یوں لگتاہے کہ پاکستان میں تمام مسائل
ہوگئے ہیں،غریبی کانام ونشان باقی نہیں رہا،اب کوئی بھی مہنگائی کے ہاتھوں
خودکشی کی واردات سننے یاپڑھنے کونہیں رہی، کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہیں
اوراب بلاتخصیص علاج معالجہ کی سہولتیں بھی سب کو دستیاب ہیں لیکن صرف ایک
پانامالیکس کا مسئلہ باقی ہے ،جس کوحل کرنے کے بعداس ملک میں دودھ اورشہدکی
نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی جس کیلئے تمام سیاسی جماعتیں شب وروزاپنی
تونائیاں صرف کرکے عوام کے سامنے سرخرو ہونے کیلئے بے تاب ہیں۔جب سے
پانامالیکس کاغلغلہ بلندہوا ہے ،ہماری سیاسی جماعتوں کواپنی سیاسی دوکان
چمکانے کیلئے میڈیاکابھی مکمل تعاون حاصل ہے کہ میڈیاکوبھی اپنے چینل کو
چلانے کیلئے ایک معقول بہانہ ہاتھ لگ گیاہے۔ وزیر اعظم نے بھی فوری
طورپرقوم سے تین بارخطاب کرکے اپنی بے گناہی کا اظہار کرتے ہوئے پہلے ایک
ریٹائرڈجج کے سربراہی میں کمیشن قائم کیالیکن حزب اختلاف کے دباؤ پربعدازاں
باقاعدہ ایک خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو کمیشن مقررکرنے کی استدعاکی لیکن
اس پربھی اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی طرف سے ٹرمزآف ریفرنس پراعتراض کرتے
ہوئے بالآخر اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ نے اپنے ٹرمزآف ریفرنس کے ساتھ
وزیراعظم کوخط تحریرکردیا جس پرحکومتی وزاراء نے اپوزیشن کے اس خط
کو''ٹرمزآف ریورنج'' قرار دیتے ہوئے مستردکردیالیکن دوسری طرف سپریم کورٹ
کے چیف جسٹس نے بھی بعض وجوہات کی بناءپرحکومت سے معذرت کرلی لیکن حیرت یہ
ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس کواپنی فتح قراردے رہے ہیں۔
بالآخرپارلیمنٹ میں میدان سج گیا،ساری قوم نے یہ تماشہ دیکھا کہ سیاسی
رہنماء کس طرح ایک دوسرے کے کپڑے تارتارکررہے ہیں لیکن کیااس ڈرامے کے
بعدپاکستانی قوم کے حالات سنورنے کی کوئی امیدنظرآئی ہے؟
یہ ایک عام شکایت ہے کہ سیاستدانوں کا طرز زندگی ان کے منتخب کرنے والے
عوام سے بہت زیادہ مختلف ہوتاہے لیکن کل کی بات ہے کہ دنیاکے ایک چھوٹے سے
ملک یوراگوائے کے سابقہ صدرنےایک ایسی مثال قائم کردی ہے کہ اگر ہمارے
حکمران اس سے کوئی سبق حاصل کرتے توآج ان کانام بھی بڑے فخرکے ساتھ دنیامیں
لیاجاتااورپانامالیکس کرپشن کے سمندرکی غلاظت سے محفوظ رہتے۔
یوراگوائے میں ایسانہیں ہے یہاں کے سابق صدر سے ملئے یہ یوراگوائے کے سابق
صدرہوزے موہیکاکی رہائش گاہ ہے جن کاطرززندگی دنیاکے دوسرے زیادہ تررہنماؤں
سے یکسرمختلف ہے۔ جوآج بھی ایک چھوٹے اورٹوٹے پھوٹے گھر میں رہتے ہیں ۔اپنے
دورِصدارت میں اپنی تنخواہ کازیادہ ترحصہ خیرات کر دیتے تھے۔ان کے کپڑے
دھونے کی جگہ ان کے گھرکے باہرہے۔ پانی وہ گھر کے قریب موجودکنویں سے حاصل
کرتے ہیں جہاں جنگلی پھول اگے ہوئے ہیں۔ دوران صدارت صرف دو پولیس
اہلکاراورتین کتے ان کے گھر کے باہر رکھوالی کیلئےتعینات تھے جبکہ آج انہوں
نے یہ سہولت بھی حکومت کو واپس کردی ہے کہ اب ان کایہ استحقاق نہیں
اورانہیں اس کی ضرورت بھی نہیں۔ صدرموہیکا نے دورانِ اقتداریوراگوائےحکومت
کی جانب سے مراعات سے بھرپوررہائش گاہ کو ردکردیااوردارالحکومت کی ایک سڑک
کے کنارے اپنی بیوی کےگھرمیں رہنا پسندکیا۔ وہ ان کی اہلیہ دوران ِ
اقتداراورآج بھی خودکھیتوں میں کام کر کے پھول اگاتے ہیں۔
