عہدِ سرسیّد کی نثر کے نقوش اور سیّد حامد کی علمی وراثت
(Safdar Imam Qadri, India)
سیّد حامد تمام عُمر ایک منتظم کے طور پر
اپنی کارکردگی انجام دیتے رہے ۔ ہندستانی معاشرے میں اُن کی بنیادی شناخت
ایک بڑے انتظام کار کی تسلیم کی گئی۔ اُن کی تعلیم انگریزی زبان کی مرہونِ
منّت رہی لیکن اُن کے کارناموں کا ایک خاص پہلو اُن کی اُردو نثر نگاری بھی
ہے جس کے مشتملات پر کبھی ہم توجّہ کرتے ہیں اور کبھی اس سے سرسری گزر جاتے
ہیں۔ اپنی زندگی کے آخری ۳۰؍برسوں میں سیّد حامد کے اردومضامین اور خطبات
کی جو ایک باضابطہ دُنیا آباد ہوئی، وہ ان کے تمام تنظیمی کاموں کے ساتھ
ساتھ مساویانہ توجّہ کی مستحق ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے، جب سیّد حامد نے قوم و
مُلک کے سلسلے سے اپنی باتیں خصوصی توجّہ کے ساتھ نذرِ قرطاس کیں اور انھیں
عوام تک پہنچانے کی ذمّہ داری اُٹھائی۔ اپنی عوامی اور انتظامی زندگی کے
تجربے اور ہندستانی قوم کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر انھوں نے اپنے سلسلۂ
مضامین کا آغاز کیا۔
بے شک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی وائس چانسلر شپ نے ہندستانی مسلمانوں کی
حقیقی صورتِ حال اور اُن کے صبر آزما مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے غور و
فکر کی طرف سیّد حامد کو اُکسایا ہوگا۔ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی تجدیدِ اشاعت
اور ضروری سوالوں پر اپنے خیالات کا سلسلہ ظاہر کرنے سے سیّد حامد کی
باضابطہ مضمون نویسی کا سلسلہ دراز ہوا۔ سرسیّد اور ان کے رفقا کی یاد اور
اُن کے اثرات سے جو یہ سلسلہ شروع ہوا، وہ اسلاف کے انھی آزمائے ہوئے
راستوں کی طرف بڑھا جس کی بنیاد میں قطعیت ، منطقی ربط، سلاست، سائنسی فکر،
تاریخ کا بار بار جائزہ لینا، قوم کو بڑے بڑے کاموں کے کرنے کے لیے آمادہ
کرنا، راست انداز میں بغیر کسی آرایشی دھُن کے اپنے بول بولنا اور سب سے
بڑھ کر مستقبل پر نظر رکھنا جیسے عناصر اساسی حیثیت رکھتے تھے۔
سیّد حامد کی تحریروں کے پس منظر میں فیضانِ سرسیّد کے نقوش اس طَور پر سب
سے زیادہ روشن معلوم پڑتے ہیں کیوں کہ سو سوا سو برس کے عرصے کو منہا کرلیں
تو اس بات سے انکار مشکل ہے کہ کم و بیش سیّد حامد کی مضمون نویسی کے مقاصد
بھی فی الحقیقت وہی تھے جو کبھی سرسیّد اور اُن کے رفقا کے لیے ہوا کرتے
تھے۔ سیّد حامد نے بھی تمام مسائل و معاملات میں تعلیم کو سرِفہرست رکھا
اور تعلیم کے بڑے سروکار اور توسیع و اشاعت سے بے خبر نہیں ہوئے۔ کبھی کبھی
وہ اس سلسلے میں تحریک کا رکے بہ طور بھی کوچہ کوچہ اور قریہ قریہ سرگرداں
ہوئے لیکن وہاں بھی قلم اور زبان کے استعمال کو ہی بنیاد ی اہمیت عطا کی۔
عہدِ سرسیّد کی روایات کی خوش گوار تجدید اس طور پر بھی انھوں نے کی کہ
قومی مسائل پر صرف مضامین نہ لکھے بلکہ تحریری خطبات کا بھی ایک باضابطہ
سلسلہ قائم کیا جس سے اُن کی فکر اور خواب قوم تک بڑے سلیقے سے پہنچائے
