خواجہ سعد رفیق کا شمار ان چند گِنے چُنے وزراء میں ہوتا
ہے ، جن کی کارکردگی عام آدمی کو دکھائی بھی دیتی ہے۔ ان کے آنے سے قبل بلا
شبہ ریلوے آخری سانسیں لے رہی تھی، سٹیشن ویران تھے، کالونیاں اجڑ گئی تھیں،
بہت سے علاقوں میں ریل کا پہیہ مکمل طور پر رک چکا تھا، چھوٹی لائنوں پر
ریلوے سٹیشن کھنڈرات کی صورت اختیار کرچکے تھے، عمارات کا ملبہ بھی یار لوگ
اتار کر اپنے غریب خانوں میں استعمال کر چکے تھے، لائنیں اکھڑنا شروع ہو
چکی تھیں، مال گاڑیوں کی صورت ہی لوگ بھولتے جارہے تھے، تعمیرو مرمت کا کام
ٹھپ ہو چکا تھا، عام ریلوے سٹیشنوں پر بھی مسافر دکھائی نہیں دیتے تھے،
صفائی کا نظام ختم اور رونقیں مانند پڑ چکی تھیں۔ خواجہ صاحب نے ریلوے کو
نئی زندگی دی، اوپر بیان کی گئی خامیوں میں بہت حد تک کمی آئی، یہ کہنا کہ
ریلوے کا نظام اب ایسا ہوگیا ہے کہ اس پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی، بالکل
بے جا ہے، ابھی بے شمار کرنے والے کام پڑے ہیں، ابھی بحالی کی نصف سے زیادہ
گنجائش اور ضرورت ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے اگر یکسوئی سے محنت جاری رکھی تو
ریلوے کی مزید ترقی کے امکانات روشن ہیں۔ گزشتہ دنوں بہاولپور ریلوے سٹیشن
کی ’اپ گریڈیشن‘ کی تقریب میں وزیر موصوف تشریف لائے تھے، بتایا گیا کہ
ریلوے کی آمدن اسی برس کے آخر تک 35.50ارب روپے ہو جائے گی۔ بہاول پور
سٹیشن کی تعمیر مئی میں ہی شروع ہوگی ، اس عمارت پر 27کروڑ 84 لاکھ روپے
لاگت آئے گی۔ دفاتر، انتظار گاہیں، پارکنگ، کیفے ٹیریا، مسجد، اور ضرورت کی
دیگر چیزیں اس عمارت کا حصہ ہونگی۔ تقریب تو ریلوے سٹیشن کی اپ گریڈیشن کی
تھی، مگر خواجہ صاحب نے حسبِ معمول زیادہ وقت عمران خان کے خلاف محاذ آرائی
میں گزارا۔ جلسہ کی صورت میں حاضرین کی خواہش کے مطابق ہی الفاظ استعمال
کئے، جلسہ کو بھی گرمایا اور میڈیا کی مرکزی خبروں میں بھی اپنا حصہ ملایا۔
وزراء کی کارکردگی میں یہ عنصر بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، جو وزیراپنے
وزیراعظم کی حمایت میں جس قدر زیادہ بات کرے گا، جتنے دلائل تلاش کرکے لائے
گا، جتنے نئے الفاظ اور اصطلاحیں استعمال کرے گا، مخالفین پر نئے الزامات
تراشے گا، وزیراعظم پر کئے گئے مخالفین کے حملوں کا جس قدر جواب دے گا، تو
جانا جائے گا کہ اسی وزیر کی کارکردگی سب سے اچھی ہے۔ اور اگر وزیر ایسا ہو
کہ اس کی وزارتی کارکردگی بھی بہتر ہو، اور مخالفین کے جواب دینے والی
صلاحیت بھی بہترین ہو تو ایسے وزیر کی کیا بات ہے، خواجہ سعد رفیق کا تعلق
اسی قسم کے وزراء سے ہے۔ اگرچہ یہ ایک فطری بات ہے کہ اپنے وزیراعظم کی
حمایت میں وزراء خاموش نہیں رہ سکتے ، مگر اپنے فرض کا خیال بھی رہنا چاہیے،
کیونکہ وزارت کا قلمدان کسی کی حمایت یا مخالفت کے لئے نہیں متعلقہ محکمہ
کی بہتری کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے۔ خاص طور پر جب کسی چیز میں توازن
ہی قائم نہ رہے، تو توجہ بٹ جاتی ہے۔
خواجہ سعد رفیق کی ہمت ہے کہ وہ اپنے وزیراعظم کی حمایت میں بھی اپنی پوری
توانائیاں صر ف کررہے ہیں اور اپنی وزارت پر بھی مناسب توجہ دے رہے ہیں۔ اپ
گریڈیشن کسی ایک سٹیشن کی نہیں ہورہی، بہت سے سٹیشن اس فہرست میں شامل ہیں،
تاہم اس اپ گریڈیشن سے ایک چیز کا احساس ہوتا ہے ، کہ خواجہ صاحب پر بھی
میاں شہباز شریف کا کچھ اثر ہوگیا ہے، جیسے وزیراعلیٰ پنجاب عام کام کو
ہاتھ ہی نہیں ڈالتے، وہ صرف میگا پراجیکٹس کے قائل ہیں، اسی طرح ریلوے میں
ابھی بے شمار اصلاحات کی ضرورت ہے، گاڑیوں کی بحالی، وقت کی پابندی، جن
روٹس پر گاڑیوں کی ٹریفک معطل ہو چکی ہے ان کی بحالی، جہاں ریلوے سٹیشن کی
عمارتیں ہی ختم ہوگئی ہیں ان کی تعمیر۔ اور سب سے بڑھ کر ریلوے کی زمینیں
واگزار کروانا۔ بہاول پور ہی کی مثال لے لیں ، سٹیشن سے شاید ایک کلومیٹر
کا فاصلہ ہی ہوگا کہ ریلوے لائن سے دس بیس فٹ پر ایک پختہ (کنکریٹ والی)
چار دیواری تعمیر ہورہی ہے۔ کتنی آبادیاں ریلوے لائن کے ساتھ آباد ہیں،
کتنی زرعی زمینیں مافیا کے قبضے میں ہیں۔ اسی تقریب میں وزیر صاحب نے بتایا
کہ جب ریلوے کی زمینوں پر قبضہ چھڑوانے کی بات ہوتی ہے تو ایک ہی وکیل صاحب
سامنے آجاتے ہیں، تو جناب اگر کوئی وکیل مافیا کی حمایت میں کھڑا ہے تو اسے
قوم کے سامنے لایا جائے، دراصل ان قبضوں کے پیچھے سیاسی لوگوں کا ہاتھ ہوتا
ہے،یہی وجہ ہے کہ ان سے قبضہ چھڑوانے کی بجائے اچھے لوگ بھی مصلحت کا شکار
ہو جاتے ہیں۔ |