صدرموہیکاکایہ طرزِزندگی اوران کی تنخواہ کانوّے فیصدحصہ جوبارہ ہزار
امریکی ڈالر کے برابرتھا،غریبوں میں بانٹ دیتے تھے اوراسی عمل نے انہیں
دنیاکے سب سے غریب صدرکااعزازبخشا۔اپنے باغیچے میں پڑی پرانی کرسی پربیٹھے
وہ کہتے ہیں،میں نے اپنی زیادہ ترزندگی ایسے ہی گزاری ہے۔ جوکچھ میرے پاس
ہے میں اسی کے ساتھ اچھی طرح رہ سکتا ہوں۔ان کی تنخواہ کا بڑا حصہ غریبوں
اورچھوٹے تاجروں کی مدد کے لیے مختص ہونے کے بعدان کی بقیہ تنخواہ ایک
یوراگوائے کے ایک عام باشندے کے برابررہ جاتی تھی جو۷۷۵ ڈالرماہانہ تھی ۔
یوراگوائے کے قانون کے مطابق جب انہوں نے۲۰۱۰ء میں اپنی سالانہ آمدنی ظاہر
کی تووہ ۱۸۰۰سو ڈالرتھی۔ یہ رقم ان کی۱۹۸۷ء میں خریدی گئی گاڑی کی قیمت کے
برابرتھی۔اقتدارسنبھالنے سے قبل انہوں نے اپنی اہلیہ کے اثاثے بھی ظاہرکیے
جن میں زمین،ٹریکٹرز اورایک گھرشامل تھا اوران سب کی قیمت دولاکھ پندرہ
ہزار ڈالر کے قریب تھی ۔ یہ رقم بھی ملک کے نائب صدر کی ظاہر کی گئی دولت
کا دسواں حصہ بنتی تھی۔
صدر موہیکا۲۰۰۹ء میں یوراگوائے کے صدرمنتخب ہوئے۔ وہ ساٹھ اورستر کی دہائی
میں یوراگوائے کی بائیں بازوں کے مسلح گروپ گوریلا ٹوپامسروس کا حصہ رہے۔
انہیں چھ مرتبہ گولی لگی اوروہ چودہ سال جیل میں رہے۔ ان کی سزا کازیادہ
تروقت سخت حالات اورتنہائی میں گزرا۔۱۹۸۵ء میں جمہوریت کی بحالی کے
بعدانہیں رہائی ملی۔سابق صدرموہیکا کے مطابق قیدکے انہی برسوں نے ان کی
زندگی کی حالیہ شکل کوترتیب دیاہے۔وہ کہتے ہیں کہ مجھے غریب ترین
صدرکہاجاتاہے لیکن مجھے توغربت کاقطعی احساس نہیں ہوتا۔غریب تووہ ہوتے ہیں
جومہنگاطرززندگی اپنانے کیلئےکام کرتے ہیں اورہمیشہ مزیدسے مزید کی خواہش
کرتے ہیں۔ان کامزیدکہنا ہے کہ یہ آزادی کامعاملہ ہے۔ اگرآپ کے پاس بہت
زیادہ املاک نہیں ہیں تو آپ کو اپنی تمام عمر انہیں قائم رکھنے کیلئےکام
نہیں کرناپڑتا اوراس طرح آپ کے پاس اپنے لیے زیادہ وقت ہوتاہے۔وہ کہتے ہیں
ہوسکتا ہے کہ میں ایک عجیب بوڑھا شحض لگتا ہوں لیکن یہ میرا آزادانہ انتخاب
ہے۔یوراگوائے کے رہنما نے ایسی ہی باتیں ری او پلس ٹوئنٹی ممالک کے اجلاس
میں کہی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا ہم ساری سہ پہر قابلِ تائید ترقی کی باتیں
کرتے رہے ہیں، عوام کو غربت سے نکالنے کی باتیں لیکن ہم کیا سوچ رہے ہیں؟
کیا ہم امیر ممالک کی ترقی اورکھپت کواپنانا چاہتے ہیں؟
میں آپ سے پوچھتاہوں اگرتمام بھارتی باشندوں کے پاس بھی اتنی ہی گاڑیاں ہوں
جتنی جرمن باشندوں کے پاس ہیں تواس سیارے کاکیاہوگا؟ہمارے پاس کتنی آکسیجن
رہ جائے گی؟کیا اس سیارے پر اتنے وسائل ہیں کہ سات یا آٹھ ارب لوگوں
کویکساں کھپت اوراخراج ملےجیسا کہ اس وقت امیر معاشروں میں دیکھا
جاسکتاہے؟یہ کھپت کی زیادتی ہی ہے جواس سیارے کونقصان پہنچارہی ہے۔
یوراگوائے کے محقق لگنیسوزوینسبرکاکہنا ہے کہ کئی لوگ صدرموہیکا سے ان کے
اندازِ رہائش کے باعث ہمدردی کرتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے ان کی حکومت کی
کارکردگی پرتنقیدبند نہیں ہوئی۔۲۰۰۹ء میں انتخاب کے بعد صدر موہیکاکی شہرت
میں پچاس فیصد کمی واقع ہوئی اوریوراگوائے کے صدردو متنازعہ اقدامات کے
باعث تنقید کا نشانہ بھی بنے۔ یوراگوئے کی کانگرس نے ان کے دورِ اقتدارمیں
ایک قانون بھی منظور کیا جس کے مطابق بارہ ہفتے کے حمل کو گرائے جانے