جاسکیں۔ انھی وجوہات سے سیّد حامد کی شخصیت اور کام کی توسیع ممکن ہوسکی
اور وہ ایک قومی اثاثہ ثابت ہوئے۔ ۱۹۸۰ء کے بعد کے عرصے میں ہندستانی
مسلمانوں کے درمیان سے بہ مشکل چند ایسی شخصیات سامنے آسکی ہوں گی جن کے
مجموعی کارناموں کو سیّد حامد کے مساوی یا مقابل گردانا جاسکے۔
سرسیّد کی فیض رسانی سے سیّد حامد کے مضامین کی بنیادیں استوار ہوئیں۔ان کے
موضوعات ،اندازِ فکر اور پیش کش کا اسلوب بھی خانوادۂ سرسید کے رکن رکین
ہونے کی کہانی کہتے ہیں۔ ’تہذیب الاخلاق ‘کی تجدید ِاشاعت کے موقعے سے سید
حامد نے اس رسالے کو صرف اصلاحی نہیں سمجھا بلکہ اسے ’توسیعی ‘قرار دیا۔
توسیعی کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ افق وسیع کرنے والا۔اس طور پر
سید حامد کے نئے مضامین کی فکری بنیادیں سمجھ میں آجاتی ہیں کیوں کہ وہ قوم
کے ذہنی و فکر ی آفاق بڑھانے کا مقصد لے کر اپنی مضمون نویسی کا باضابطہ
آغاز کر تے ہیں۔
سید حامد نے اس سلسلے سے اپنی تمہید میں ہی چند باتیں واضح طور پر لکھی ہیں
جن سے ان کے علمی مزاج کے اصول و ضوابط طے ہوتے ہیں:
(الف)مقلّدین کے نامۂ اعمال میں اختراع اور ایجاد نہیں لکھی جاتی ؛ پیروی
لکھی جاتی ہے اور اتباع‘‘[کربِ آگہی؛ص ۶]
(ب) ’’یہ عہد تعاقب اور تکرار کا عہد ہے۔ ‘‘(ایضا؛ ص ۔۷)
(ج)’’یہاں میں نے جو کچھ لکھا ہے ، اسے شدت سے محسوس کیا ہے،اس پر دیر تک
غور کیا ہے۔‘‘(صفحہ۔۸)
(د)’’کرب ِ آگہی گر بیان میں منہ ڈالنے کی ایک عبرت خیز کوشش ہے۔ ‘‘(ص۔۱۰)
(ہ)’’میں اپنے ان پارہ ہائے دل کو، جو تہذیب الاخلاق میں شائع ہوتے رہے
ہیں، اپنے مرحوم والدین کے نام منسوب کر رہاہوں۔‘‘(ص۔۱۱)
ان تفصیلات سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ سید حامد خود کو دبستانِ سرسید کا
ایک فرزند سمجھتے ہیں اور اس عہد کے اہالیان ِ علم کا خود کو پیروی کرنے
والا جانتے ہیں۔ یہ ایک لائق اولاد کا ہی صرف رویہ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے
کہ اپنے بزرگوں کے نقش ِ قدم پر چلنا اور منتخب ِ روزگار افراد کے نشانات
کو پانے کی کوشش کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ سید حامدنے ہندستانی
مسلمانوں اور اردو کے عظیم لکھنے والوں کی سب سے مستند اور مستحکم نسل کی
پیروی اور اتّباع کا ہدف رکھ کر ایک عظیم تعلیمی ، فکری، تصنیفی اور قومی
زندگی کا جو طَور اپنایا ، یہی ان کی کامیابی کا حقیقی ثبوت ہے۔
سید حامدنے اپنے مضامین کے بارے میں جن بنیادی باتوں کی طرف اشارہ کیا ،
اسی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ عہدِ سرسید کے فرزندان کے راستوں پر
چلنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کے لہجے کو انھوں نے ’سنجیدہ، علمی
اور دھیما‘قرار دیا ہے۔ یہ تین الفاظ عہدِ سرسید کے تمام کارپردازوں کے
مخصوص اسالیب کی پہچان کے لئے استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔ سید حامد نے
