چاہ بہار بمقابلہ گوادر

گوادر کے مقابلے میں اسے خطے کی جہازرانی کا مرکز بنایا جا رہا ہے۔ تینوں ممالک برسوں خفیہ مشن پر گامزن رہنے کے بعد با لآخرمنظر عام پر آ گئے۔یہ بھارت، افغانستان اور ایران کا مشترکہ منصوبہ ہے۔چین کے صدر شی شینپینگ نے رواں سال کے آغاز پر تہران میں چابہار میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی۔ چائنا ہاربر انجینئرنگ کمپنی بھی گوادر پورٹ تعمیر میں دلچسپی لے رہی ہے۔ یہ کمپنی گوادر سے صرف 60میل کی دور چابہار کی تعمیر میں حصہ لینا چاہتی ہے۔

پہلے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایران کبھی بھارت کو پاکستان پر ترجیح دے گا۔مگر بھارت کی 50کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری یوں ہی نہیں ۔ تینوں کے درمیان سہ فریقی سمجھوتہ اس وقت ہوا جب چابہار میں پاکستان دشمن نیٹ ورک کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ اس پر پاکستان چاہتا ہے کہ ایران کو قانونی مراسلہ ارسال کیا جائے۔ ایران میں راء کی سرگرمیوں اور نیٹ ورک کا اہم مقام یہی چا بہار ہے۔ کلبھوشن نے اس سلسلے میں کئی انکشافات کئے ہیں۔ ایرانی وزیرداخلہ عبد الرضا کو بھی اسلام آباد نے پہلے ہی آگاہ کیا ہے۔

چاہ بہار بندرگاہ کا منصوبہ ایسے وقت شروع ہو رہا ہے جب ایران پر عالمی پابندیاں عائد ہیں۔ یہی وجہ ہے امریکی سینیٹرز اس پر تحفظات ظاہر کر رہے ہیں۔پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے تینوں ممالک ٹرانزٹ تجارت کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کے بھارت کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں۔ ایران اور بھارت کی تجارت کا حجم تقریبا ً 6ارب ڈالر ہے۔ تا ہم ان برآمدات درآمدات میں دہلی فائدہ میں ہے۔علاوہ ازیں دونوں کے درمیان توانائی، تجارت، بینکاری، انشورنس، سیاحت سمیت کئی میدانوں میں تعاون ہو رہا ہے۔ بھارت ایران کی اس جنوب مشرقی بندرگاہ چابہارمیں کل تقریباًایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔وہ آئل ریفائنریاں یا تیل صاف کرنے والے یونٹس قائم کرنے میں مصروف ہے جہاں یومیہ چار لاکھ بیرل سے زیادہ تیل صاف ہو گا۔ بھارت ہی چاہ بہار سے زیدان تک ریلوے روڈ بھی تعمیر کر رہا ہے۔ وہ یہاں بڑے کثیر المقاصد کارگو ٹرمینلز اور کنٹینرز کے لئے خصوصی برتھ تعمیر کر رہا ہے۔ چاہ بہار کو بھارت گوادر کے مقابلے میں لانا چاہتا ہے۔بھارت یہ تاثر دے رہا کہ گوادر ایران کی اہمیت کم کر دے گا۔ جبکہ گوادر سے ایران کی اہمیت بڑھے گی۔ بھارت چاہ بہار کو افغانستان اور وسط ایشیا کے لئے گیٹ وے یا گزرگاہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایران کے ساتھ مل کر طالبان کے مقابلہ میں شمالی اتحاد کی حمایت کی تھی۔ بھارت، ایران اور افغانستان نے طالبان حکومت کے خاتمہ کے فوری بعد ایک معاہدہ کیا تھا۔ یہ معاہدہ امریکہ کی سرپرستی میں کیا گیا۔ اس کے تحت چاہ بہار ۔ملاک۔زارنج۔دیلارم روٹ تعمیر کی جائے گی۔ چاہ بہار اگر چہ ایک غریب سنی اقلیت کا علاقہ ہے۔یہ شمال میں افغانستان اور شمال مشرق میں پاکستان اور مشرق میں بھارت سے گھرا ہو اہے۔ ایران بھی بندر عباس بندرگاہ کے بجائے چابہار کو سنٹرل ایشیا اور افغانستان،چین تک کے لئے راہداری کے طور پر استعمال کر نا چاہتاہے۔بلکہ وہ یہاں سے یورپ جائے گا۔ وہ اپنا وقت اور خرچ کم کرنا چاہتا ہے۔ یہاں سے ہی ترکمانستان اور قزاقستان تک ریل چلانے کی منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ایران کا خیا ل ہے کہ وہ مستقبل میں چین اور بھارت کو خام تیل اور قدرتی گیس سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ کیوں کہ اس کے ہاں ان کے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔
 
