ایک بار طوفان تو ضرور اُٹھے گا، مگر……!
(Irfan Mustafa Sehrai, Lahore)
جب سے پاناما لیکس کا شور برپا ہوا ہے،ہر
جانب سے کرپشن کی حقیقت سامنے آگئی ،بڑے بڑے ستونوں کے گرنے کی آوازیں
گونجیں،عوام نے ان کے احتساب کا نعرہ بلند کیا ،انہوں نے بھی اپنے آپ کو
احتساب کے لئے پیش کر دیا،کرپشن کے خلاف نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں ،
یقیناً اس سے دوسری دنیا کو ضرور فائدہ ہو گا،ان ممالک میں ترقی ہو گی،عوام
خوشحال ہوں گے ،ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی، اپنی غلطیوں کے تدارک کا موقع
ملے گا۔پاناما لیکس کی گونج نے پاکستان کے اشرافیہ کو بھی جھنجھوڑا ہے،وزیر
اعظم کوسب سے زیادہ اس کا جھٹکا لگا،پھر چار سو کے قریب لوگوں کے نام سامنے
آئے ،جنہوں نے بے شمار دولت باہر کے ممالک میں آف شورکمپنیوں میں رکھی
تھی۔یوں تو بہت سے نام سامنے آئے ،ہر جانب سے انگلی صرف وزیر اعظم کی طرف
ہی اٹھی،انہیں بھی چاہئے تھا کہ اگر ٹارگٹ مجھے کیا جا رہا ہے تو میں جلد
از جلد ان کے جوابات دے کر ملک میں کرپشن کے ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے
لئے اقدامات کروں،لیکن ایسا نہیں کیا گیا، کیونکہ میاں صاحب اچھا کام ہمیشہ
دیر سے کرنے کے عادی ہیں۔سیاست میں اس قدر تجربہ ہونے کے باوجود اگر پھر
بھی انہیں بر وقت فیصلہ کرنے میں دشواری ہو تی ہے تو یہ ان کی بہت بڑی
کمزوری ہے۔خدا خدا کر کے ایوان میں آئے ،تقریر میں بھی پارلیمنٹ کو مطمئن
کرنے کے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی،اپوزیشن اپنے انتشار کی وجہ سے اپنی چال
چل گئی ،مگر فائدہ وزیراعظم کو دے گئی،عمران خان منہ دیکھتے رہ گئے، دو دن
بعد عمران خان اپنی تقریر میں شاہ ولی اﷲؒ،علامہ محمد اقبالؒ ،ریاست مدینہ
اور خلفا ئے راشدین کے کاذکر کر کے اپنے ساتھی سیاست دانوں اور حکمرانوں کو
سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے،انہیں یہ بھی خبر ہے کہ اس ملک کے غریب عوام کا
60ہزار روپیہ فی منٹ پارلیمنٹ پر خرچ کر رہے ہیں،لیکن اس قیمتی وقت میں
تمام عوامی نمائندوں کے کردار کو زیر بحث نہیں لایا گیا، سڑکوں پر آنے کی
دھمکیوں کے سوا کوئی دوسرا لائحہ عمل پیش نہیں کیا گیا، عمران خان نے موقف
اختیار کیا،کہ مَیں برطانیہ کا شہری نہیں تھا،اس لئے ٹیکس چوری کرنے کے لئے
آف شور کمپنی بنائی ۔
اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے تو کیا انصاف ،سچائی اورایمانداری کا دم
بھرنے والے ایک بڑے لیڈر کو زیب دیتا ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے قوانین کا
احترام نہ کرے،پھر بھی اپنے آپ کو ایماندار کہے……؟دوسروں پر تنقید کرے؟مگر
اپنے ارد گرد والوں کی کرپشن کو جان بوجھ کر نظر انداز کرے،یہ کیسا انصاف
ہے؟
حکمرانوں کے حالات بھی درست نہیں ،انہیں بھی اپنے ارد گرد کرپشن نظر نہیں
آئی، کون سا ایسا کام ہے، جو موجودہ حکومت کے دور میں نہیں ہو رہا ،جبکہ