حقیقت میں انھی عنوانات سے خود کو محصور و متحرک کرنے کی کوشش کی۔انھوں نے
اپنے مضامین کو اپنے گریبان میں منہ ڈالنے کی ایک عبرت خیز کوشش قرار دیا
ہے۔یہ بھی تصنیف و تالیف کے باب میں وہ فارمولا ہے جسے سرسید اور ان کے
رفقا عطا کر گئے۔ وہ شدت سے محسوس کرکے، کسی موضوع پر تادیر غور و فکر کرکے
ہی کچھ لکھتے ہیں، یہ اصول بھی ثابت کرتا ہے کہ عہدِ سرسید کا پرتَو یہاں
اُبھر رہا ہے۔ اپنے مضامین کے لئے ایسی ترکیب صرف ’جا نشینانِ سر سید‘ کو
زیب دے سکتی ہے۔ سید حامدنے یہ اصطلاح اپنی تحریروں کے لئے استعمال کرکے ،
شاید ہمیں یہ اشارہ بھی دینا چاہا ہے کہ مقلّدین کی اس جماعت میں ان پر بھی
نظر کی جائے۔
شیکسپئر کے کردار کنگ لیئر کی زندگی پر غور و خوض کرتے ہوئے سید حامدنے
سرسید کی عظیم زندگی اور ان کی تحریک پر چند الفاظ رقم کئے ہیں۔ سرسید کے
ساتھ قوم کا رشتہ اور سلوک کے کتنے عبرت آمیز موڑ سید حامد نے اشاروں میں
واضح کر دیے۔ وہ رومن ٹریجڈی کے بہانے ہندستانی قوم کی بے مہری اور اپنے
حقیقی محسنوں سے غیر مشفقانہ سلوک کا تذکرہ کرتے ہوئے سر سید کی عظمت کا
اعتراف کرتے ہیں۔سید حامد شاید یہاں بین السطور میں مسلمانوں کی اس سرد
مہری کا بیان بھی کرنا چاہتے ہیں جو قوم اپنے قائدین کے ساتھ اکثر روا
رکھتی ہے۔ شاید اپنے لئے بھی یہیں سے انھوں نے زندگی کے واضح نشا نات متعین
کیے۔
سید حامدنے کم و بیش تیس برس سرگرمی کے ساتھ قومی کاموں میں حصہ لیا اور
بہت سارے مسئلوں میں ہندستانی مسلمانوں میں وہ قائد کا درجہ رکھتے تھے۔انھو
ں نے سرسید ہی کی طرح تعلیم کو مرکز میں رکھ کر اپنے دیگر مقاصد کو اس سے
متّصل کرکے بڑھانے کی کوشش کی۔ بلا شک و شبہ ان کے مقاصد اور حصولیابی کے
کچھ زاویے کج مج اور بے میل بھی رہے۔ دھُن کا پکا کبھی کبھی جمہوری تقاضوں
سے بے پروائی کا خطرہ بھی مول لیتا ہے جس کے سبب وہ ایک نہ ایک دن خود کو
غیر معنویت پر آنسو بہانے کے لئے مجبور پاتا ہے۔ سید حامدپر بھی اپنی صدا
کے گنبدِ بے دَر کا قیدی ہونے کے الزامات عائد ہوئے۔ وہ منصب کے بغیر کبھی
نظر نہ آئے۔ اندرا گاندھی کی وفات پر سید حامد نے جو مضمون لکھا ، اس میں
ان کی کامیابی اور ناکامی دونوں کے اشارے موجود ہیں۔ ذیل کا اقتباس اس طور
پر بھی پڑھنا چاہیے کہ سید حامد آخر کیوں کر اتنی گہرائی سے یہ بات سمجھتے
ہیں ۔ملاحظہ کیجئے:
ـ’’مسز گاندھی کے شانے اتنے فراخ نہ تھے جتنے ان کے عظیم باپ کے اور نہ دل
اتنا وسیع ، نہ دماغ اتنا با خبر لیکن انتظامی امور میں وہ ان سے زیادہ
موثر تھیں۔ فیصلہ اور کام کی راہ میں وہ تکلّف ، مروّت اور مراعات کو حائل
نہ ہونے دیتی تھیں، فیصلے کا نفاذ بے دریغ کراتیں، اور چالاکی اور سینہ
زوری اور سازش کرنے والوں یا وزارتِ عظمیٰ کے خواب دیکھنے والوں کی سر کوبی
انتہائی شائستہ چابک دستی کے ساتھ کرتیں۔زبان پر کوئی سخت لفظ نہ آتا ،
ملنے کی نوبت بھی نہ آتی اور سرکش اور سازشی کو پتہ چل جاتا کہ وہ آسمان سے