ایران میں بھارت کا یہ تعمیراتی اور تجارتی نیٹ ورک افغان نیٹ ورک کی طرح ہے۔ جہاں بھارت کے اپنے فوجی کمانڈوز تعینات ہیں۔وہ چابہار کو افغانستان میں زارنج سے جوڑنے کے لئے ریلوے لائن بھی تعمیر کرے گا۔ جس سے اسے قندھار، کابل، مزار شریف اور ہرات تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ ظاہر ہے بھارت ان ممالک کی تعمیر و ترقی اور سرمایہ کاری کے نام پر اپنے سٹریٹجک اڈہ قائم کر رہا ہے۔ جو مسقبل میں فوجی مقاصد کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان کا مقصد اس خطے میں بھارتی مفادات کی نگرانی اور اقتصادیوں راہداریوں پر نظر رکھنابھی ہو گا۔ ان سے وہ اپنے مخالفین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہا ہو گا۔

ایران اور افغانستان ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارتی اڈے اور اس کے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے بن رہے ہیں۔ بھارت کے پروجیکٹ نئے نہیں۔ ان پر عرصہ دراز سے کام ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت نصف صدی تک ایرانی مفادات کے خلاف کام کرتا رہا ہے۔ اس نے ایران عراق جنگ میں کھل کر عراق کا ساتھ دیا۔ کیوں کہ وہ عراق سے ہی تیل حاصل کرتا رہا تھا۔ مگر اب دہلی نے جس طرح روس کے ساتھ امریکہ کو بھی اپنے شیشے میں اتار لیا ہے۔ایران پر جب پابندیاں تھیں تو بھارت نے امریکہ کو اعتماد میں لے کر ایران سے تیل کا حصول یقینی بنایا۔ ایران کو تیل کے بدلے ادائیگی کے بجائے یہ رقومات کلکتہ کے ایک بینک میں جمع کی گئیں۔ جب ایران پر پابندیاں نرم ہوئیں تو بھارت نے اسے قسطوں میں ادائیگی کی۔ بھارت اپنے مفادات کے لئے ہر کسی سے تعلقات استوار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس کی بیک وقت ماسکو اور واشنگٹن سے وابستگی ہے۔ ایک ساتھ اسرائیل اور سعودی عرب سے دوستی مہم جاری ہے۔

ہو سکتا ہے کہ ایران بھارتی سازشوں سے بے خبر ہو۔ کیوں کہ کوئی ملک یہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کی سرزمین کو اپنی مقاصد کے لئے استعمال کرے۔ نیز پاکستان اور ایران برادر اسلامی ممالک ہیں۔ پاکستان کے سعودی عرب اور دیگر عرب ملکوں کے ساتھ بھی برادرانہ تعلقات ہیں۔ تا ہم ایران میں میڈیا کا ایک حصہ اور بعض دیگر اسلام دشمن ایران کو پاکستان کے خلاف صرف اس وجہ سے بھڑکا رہے ہیں کہ اسلام آباد کے ریاض کے ساتھ دیرینہ بہترین تعلقات ہیں۔ اسلام آباد کے ریاض اورتہران کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کی نوعیت مختلف ہے۔ عقیدے یا نظریہ کا اختلاف رائے اپنی جگہ لیکن پاکستان بیک وقت ایران اور سعودی عرب سے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے۔ بلکہ دونوں کو قریب لانے میں پل کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ بھارت اس کے برخلاف کام کر رہا ہے۔ وہ اس پل کو اڑانے میں مصروف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راء اور دیگر پاکستان دشمن نیٹ ورک کو ایران میں سرگرم کر رکھا ہے۔ فیصلہ ایران نے ہی کرنا ہو گا کہ وہ اسلا می برادر ملک اور دنیا کے پہلے مسلم ایٹمی ملک میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر وہ کسی کو کسی پر ترجیح دینے میں دلچسپی نہیں لیتا تو پھر کسی کا آلہ کار بھی نہ بنے۔ بھارت اسے اپنا آلہ کار بنا کر پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے ایرانی سرحد سے پاکستان پر حملہ ہوتے رہتے ہیں۔ جبکہ کسی جند اﷲ گروپ کی آڑمیں ایران کی جانب سے سرحدوں پر تاربندی، پاکستان میں فوجیں داخل کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔

چین سمیت جاپان بھی چا بہار بندرگاہ کی تعمیر میں بھارت کی پارٹنر شپ چاہتا ہے۔ جاپان کے وزیراعظم شین زو آبے کا اگست2016کو ایران کا دورہ متوقع ہے۔ یہ38سال بعد کسی جاپانی وزیراعظم کا پہلا دورہ ایران ہو گا۔ اسلام آباداس موقع پر چین، جاپان، افغانستان، ایران پر صورتحال واضح کر سکتا ہے کہ بھارت ترقیاتی منصوبوں کی آڑ لے کر پاکستان میں دہشتگردی پھیلانے کے لئے ایران اور افغانستان کی سر زمین استعمال کر رہا ہے۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 556187 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More