرتے ہیں تو ہم اُن کے ہاتھ پکڑ کر
اپنے راستے پر لے جاتے ہیں" ﴿العنکبوت ۹۶﴾۔ حضرت یوسف (ع) گناہ سے بچنے کے
لئے دروازے کی طرف بھاگے، یہ جاننے کے باوجود بھی کہ دروازے پر تالے پڑے
ہوئے ہیں۔ اس لئے تاکہ اللہ میاں سے کہہ سکیں کہ یا اللہ دروازے تک بھاگنا
میرا کام تھا اور آگے دروازے کھولنا آپ کا کام ہے اور فرمایا "اگر آپ نے
مجھ سے ان کے فتنوں کو دور نہ فرمایا تو میں اس میں مبتلا ہو جاؤں گا اور
اس کے نتیجے میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں گا"﴿یوسف:۳۳﴾۔ اور جب اللہ تعالیٰ
نے دیکھا کہ میرے بندے نے اپنے حصے کا کام کر لیا تو دروازوں کے تالے ٹوٹ
گئے اور دروازے کھل گئے۔ اسی طرح اگر آج ہمیں گناہوں سے، فحاشی سے، بے دینی
سے بچنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا لیکن پھر بھی بھاگ کر تو دکھاؤ، پھر
اللہ میاں سے کہو کہ یااللہ آگے بچانا آپ کا کام ہے تو انشااللہ ہمارے لئے
بھی دروازے کھل جائیں گے۔ لیکن کچھ کریں تو سہی، قدم تو بڑھائیں۔ آج کا وقت
بیٹھ کر انتظار کرنے کا نہیں بلکہ توبہ میں جلدی کرنے کا ہے۔ اللہ تعالیٰ
خود فرما رہے ہیں "اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنّت کی طرف جلدی سے دوڑو،
جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے اور وہ متّقی لوگوں کے لئے تیار
کی گئی ہے"﴿آلِ عمران:۳۳۱﴾۔ حضور ﷺ نے بڑے پیارے انداز میں ہمیں یہی پیغام
دیا ہے کہ "سات چیزوں کے آنے سے پہلے جلد از جلد اچھے اعمال کر لو، جس کے
بعد اچھا عمل کرنے کا موقع نہ ملے گا۔ کیا تم ایسے فقروفاقہ کا انتظار کر
رہے ہو جو بھلاُ دینے والا ہو؟ یا ایسی مالداری کا جو انسان کو سرکش بنا دے؟
یا ایسی بیماری کا جو تمہاری صحت کو خراب کر دے؟ یا سٹھیا دینے والے بڑھاپے
کا؟ یا اس موت کا جو اچانک آجائے؟ یا دجّال کا؟ یا پھر قیامت کا ؟ تو سُن
رکھو کہ قیامت جب آئے گی تو اتنی مصیبت کی چیز ہوگی کہ اس مصیبت کا کوئی
علاج انسان کے پاس نہیں ہوگا۔ لہٰذا اس کے آنے سے پہلے پہلے نیک عمل کر لو"۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آخرت میں ہم سے پوچھیں گے کہ"کیا ہم نے تم کو اتنی عمر
نہیں دی تھی جس میں اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہتا تو نصیحت حاصل کر لیتا،
اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آگیا تھا"﴿فاطر:۷۳﴾۔ ایک جگہ فرمایا "اور اس
سے پہلے کہ تم پر عذاب آ واقع ہو، اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اس کے
فرمانبردار ہو جاؤ، پھر تم کو مدد نہیں ملے گی"﴿زمر:۴۵﴾۔
آج امّتِ مسلمہ ذلّت و رسوائی کے جس گڑھے میں گری ہوئی ہے اس کی وجہ یہی ہے
کہ ہم نے اپنے دین کو چھوڑ دیا ہے، ہم نے اللہ اور رسول ﷺ کو بھلا دیا ہے۔
سب مل کر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں، اپنے اللہ کو راضی کر لیں۔ آج ہمیں چھوٹے
بچوں سے سبق لینا چاہیے جنہیں کوئی بھی تکلیف پہنچے وہ صرف رونا شروع کر
دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسی سے ہمارا کام بنے گا۔ آج ہمارے پاس
بھی اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ اپنے رب کے سامنے روئیں، گڑگڑائیں
اور توبہ کریں کہ وہ اپنے محبوب ﷺ کی امّت کو سنبھال لے جو کافروں کے
ہاتھوں اپنے اعمال کے باعث ذلیل و رسوا ہو رہی ہے۔ ارے یہ تو ہم ہی ایسے
ظالم ناشکرے ہیں کہ اپنے اللہ سے منہ موڑ رکھا ہے اور وہ تو ایسا رحیم و
کریم رب ہے کہ فرما رہا ہے " اے میرے بندوں جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی
کی ہے، خدا کی رحمت سے نا اُمید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔
وہ تو بخشنے والا مہربان ہے"﴿زمر: ۳۵﴾۔ ذرا انداز تو دیکھیں! کس محبت سے
ایک مالک اپنے نافرمان بندوں سے مخاطب ہے۔ اگر ہم اب بھی ایسے رب کو بھلا
دیں تو ہم سے بڑا احسان فراموش اور کون ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "کیا