زمین پر پٹک دیا گیا ہے۔ باریابی کے دعویدار کو اچانک پتہ چلتا ہے کہ
دروازہ اس پر بند کر دیا گیا ہے۔ سر ٹکرائے گا تو بھی نہ کھلے گا۔ جو معتوب
یا مشتبہ ہوا، وہ خواہ کسی ریاست کا وزیرِ اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو، ہفتوں
انتظار کرے، تب بھی حاضری سے محروم رہے گا۔ اپنا سا منہ لے کر واپس چلا
جائے گا۔‘‘[کربِ آگہی، صفحہ ۲۳۱۔۲۳۰)
سید حامدکے دیگر کاموں سے گریز کرتے ہوئے ان صفحات میں اُن کی نثر کے ان
خاص پہلوؤں پر توجہ کی جاتی ہے جو اُن کے خاص ادبی اوصاف کے طور پر نمایاں
ہوئے۔ بنیادی کوشش اس پہلو سے یہ بھی ہوگی کہ ان کی نثر کے عناصرِ ِ ترکیبی
گرفت میں آجائیں ۔ اس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوششیں کی جائے کہ کیا
انھیں عہدِ سرسید کا خوشہ چیں یا مقلّد یا وارث تسلیم کیا جا سکتا ہے یا
نہیں؟نثر نویسی کے ان بہترین حربوں کا استعمال کیا سید حامد کو کس حد تک
مہارت کے ساتھ آتا ہے جسے انیسویں صدی کے ہمارے عظیم نثر نگاروں نے سرسید
کی رفاقت میں بڑے سلیقے سے آزمایا تھا۔
سر سید ، محمد حسین آزاد، نذیر احمد ، الطاف حسین حالی اور شبلی نعمانی کی
نثر کے سید حامد کیسے رمز شناس ہیں، اس کا اندازہ کرنے کے لئے بہت سارے
مضامین کے بجائے صرف ایک مضمون ’شے لطیف‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مختصر سا
مضمون ہے لیکن شخصیت سازی اور زندگی کی تعمیر و تشکیل کا کون سا پہلو ہے
جسے انسانی زندگی میں شامل کرنا مقصود ہو لیکن وہ اس صفت کے بغیرممکن نہ
ہو؟ یہ اصلاحی ، اخلاقی اور نفسیاتی ہر نقطۂ فکر کو کچھ اس انداز سے ایک
وصف کی شکل میں پہچاننے کی کوشش ہے۔ اس مضمون سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ
اردو کی ا دبی، علمی اور تہذیبی روایت سے سید حامد کا کتنا گہرا رشتہ ہے۔
علی گڑھ تحریک کو اردو کی علمی نثر کا بنیاد گزار مانا جاتا ہے اور یہ سب
سمجھتے ہیں کہ اُسی دور میں ہماری نثر نے اپنے پاؤں پر چلنا اور آزادانہ
طَور پر کھڑا ہونا سیکھا ۔ ’شے لطیف‘ جیسا مضمون عر فانِ ذات و کائنات کے
ساتھ ساتھ آگہیِ دبستان ِ سرسید کے فیضان کا واقعتا گل سر سَبَدْ ہے۔
’شے لطیف‘عنوان اور اس کی معنوی جہات پر غور کریں تو ایسا محسوس ہوگا کہ
ایک پیراگراف یا تین جملے میں گفتگو مکمل ہو جائے گی۔’بحث و تکرار‘، ’زبانِ
گویا‘، ’خوشامد‘ جیسے مضامین کو یاد کیجیے۔ سید حامد ایک چھوٹی سی بات پر
سلسلہ در سلسلہ گویا ہوتے ہیں اور علم و آگہی کے دفتر سیاہ ہوتے جاتے ہیں۔
بات سے بات نکلتی ہے اور تجربات ِ زندگی کا نچوڑ سامنے آجاتا ہے۔ یہ مضمون
حقیقت میں اردو کی علمی نثر کا ایک ایسا مثالی نمونہ ہے جس میں سید حامد نے
عہد ِ سر سید کی مضمون نویسی کا صرف لہو نہیں نچوڑا بلکہ اس کی پوری روح
کشید کرنے میں بھی کامیابی پائی ہے۔ [معذرت کے ساتھ یہ عرض کر دیں کہ صوبہ
بہار میں ۱۲ ویں جماعت کے لئے اردو کی کتاب میں اپنے دوست معروف محقق اور
