سیکولر پارٹیاں اپنی شکست کا محاسبہ اور اقلیتوں کے تئیں پالیسی پر نظرثانی کریں

اسبہ اور اقلیتوں کے تئیں پالیسی پر نظرثانی کریں
ڈاکٹر مولانا محمد عبدالسمیع ندوی

سیکولر پارٹیوں کے لئے تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی سے زیادہ اقلیتوں کے تئیں پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ریاستی اور قومی سطح پر غیرسیکولر پارٹیوں کے اقتدار پر آنے کے بعد ہندوستانی اقلیتیں خصوصاً مسلمان دشوار کن مراحل اور صبر آزما دور سے دوچار ہے اور اِن تمام باتوں سے سیکولر پارٹیاں نہ صرف بخوبی واقف ہیں بلکہ تماشہ بیں بنی ہوئی ہیں۔ اِن کی خاموشی اور تماشہ بینی سے یوں لگتا ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب اُن کی منشا اور مرضی کے مطابق ہورہا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو ، یہی پارٹیاں جب مرکزی اور ریاستی سطح پر برسراقتدار تھیں مسلم اقلیت کے تئیں اُن کی سردمہری ، چشم پوشی ، عدم توجہی ، بے اعتنائی ، جگ ظاہر تھی۔ جب یہ پارٹیاں اقتدار میں تھیں تو انھوں نے اِس ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلم قوم کو صرف ووٹ بنک تصور کر رکھا تھا۔ وہ اُن سے لینا جانتے تھے انھیں دینا نہیں جانتے تھے اور نہ ہی اُن کے دل میں اِس اقلیت کے تئیں نرم گوشہ تھا ۔ کئی کمیشن بنے اور ردی کی ٹوکری کی زینت بن گئے۔ کسی کمیشن پر عملدرآمد تو دور کی بات اُس پہ غور و فکر بھی نہیں کیا گیا اور اُسے اس قابل سمجھا ہی نہیں گیا کہ اُس پر عمل کیا جائے۔ پھر بھی مسلم اقلیت زہریلا اور کم زہریلا ، برا اور کم برا نظریہ کے تحت انہی سیکولر پارٹیوں کے حق میں ووٹنگ کرتی رہی۔ لیکن گذشتہ سال منعقدہ لوک سبھا و اسمبلی الیکشن کے نتائج نے ہر کسی کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ پارٹیوں کو بھی اقلیتوں کو بھی اِس متوقع انقلاب اور اُس کے برے نتائج نے ہر کسی کو غور و فکر کرنے کے لئے مجبور کردیا۔آج بھی موقع ہے سیکولر پارٹیوں کو سوچنے اور سمجھنے کا کہ وہ اپنی اقلیتوں کے تئیں قدیم پالیسی ترک کریں اور ایسی پالیسی اختیار کریں جن میں پسماندہ اقوام اور دیگر اقلیتیں اور اُن کی جان ، مال ، عزت ، آبرو ، تہذیب اور اُن کے مذہب کے تحفظ کی ضمانت ہو ، ہر کسی کو اپنی تہذیب اور اپنے مذہبی آئین پر عمل پیرا ہونے میں مکمل آزادی ہو ، انھیں چین و سکون کی زندگی میسر ہو اور انھیں تمام حقوق ، رعایات اور سہولیات حاصل ہوں جیسی اکثریتی فرقہ کو حاصل ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ یکجہتی کا فروغ ہو ، مذہبی و تہذیبی ، تعصب و تنگ نظری سے پاک ملک کا ماحول ہو۔ ہر کسی کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہو ، ہر کسی کی ترقی ملک کے پیش نظر ہو ، تب ہی جا کر ہمارا ملک صحیح معنی میں خوشحال اور ترقی یافتہ ہوگا۔یہ اُس وقت ممکن ہے جب کہ شکست خوردہ سیکولر پارٹیاں اپنے گریبان میں جھانکیں ، اپنی کارکردگی کا محاسبہ کریں کہ جب انھیں قوت ، طاقت اور اقتدار حاصل تھا تو انہوں نے اُس کی کس قدر ، قدر کی۔ اب اُن کا جو حال ہوگیا ہے وہ بھی جگ ظاہر ہے۔ اب انھیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ چھوٹے سے بڑے لیڈر تک کا یہی حال ہے۔ لیکن صبح کا بھولا شام کو گھر آئے تو اُسے بھولا نہیں کہتے کے مصداق وہ اپنی بھول کا احساس کرے اور آئندہ نہ بھولنے کا ارادہ رکھیں تو یقین جانئے قدرت کے خزانے میں کوئی کمی نہیں۔جسے چاہے وہ حکمرانی عطا کرتا ہے اور جس سے چاہے وہ حکمرانی چھین لیتا ہے۔ وہ قادر مطلق ہے وہی مالک حقیقی ہے اور وہی حکمرانوں کا حکمراں ہے جو ایسے ویسے کو کیسا کیسا ، اور کیسے کیسے کو ایسے ویسے کردینے پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ شکست خوردہ سیکولر پارٹیوں کو تنظیمی ڈھانچہ میں تبدیلی سے زیادہ منظم منصوبہ بندی اور لائحہ عمل تیار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ہر اقلیت کو اُن کی آبادی کے تناسب سے ہر چیز میں حصہ داری اور ہر ایک کے حقوق کی پاسداری اور سابقہ روش لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی سے دستبرداری ، سیکولرزم اور جمہوریت کی علمبردار پارٹیوں کی حمایت اور مکمل طرفداری جیسے امور پر غور و فکر کر کے ان امور کو روبعمل لانے کی کوشش کریں تو ممکن ہے یہ پارٹیاں اپنی سابقہ پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ کیونکہ موجودہ برسراقتدار غیر سیکولر پارٹیاں اپنا وقار ، اعتبار اور اعتماد کھو چکی ہیں اور پہلے ہی سال میں اُن کی جو کارکردگی منظرعام پر آئی وہ اُن کی سیاسی زوال کی پیش گوئی ثابت ہوسکتی ہے۔ ’’اچھے دن آنے والے ہیں، سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ یہ نعرے کھوکھلے ثابت ہوگئے ہیں۔ سیکولر پارٹیاں اپنی شکست اور ذلت و رسوائی کی وجوہات پر غور و فکر کرتے ہوئے تنظیمی ڈھانچے اور منصوبہ بندی کی طرف مکمل دھیان اور توجہ کریں تو ممکن ہے اُن کی عظمت رفتہ بحال ہو اور ہاتھ سے نکلا ہوا زمام اقتدار اُن کے ہاتھ آئے۔
 

syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 46284 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.