کوقانونی قراردیا گیالیکن صدرموہیکا نے اس کیلئے ووٹ نہیں کیاتھا۔کیاہم
اپنے ملک میں اس کاتصوربھی کرسکتے ہیں؟
انہوں نے قنب کی کھپت سے متعلق ایک قانونی بحث کی بھی حمایت کی جس کے مطابق
قنب کی تجارت میں حکومت کو اجارہ داری حاصل ہوگی۔ ان کاکہنا تھاقنب کی کھپت
زیادہ پریشان کن بات نہیں، اصل مسئلہ منشیات کی تجارت ہے۔تاہم اپنی مقبولیت
کی کمی کے باعث انہیں زیادہ پریشانی اس لیے نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے۲۰۱۴ء
کے انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے سے انکارکردیاتھا۔ وہ ۷۷سال کی عمر میں
سیاست سے ریٹائرہوگئے۔اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ریاست کی جانب سے جوپنشن
مل رہی ہے،اپنے محدودخرچ کے بعدانہیں کسی مشکل کا سامنانہیں اوروہ اب بھی
اپنے کچھ غریب دوستوں کی خاموشی سے مددکررہے ہیں۔
سوال یہ پیداہوتاہے اپوزیشن سب کااحتساب ایک ساتھ شروع کرنے کے اعلان سے
کیوں خوفزدہ ہے؟پانامالیکس کی تحقیقات کیلئے جوڈیشنل کمیشن کاقیام اپوزیشن
کاہی متفقہ مطالبہ تھا،بالکل اسی طرح سب سے پہلے نوازشریف اوران کے اہل
خانہ کا احتساب بھی اپوزیشن کا متفقہ مطالبہ ہے جس کے بعد دوسروں کے خلاف
تحقیقات کی جانی چاہئے۔اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں حزبِ مخالف کی جماعتوں
کےدومئی کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم کے مستعفی ہونے پر تواتفاق نہ
ہوسکالیکن اگلے دن ایک متفقہ ٹرمزآف ریفرنس میں تین ماہ میں وزیر اعظم
اوران کے تمام خاندان کے احتساب اوراپوزیشن کے افرادکیلئے ایک سال کاوقت
کامطالبہ کیاگیاجوکہ یقیناً عوام کوبھی ایک دھچکالگاکہ آخرملکی دولت کو
لوٹنے والوں کیلئے دوہرا معیار کیوں؟
کوئی اعتزازجیسے قانون دان سے یہ توپوچھے کہ اپنی پارٹی کے سربراہ آصف علی
زرداری کے پاس اٹھارہ بلین کے اثاثے کیسے آئے؟سرے پیلس سے مکمل لاتعلقی
اوربعدازاں برطانیہ کی عدالت میں اس کی فروخت کے موقع پراس کی ملکیت
کادعویٰ،نیب کے مفرورواجدشمس الحسن کوبرطانیہ میں سفیرمقررکیا جس نے حق نمک
ادا کرتے ہوئے سوئٹزرلینڈسے زرداری کی کرپشن کاتمام ریکارڈحکومت کے نمائندے
کے طورپرموصول کرکے غائب کردیا۔پانامالیکس کے بارے میں سب سے زیادہ احتجاج
کرنے والے عمران خان اب خودبرطانیہ میں ایک آف شورکمپنی کی ملکیت کااعتراف
اورزمان پارک میں اپنے آبائی وسیع و عریض گھررکھنے کے باوجود۲/اپریل۱۹۸۷ء
کو اسی نوازشریف سے اپنے ذاتی گھرکیلئے درخواست گزارہوکرپلاٹ حاصل کیا،اپنی
ہی پارٹی کے افرادکی آف شورکمپنیوں پرشور مچانے کی بجائے ستائش کی۔کل
کاناقدعمران خان آج ان سے تعاون کی کیوں بھیک مانگ رہاہے؟
یادرکھیں کہ دنیاکے بڑے لوگ اورلیڈر اس لئے عظیم کہلائے کہ انہوں نے مواقع
پانے کے باوجود دولت بنانے سے گریزکیااورذاتی مفادات کی بجائے عوامی مفادات
کوترجیح دی اورغربت کی زندگی گزار کراپنی قوم کے مستقبل کوروشن
کردیا۔آخرہمارے موجودہ حکمران اوراپوزیشن یوراگوئے کے سابق صدر سے سبق حاصل
کیوں نہیں کرتے کہ انہیں لیڈربنناہے یاڈیلر؟
اے مرے دیس کے لوگو!شکائت کیوں نہیں کرتے؟
تم اتنے ظلم سہہ کربھی بغاوت کیوں نہیں کرتے؟
یہ جاگیروں کے مالک اورلٹیرے کیوں چنے تم نے؟
تمہارے اوپرتم جیسے ہی،حکومت کیوں نہیں کرتے؟
یہ بھوک،افلاس تنگ دستی تمہاراہی مقدرکیوں؟
مقدرکوبدلنے کی جسارت کیوں نہیں کرتے ؟ |