شاعر ڈاکٹر ظفر کمالی کی صلاح سے آج سے کوئی ۹ برس پہلے ’شے لطیف ‘کو علمی
مضمون کی مثال کے طور پر شامل ِ نصاب کرکے ہم نے اپنے طلبہ کو اردو کی عظیم
علمی روایت سے آگاہ کرانے کا خاص موقع حاصل کیاتھا۔ سید حامدکے مضمون سے یہ
فیضان آج بھی جاری ہے۔ ]
سید حامد نے اپنے مضامین کی بنیادی جہت قوم کی ضرورتوں کے مطابق متعین کی
لیکن گفتگو کا انداز عالمانہ رکھا۔ وہ خانوادۂ سرسید کے ایک انوکھے فرزند
مہدی افادی کے خاندان سے براہ راست متعلق تھے، اس لیے بھی شایدایک مخصوص
شاعرانہ اور رومانی فضا قائم کرنے میں اردو نثر کے متعدد روایتی ذرائع کا
وہ استعمال کرتے ہیں۔ علی گڑھ تحریک میں اردو نثر نے دونوں ذائقے حاصل کیے
تھے۔ سر سید کی قطعیت اور دو جوڑ دو والی نثر اور دوسری طرف سادگی میں
پُرکاری کا طَور۔ پہلے انداز کے نمائندہ حالیؔ ہیں اور اسی رنگ میں سب
لکھنے والے بڑھتے رہے۔ پریم چند اور آج کے ننانوے فیصدی افراد اسی نپی تلی
زبان کا استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے قبل محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی،
مہدی افادی، آزاد انصاری، رشید احمد صدیقی، ابو الکلام آزاد، قرۃالعین
حیدر، مشتاق احمد یوسفی اور زا ہدہ حنا جیسے نثر نگاروں کا اگر کوئی ایک
قبیلہ قائم ہوتا ہے تو سید حامد اسی ذرا سی آرائش، ذرا سی رومانی اور ذرا
سی مرصع رہنے والی نثر کے قافلے میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ سر سید کے عہد
میں محمد حسین آزاد اور شبلی سے اس نثر کے دو سوتے پھوٹے تھے اور کسی نہ
کسی شکل میں نثرِ سادہ کے مقابل یہ سلسلہ آج تک قائم ہے۔ سید حامد کو اسی
حلقے میں رکھنا چاہیے۔
سید حامد نے اردو فارسی کا بہترین شعری ذوق پایا تھا۔ یوں تو انھوں نے
باضابطہ شعر بھی کہے اور ان کا انتخاب بھی شائع کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ
انھیں شاعر کی حیثیت سے قبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ شعری ذوق کا انھوں نے اپنی
نثر میں جتنا بلیغ استعمال کیا، اس سے ان کے مفاہیم اور اسلوبِ بیان دونوں
میں چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ کبھی شعر کے مصرعے، کبھی شاعرانہ تراکیب اور کبھی
ترجمے یا صراحت کے ساتھ اردو فارسی اشعار۔ اس طرح سید حامد اپنی نثر نگاری
میں روشنی اور قمقمے بھرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اگر آرائش ِ بیان کے لیے ہوتا تو
انھیں لکھنوء اسکول کا ایک بھٹکا ہوا مقلّد مان لیا جاتا اور ان کی نثر از
کار رفتہ کے خانے میں ڈال دی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
سید حامد نے شاعرانہ کیفیت کی دو سطحیں تلاش کی ہیں، جن کا سلیقے سے ان کی
نثر میں استعمال ہوا ہے۔ جہاں جہاں صراحت اور وضاحت کا معاملہ ہوتاہے، سید
حامدقریب المعنی فقرے ، تراکیب اور کبھی کبھی مکمّل جملے تکرار کے ساتھ کچھ
یوں پیش کرتے ہیں جس سے وضاحت کے ساتھ ساتھ تاکید اور زور آوری دونوں
