غریب عوام کا آخری سہارا سپریم کورٹ
(Mir Afsar Aman, Karachi)
پاناما لیکس نے ساری دنیا میں ہلچل مچا دی
ہے۔ ٹیکس اور کرپشن بچانے کے لئے آف شور کمپنیاں بنانا عام لوگوں کے علم
میں نہیں تھا۔اب تو ہر عام وخاص کو پتہ چل گیا ہے کہ عوام سے لوٹا ہوا مال
کیسے چھپایا جاتا ہے۔ پاکستان میں کرپشن کے پیسے چھپانے کے کئی طریقے سامنے
آئے ہیں ۔بلوچستان کے ایک بیروکریٹ نے عوام کا لوٹا ہوا پیسا گھرمیں اپنے
سوٹ کیسوں،الماریوں اور بیگوں چھپا رکھا تھا۔ تاکہ آسانی سے بیرون ملک
منتقل کیا جا سکے یہ تو اﷲ بھلا کرے نیب کے لوگوں کے عین وقت پر عوام کا
لوٹا ہوا پیسا برآمند کر لیا گیا۔اس ہی بیروگریٹ کی نشانی دہی پر نیپ نے
ایکسیئن آغا حضور شاہ کے گھر پر چھاپا مارا گیا۔ ان صاحب نے اپنے گھر میں
پانی کے ٹنکی میں دو ارب روپے کی کرنسی چھپا رکھی تھی جس کو نیپ نے برآمند
کر لی۔ ایک اور صاحب نے فرنٹ مین اسد شاہ ٹھکیدار کے گھر سے دو کروڑ روپے
برآمند کر لیے گئے۔ ایک اور طریقہ کا بھی کچھ عرصہ قبل کراچی رینجرزنے عوام
کے سامنے رکھا تھا وہ یہ پوری لانج میں پیسا بیرون منتقل کرتے ہوئے پکڑ لیا
تھا۔ یہ تو کرپشن کے کیسیسز عوام کے سامنے آئے ہیں نہ جانے عوام کے اور
کتنے پیسے لوٹے گئے ہیں۔ عوام کے لوٹے ہوئے پیسے کی اتنی ناقدری کی گئی ہے
کہ اس سے بھی کچھ عرصہ قبل سندھ کے ایک سیاست دان کے گھر کے تہ خانے میں
چھپائے گئے ڈالرز کو آگ لگ گئی تھی۔جس کامیڈیا میں ذکر آیا تھا۔ یہ تو چوری
کے دیسی طریقے ہیں جو پکڑے گئے۔ ماڈرن طریقے سے عوام سے لوٹا ہوا پیسا
نکالنا جان جوکھوں کا کام ہے۔اب ذرا دیکھیں نا کہ پاناما لیکس میں جن کی
اولاد کے نام آئے ہیں۔ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ اس کو سیدھے طریقے سے
تحقیق کی جاتی اور عوام کے سامنے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔
لیکن ہمارے سیاستدانوں نے اس اتنا لمبا کر دیا کہ معاملہ حل ہوتے ہوئے نظر
نہیں آتا۔ جب پہلی پاناما لیکس میں ہمارے وزیراعظم صاحب کے بیٹوں کا نام
آیا تو انہوں نے اپنے بیٹوں کی صفائی کے لیے دو دفعہ پاکستان ٹی وی پر
تقریر کر کے صفائی پیش کی۔ جس میں انہوں اپنی ساتھ بیتی گئی ظلم کی کہانی
بیان کی اور کہا کہ میں اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں۔ حکومت نے
احتساب کے لیے ٹی او آر بنائے اور کہا کہ ۱۹۵۶ ء کے قانون کے تحت ریتائرڈ
جج کی سرپرستی یوڈیشنل کمیشن بنے گا۔ بقول متحدہ اپوزیشن کے کہ حکومت نے تو
ایسے ٹی اور آر بنائے کہ اس طرح تواحتساب کے عمل میں سالوں لگ جائیں گے اور
پھر بھی احتساب نہ ہو سکے گا۔ اپوزیشن حکومت کے ٹی او آرمسترد کر کے اپنے
ٹی او آر بنائے اور کہا کہ ان کے ٹی اور آرکے قانون کے تحت سپریم کورٹ کے
حاضر جج کے تحت یوڈینشنل انکواری ہونی چاہیے۔ حکومت نے بھی متحدہ اپوزیش کے
ٹی اور آر مسترد کر دیے اور کہا یہ توصرف وزیر اعظم کے خلاف ہیں۔اس طرح
معاملہ طول پکڑتا گیا۔ حکومت نے چیف جسٹس صاحب کو یوڈینشل کمیشن بنانے کے
لیے جو خط لکھا تھا اس کے جواب میں جو فیصلہ چیف جسٹس صاحب نے سنایا تو
اپوزیشن کی منطق کی گواہی چیف جسٹس صاحب کے فیصلے سے بھی ثابت ہو گئی۔ اس
کے بعدمتحدہ اپوزیشن نے ۷؍ سوال ترتیب دیے اور کہا کہ وزیراعظم صاحب
پارلیمنٹ میں تشریف لائیں اور ہمارے سات سوالوں کا جواب دیں تو معاملہ صحیح