اب بھی مومنوں کے لئے یہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل خدا کی یاد سے نرم ہو
جائیں"﴿الحدید:۶۱﴾۔ "جب کوئی بندہ توبہ کرتا ہے تو آسمانوں پر اس خوشی میں
چراغاں کیاجاتا ہے۔ فرشتے پوچھتے ہیں کہ یہ چراغاں کیوں ہے تو جواب ملتا ہے
کہ آج ایک بندے نے اپنے اللہ سے صلح کرلی ہے"۔ "فرشتے جب انسانوں کو اس طرح
نافرمانیاں کرتے دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ اجازت دیں کہ
ایسے نافرمانوں کو ہلاک کردیں، سمندر کہتا ہے اجازت ہو تو میں ان نافرمانوں
پر چڑھ جاؤں تو اللہ پاک فرماتے ہیں کہ تم میرے اور میرے بندے کے بیچ میں
دخل نہ دو میں تو اپنے بندے کی توبہ کا انتظار کرتا ہوں"۔
خدارا غور کریں کہ آج ہم بے حسی کے کس مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ کتے کو بھی
جہاں سے ایک وقت روٹی مل جائے تو وہ اُس دَر کا وفادار بن کر رہتا ہے۔ لیکن
ہم نے کتنی وفا کی اپنے مالک سے جو ہمیں کھلا رہا ہے، پلا رہا ہے، سُلا رہا
ہے، ان گنت نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سب سچے دل سے
توبہ کریں اور آئندہ کے لئے گناہوں سے باز آجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ
مبارکہ میں توبہ کی چند شرائط بتائیں ہیں کہ"خدا انہیں لوگوں کی توبہ قبول
فرماتا ہے جو نادانی سے بُری حرکت کر بیٹھتے ہیں، پھر جلد توبہ کر لیتے
ہیں۔ پس ایسے لوگوں پر خدا مہربانی کرتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ﴿اور﴾حکمت
والا ہے۔ اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو ﴿ساری عمر﴾ برے کام
کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو اس وقت کہنے
لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں اور نہ ان کی ﴿توبہ قبول ہوتی ہے﴾ جو کفر کی
حالت میں مریں۔ ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذابِ الیم تیار کر رکھا
ہے"﴿النسائ:۷۱-۸۱﴾۔ یعنی توبہ صرف ان کی قبول ہوتی ہے جو نادانی اور جہالت
میں غلطی کرتے ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ جب غلطی ہو گئی تو پھر توبہ کرنے میں
دیر نہیں بلکہ جلدی کرتے ہیں اور انہیں اپنے گناہ پر ندامت ہوتی ہے۔ اور
تیسرا یہ کہ سب کچھ اللہ کی مہربانی سے ہوتا ہے یعنی توبہ کی توفیق بھی
اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتے ہیں یعنی "وہ تو دلوں
کے بھیدوں تک سے واقف ہے"﴿فاطر:۸۳﴾۔ اس لئے توبہ کے لئے خلوصِ نیّت بھی شرط
ہے۔ اور ایک شرط یہ ہے کہ توبہ کے بعد اعمالِ صالحہ اختیار کرے۔
اس لئے ابھی اور اسی وقت توبہ کریں۔ توبہ ایک اجمالی ہے، اور ایک تفصیلی۔
اجمالی توبہ کے لئے دو رکعت صلوٰۃ التوبہ کی نیت سے پڑھ کر سابقہ زندگی کے
تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے اجمالی طور پر عاجزی اور زاری کے ساتھ اللہ
تعالیٰ سے توبہ کریں اور عزم کریں کہ آئندہ ان گناہوں کے قریب بھی نہیں
جاؤں گا۔ پھر توبہ تفصیلی یہ ہے کہ جتنے غلط کام ماضی میں کئے ہوں اور ان
کی تلافی ممکن ہو تو ان کی تلافی کی کوشش کی جائے۔ یعنی جو فرائض واجبات،
نمازیں، روزے، زکوٰۃ، حج رہ گئے ان کو ادا کرنے کا اہتمام کریں اور اگر کسی
کی کوئی مالی یا جانی حق تلفی کی تو اس کا ازالہ کریں یا کسی کو ناحق تکلیف
پہنچائی تو اُس سے معافی مانگیں۔ اور توبہ کے بعد پھر ہر قسم کے گناہ سے
بچیں۔ اگر کبھی نادانی سے غلطی ہو جائے تو پھر فوراً توبہ کرلیں۔ اپنی
ظاہری و باطنی اصلاح کی ہر طرح سے کوشش کرتے رہیں۔ حضور ﷺ نے ہمیں یہ دعا
تلقین فرمائی : اللّٰھمَّ اجْعَلْ یَوْمَنَا خَیْراًمنَ اَمْسِنَا
وَغَدَنَا خَیْراً من یَوْمَنَا ﴿اے اللہ! ہمارے آج کو گزشتہ کل سے بہتر
بنا دیجئے اور ہمارے آئندہ کل کو آج سے بہتر بنا دیجئے﴾۔ اللہ تعالیٰ ہم سب
کو اس کی توفیق عطا فرمائے ﴿آمین﴾۔
ہے یہاں سے تجھ کو جانا ایک دن
قبر میں ہوگا ٹھکانہ ایک دن
منہ خدا کو ہے دکھانا ایک دن
اب نہ غفلت میں گنوانا ایک دن |