کیفیتیں ابھر کر سامنے آجاتی ہیں۔ شعری کیفیت کا ایک با سلیقہ استعمال، ان
تمام مضامین میں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں مسلمانوں کی تاریخ، زوال کے اسباب
و عَلَل پر گفتگو اور نئی امید کے ساتھ قوم میں تازگی بھرنے کا مقصد پنہاں
ہوتا ہے وہاں سید حامد ایک داخلی سطح کی سنجیدہ جذباتیت اور حقائق کی
بنیادوں پر کھڑا ہونے والا انداز پیدا کرنے کے لیے شاعرانہ فضا قائم کرتے
ہیں۔ ایسے مواقع کے لیے ہمارے اسلاف نے یہ رنگ ابھارا تھا۔ سید حامد بہترین
جانشیں ہیں اور اس بات سے واقف ہیں کہ علی گڑھ تحریک کی وراثت کی لسانی ذمے
داری بھی ان کے کاندھوں پر آچلی ہے۔
سید حامد کی ہر تحریر رواں اور شگفتہ معلوم ہوتی ہے۔ سر سید کی زبان کی
سادگی کے باوجود ان کی نثر میں سلسلہ در سلسلہ خیالات کا اظہار معقول روانی
کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ تمام کلاسیکی نقادوں نے شعریت کو اکثر و بیشتر
روانی کے مماثل اورمتراد ف جاناہے۔ نثر کی یہ روانی اولاً طبیعت کی موزونی
اور سلسلہ ء خیال کا قائم ہونا لازمی عناصر کی طرح سے موجود ہوتے ہیں۔ سید
حامد نے برجستگی کا ہنر بھی اسی شاعرانہ فضا سے اخذ کیا تھا۔ دبستانِ سرسید
کا ایک خاص ذہنی سانچہ ہے جس میں کہنے والے کے پاس بہت ساری باتیں ہیں اور
جب خلوص کے قوام سے اسے وہ مستحکم کرتا ہے تو لفظوں کی رگوں میں رواں دواں
کیفیت اپنے آپ پیدا ہو جاتی ہے۔ سید حامد نے اپنے اسلاف کا یہ ہنر بھی بڑے
سلیقے سے برتا۔
سید حامدنے ایک مختصر مدت تک تدریس کا پیشہ اپنایا تھالیکن مزاج میں
مدرّسانہ کیفیت تا عمر قائم رہی ۔ اس لیے وہ اپنی ہر بات کو معقول مثالوں
کے ساتھ سجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اچھے خاصے خطیب بھی تھے اور تحریری
خطابت کا بھی انھوں نے چلن عام کیا تھا۔ ان تمام کاموں کے لیے انھوں نے
اپنی تحریر میں ذراسی تقریر کی لذّت شامل کرکے ایک الگ قسم کی روشنی پیدا
کی۔ یہاں نثر کو بلد آہنگی سے مقدور بھر دور رکھ کر تقریر کے لہجے اور
کیفیات کو نثر میں اُتارنے کی نہایت خوبصورت کوششیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ
ہنر اُن کے ہر مضمون میں موجودہے۔ ہر بار یہ محسوس ہوتا ہے کہ تحریر میں
ضبط اور ٹھہراو تو ہے لیکن مخاطبت وسیع حلقے سے ہے۔ یہ بھی وہ خاص اصول ہے
جو عہد ِ سر سید میں وضع ہوا تھا اور مختلف جانشینانِ سرسید نے اسے سکۂ
رائج الوقت بنایا۔
سید حامد کی نثر کی تان قوم کو نیا حوصلہ بخشنے میں آخری طَور پر ٹوٹتی ہے۔
’تہذیب الاخلاق‘ کو انھوں نے جب’ توسیعی ‘رسالہ قرار دیا اور وضاحت کی کہ
’افق وسیع کرنا‘اس کا مقصد ہے۔ یہاں سیّد حامد نے سر سید اور’ تہذیب
الاخلاق‘ کے پَرے جاکر اس اصول کو اپنے لیے رہنما جانا۔ وہ بات کسی موضوع
یا کسی موقعے کی کر رہے ہوں لیکن آخری نشانہ مسلمانوں کے مسائل اور نئے
ماحول میں اس قوم کی کار کردگی کی طرف ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ توسیعی معنی اخذ
کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی واقعہ یا فیصلہ سامنے آئے لیکن سید حامد کی
نگاہ وہاں سے بہت دور تک جاتی ہے۔ اپنے تجربات اور جہاں دیدنی سے اس موضوع
کا نیا بُعد عطا کر دیتے ہیں۔ Extended Meaningکا آخری ہنر سید حامد ہمارے
زمانے میں آزما رہے تھے۔ اسی لیے ان کی نثر مشکل مسائل پر غور و فکر کے
مرحلے میں اصولی اور عملی دنوں جہات سے تشکیل پاتی ہے۔ ایک ساتھ شکست اور
فتح، خواب اور حقیقت کی جنگیں مخصوص شاعرانہ ماحول میں چلتی رہتی ہیں۔
مقاصد کے ہر پہلو پر نظر رکھ کر گفتگو کا ڈھب اختیار کرنا بھی سید حامد نے
علی گڑھ تحریک کے اسلاف سے لی سیکھا تھا۔
عہدِ سر سید کی نثر کے وہ کس قدر گہرے رمزشناس ہیں، اس بات کا ثبوت حاصل
کرنے کے لیے ہمیں ان کے بعض مضامین کی تمثیلی شان پر غور کرنا چاہیے۔ سید
حامد کا ایک مضمون ہے:’’ہری پتلیوں والا عفریت‘‘۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
سید احمد خاں اور محمد حسین آزاد کی روح سید حامد میں حلول کر گئی ہے۔ اس
مضمون کے تمثیلی حصوں پر غور کرتے ہوئے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ سید حامد
فکشن کی روایت کے گہرے واقف کار ہیں اور مقدور بھر ڈرامے کو بھی گہرائی سے
سمجھتے ہیں، ورنہ ان کے قلم سے ایسے اجزا کیوں کر بر آمد ہوتے:
٭ بخل کے شکنجے سے خدا بچائے۔ اس کی بہن حرص اس کا برابر ساتھ دیتی ہے۔اس
کا دستور ہے کہ جو کچھ نظر آئے، جہاں تک ہاتھ پہنچے، سب کچھ سمیٹ لو اور
کسی دوسرے کو اس کی ہوا بھی نہ لگنے دو۔ کنجوس جو کچھ کماتا ہے یا بٹورتا
ہے، اس کا فائدہ خدا کی مخلوق تک پہنچنا تو درکنار، خود اس تک بھی نہیں
پہنچتا۔ وہ خزانے پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ جاتا ہے۔بخل اور تنگ
نظری میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بخیل آدمی کسی کی تعریف بھی نہیں کر سکتا۔
اگر وہ ممتحن ہے تو اچھے نمبر دیتے وئے اس کی جان پر بن آتی ہے۔ اس کے
سامنے کسی کی تعریف کی جائے تو اس کی جبیں پر شکن آجاتی ہے۔[ہر ی پتلیوں
والا عفریت][ص: ۱۲۷-۲۸]
٭ گھمنڈی انسان اس مرغ کی طرح ہے جو پھڑ پھڑ ا کر سینہ تان کر ، گردن اٹھا
کر ساری دنیا کی طرف چیلنج پھینک کر بانگ دیتا ہے۔ اس سے غافل کہ بلّی اس
کی گھات میں ہے اور اس کی اکڑی ہوئی گردن کے لیے دانت تیز کر رہی
ہے۔[ص:۱۲۸]
٭ ریاکاری مرض بہت عام ہے۔ اس کا روگی گیہوں دکھاتا ہے اور جَو بیچتا ہے۔
اس کے دل میں زہر اور زبان پر امرت ہوتا ہے۔[ص:۱۲۹]
٭ ہمارے دَور نے ریا کاری کو قبولِ عام کی خلعت دے دی ہے۔[ص:۱۳۰]
٭ ریاکاری فریب کی ہی ایک شکل ہے۔ فریب کا بھانڈا چوراہے پر پھوٹتا ہے یا
زنداں میں۔ ’ریاکاری، مکرو فریب سب دروغ گھرانے کے افراد ہیں، جھوٹ کی
سرزمین میں یہ پیدا ہوتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ سچ کی ’سموم‘کے ایک جھونکے
سے مرجھا جاتے ہیں۔ [ص:۱۳۰]
٭ غصہ اچانگ آتا ہے سیلاب کی طرح اور ہوش و حواس کو بہا لے جاتا ہے۔ گھمنڈ