حکمران اپوزیشن کو پاناما لیکس جیسے ایشوز، جو کہ حقیقت میں وقت کا زیاں
ہیں،میں الجھا کر اپنے مفادات سے توجہ ہٹانے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔صرف
میگا پراجیکٹس کی طر ف توجہ دی جا رہی ہے، کیونکہ انہی میں ان کا مفاد
زیادہ ہے ،سڑکیں اور پل ہیان کے خیال میں ترقی کا اصل معیار ہیں ، جبکہ
تعلیم ،صحت ،بے روزگاری ،مہنگائی،امن و امان کی خراب صورت حال اور عوام کی
سہولیات کے لئے کسی پراجیکٹ پر کام کرنا ضروری نہیں۔مسلم لیگ (ن) کو حکومت
کرنے کے کئی مواقع ملے ، لیکن اس نے ہمیشہ اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک و
قوم ،حتیٰ کہ خود کو بھی مشکلات میں ڈالا ہے۔
اب وقت ہے، انہیں صاف بات کرنی چاہئے،یہ کیسے ممکن ہے کہ دوسرے ممالک میں
انہوں نے اتنے بڑے بزنس پراجیکٹ لگائے اور اپنی کوئی رقم اس میں انوسٹ نہیں
کی،یہ جن حالات میں ملک سے باہر تھے ،وہ ان کی جلاوطنی کا دور تھا ، یہ دور
انتہائی مشکل ترین دور ہوتا ہے، اس میں اپنی جمع پونجی لگا کر دوسرے سورسز
سے مدد لی جا سکتی ہے، اس لئے پاکستان سے اپنا پیسہ لے جانے کا خدشہ تو ہر
ایک کو نظر آتا ہے، اور بہت کاروباری حضرات ایسا کرتے ہیں، ملک میں خطرات
ہیں ،اس لئے اپنے بچوں کو پاکستان میں نہیں رکھنا چاہتے ، جیسے بہت سےٍ
لوگوں نے اپنے بچوں کے لئے یہ سمجھا ہے کہ یہ ملک ان کے رہنے کے قابل نہیں
ہے ،اس لئے انہیں بہترین ’’لائف سٹائل‘‘ دینے کے لئے بڑا کاروبار بنا کر دے
دیا ہے۔دوسروں سے پوچھنا چاہئے، لیکن نہیں پوچھا جاتا، کیونکہ ان سے پوچھنا
ریاست کا کام ہے ،آپ وزیر اعظم پاکستان ہیں ،اس لئے عوام آپ سے ضرور پوچھیں
گے اور آپ اس کے لئے جوابدہ بھی ہیں ،آپ نے پارلیمنٹ میں آ کر اپنے طور
پرتو عوام کے تمام تر خدشات دور کر دیئے ہیں ،لیکن عملاً ایسا ہوا نہیں
ہے۔اس لئے اگر آپ کی ترجیح میں واقعی کرپشن کو ختم کر کے آگے بڑھنا ہے تو
پھر اس کے لئے جامع لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ابھی بھی وقت ہے ، ہم درست
سمت میں جا سکتے ہیں،یوں تو ہر پارٹی کرپشن کرنے والوں سے بھری پڑی ہے،
کوئی نہیں چاہے گا کہ اس کا کچا چٹھا عوام کے سامنے آئے اور وہ لوگوں کو
منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہے،لیکن آپ کو بہترین حکمت عملی اپنا کر قانون
سازی کرنا ہوگی ، کیونکہ ترقی تب ہی ہو گئی جب کرپشن ختم ہو گی اور اگر یہ
نیک کام آپ کے ہاتھوں سے ہوگیا تو تاریخ آپ کو ہمیشہ یاد رکھے گی ، ویسے
اتنی دولت کیا کرنی ہے ،انسان کے لئے اپنی ،بچوں اور عوام کی صحت پر توجہ
دینے سے بڑھ کر دولت کوئی نہیں ،اس لئے تعلیم اور صحت پر توجہ دیں ، کرپشن
کوکو ختم کرنے کے لئے احتساب کا ایک خودمختار ادارہ بنایا جائے ،جو کسی کو
بھی نہ چھوڑے ،ایک بار طوفان تو ضرور اٹھے گا، اس میں کئی کشتیاں بہیں گی؟
مگر ہمارا ملک ایک خوبصورت دور میں داخل ہو جائے گا ،مگر اس پر خدارا سیاست
نہ کی جائے ۔ |
|