سمت چل پڑے گا۔ وزیر اعظم صاحب پارلیمنٹ میں تشریف لائے اور پھر پالیسی
تقریر میں وہی پرانی ظلم کی کہا نی سنائی اور کہا کہ پیسا ملک سے باہر نہیں
گیا ۔ ذرائع یہ معلوم کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جو مل دبئی میں بنائی گئی
تھی کیا یہ پیسا پاکستان سے باہر نہیں گیا تو کہاں سے آیا تھا۔ اسپیکر صاحب
سے ایک کمیٹی بنانے کے لیے کہا کہ متحدہ اپوزیشن سے مل کر ٹی او آر بنائے۔
متحدہ اپوزیشن کی طرف سے خورشید شاہ صاحب نے چند منٹ کی تقریر کی اور کہا
کہ وزیر اعظم صاحب نے ہمار ۷ ؍ سوالوں کا جواب نہ دے کر اب ۷۰؍ سوال پیدا
کر دیے ہیں۔ اس کے بعد متحدہ اپوزیشن نے پارلمنٹ کا بائیکاٹ کر دیا۔ اور
کہا کہ اب ہم عوام کے پاس جائیں۔جب دوسری بار پاناما نے لسٹ جاری کی تو اس
میں مریم صفدر صاحبہ کے نام بھی ایک آف شورکمپنی نکلی جس پر متحدہ اپوزیشن
نے شور مچایا۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کے نام بھی ایک آف شور کمپنی نکلی۔
جس پر حکومت کے وزیروں نے پریس کانفرنس کر کے کہا کہ عمران خان آف شور
کمپنی کے باوہ آدم نکلے۔ عمران خان نے اپنی صفائی میں لندن کے فلیٹ کے
کاغذات پارلیمنٹ کے اجلاس سے پہلے پریس کانفرنس کر کے دکھائے۔ عمران خان نے
کہا تھا کہ میں برطانیہ کا شہری نہیں تھا اور میں نے برطانوی حکومت کو ٹیکس
نہیں دینا تھا۔ میرے اکاؤٹنٹ نے کہا کہ آف شور کمپنی بنا نی پڑے گی۔ میں نے
لندن کا فلیت بھیچ کر بنی گالہ والا مکان بنایا اس طرح میں نے باہر سے پیسا
پاکستان لایا۔ یہ بات اگر صحیح مان لی جائے تو بھی آف شور کمپنی ۲۰۱۵ء
جنوری تک کیوں فعال رہی اسے تو بند ہو ناجانا چاہیے تھا۔حکومتی ذرائع یہ
کہتے ہیں کہ وزیراعظم کے بیان کے بعد اپوزیشن لیڈر کو پارلیمنٹ میں ان پر
تنقید کرنی چاہیے تھی۔اس کے بعد عمران خان کو بھی تقریر کرنے کی اجازت تھی
کہ وہ بھی اپنا نکتہ نظر پارلیمنٹ میں بیان کرتے۔ جو دونوں نے نہیں کیا۔ اس
بات میں حکومت کے بیان میں وزن ہے۔ جب متحدہ اپوزیشن بار بار وزیر اعظم سے
کہتی تھی کہ وزیر اعظم صاحب پارلیمنٹ میں آکر بات کریں ۔تو اب حکومت بھی
یہی کہتی ہے کہ پارلیمنٹ میں معاملات میں بحث کرنی چاہیے تھی متحدہ اپوزیشن
نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیوں کیا۔متحدہ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ انہوں نے
فیصلہ کیا تھا کہ اگر وزیر اعظم صاحب نے ہمارے ۷؍ سوالوں کا مناسب جواب نہ
دیا تو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کریں گے۔ اور ہم وزیر اعظم کی تقریر کا جائزا
لیں گے اور آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے۔اس وقت ایم کیو ایم متحدہ اپوزیشن
سے یہ کہہ کر علیحدہ ہو گئی ہے کہ عمران خان کی بھی آف شور کمپنی ہے اور ہم
ایسی حالت میں متحدہ اپوزیشن کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اب اپوزیشن پارلیمنٹ کے
اجلاس میں شریک ہو گی اور ۷۰؍ سوال کرے گی اور بحث نئے سرے سے شروع ہو گی۔
لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نے مل کر پاکستان کی عوام کو ٹرک کی بتی کے
پیچھے لگا دیا ہے۔ان حالات میں پاناما لیکس کا قصہ ایک طرف رہ جائے گا اور
عوام کا لوٹا ہو ا پیسا واپس عوام کے خزانے میں جمع نہیں ہو گا۔ اب غریب
عوام کا آخری سہارا سپریم کورٹ ہے جو از خود نوٹس لے اور اس قومی مسئلے کو
حل کرے۔ |
|