میں انسان اپنی خوبیوں سے متاثر ہو کر غبارے کی طرح پھولنے لگتا ہے۔[ص:۱۳۰]
یہ تمثیلیں صرف ادبی مہارت پیش کرنے کے لیے نہیں قائم کی گئی ہیں۔ انھیں
پڑھتے ہوئے ہم عہد قدیم میں نہیں پہنچ جاتے۔ سید حامد کی تعبیرات نفسیاتی
اور سماجی ہیں جن سے تمثیلی ہنر اواخر بیسویں صدی اور اوائل اکیسویں صدی کا
نفس ِ مضمون اختیار کر لیتی ہیں۔ ہمارے عہد میں ایسا کوئی دوسرا دکھائی
نہیں دیتا جو نثر کے اس آزمائے ہوئے کام کو ایسے سلیقے سے کر پایا ہو۔ سید
حامدکے کئی مضامین اور ہیں جن میں ان کی تمثیلی قوت مزید اجا گر ہوتی ہے۔
’اناولا غیری‘بھی اس انداز کی ایک عجیب تحریر ہے۔’ سامری پھر کوئی سرگرمِ
فسوں ہے شاید‘ کا بھی انداز تمثیلی ہے۔ سید حامدنے اپنی تمثیلی تحریروں کو
نفسیات ِ انسانی کی سمجھ بوجھ سے مستحکم کیا ہے لیکن تمثیلی مضامین میں بھی
کہیں علمی رخ کو کم ہونے دینے کا خطرہ نہیں اٹھایا۔ ان میں نفسیات کے
مطالعے سے ایک آفاقیت اور عمومیت پیدا کرنے میں کامیابی ملی ہے۔
سید حامدنے سیاسی اور سماجی نیز تعلیمی موضوعات پر سینکڑوں تعداد میں
مضامین لکھے۔ بابری مسجد کے تنازعے کے دوران انھوں نے اپنے قلم سے سماجی
جنگ لڑنے کی بھی کوشش کی۔ ان کی کتاب ’ آزمائش کی گھڑی‘ میں ایسے مضامین
بڑی تعد اد میں شامل ہیں۔ مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی نے ان کے مضامین کی دو
جلد یں شائع کیں۔ ان سب میں سید حامد کا دانشورانہ طور اور وقار ابھر کر
سامنے آتا ہے۔ عوامی اپیل پیدا کرنے کے لیے سید حامد نے اپنی زبان میں ہندی
کے چلتے پھرتے اور کبھی کبھی مشکل الفاظ کے استعمال کی ایک خُو اختیار کی
تھی۔ وہ رفتہ رفتہ بڑھتی گئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے سب سے اچھے مضامین’
کربِ آگہی ‘ میں شامل ہیں اور وہاں بھی جہاں عمومی سیاسی موضوعات سے ذرا
دوری اختیار کی گئی ہے۔ یہ سچائی ہے کہ سید حامدکی نثر نگاری کا وہی دور سب
سے بہتر ہے جو انھوں نے 1980سے 1985کے دوران لکھے ، جب وہ علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی کے وائس چانسلر یعنی ’جانشین ِ سرسید ‘ کے معزز فرائض انجام دے
رہے تھے۔ انھوں نے خود لکھا ہے :’یہ مضامین اس وقت لکھے گئے ہیں جب فرائض
منصبی کی یورش میں کسی دوسرے کام کے لیے ایک لمحہ بھی نکالنا دشوار تھا،
عہد سرسید کے عظیم نثر نگاروں نے بھی حالات کے جبر، دوڑ بھاگ اور مصروفیات
کی انتہائی کیفیت میں اپنے نوشتہ جات مکمل کیے تھے۔ سید حامد نے بھی اپنے
سب سے بہتر نثری صحیفے اسی عالم میں قلم بند کیے اور’کربِ آگہی‘ کے مضامین
نے انھیں مستند نثر نگاروں کی فہرست میں شامل ہونے کا موقع عنایت کیا۔ ایک
وقت آئے گا جب سید حامد کی ماہر تعلیم یا تعلیمی انتظام کارکی حیثیت سے الگ
انھیں خالص نثر نگار اور انشا پرداز کے طور پر پہچانا جائے گا۔ اس وقت
انھیں سب دبستان ِ سرسید کی نثر نگاری کا نیا نقش قائم کرنے والا تسلیم
کریں گے۔ |
|