نوازشریف نے جب ایٹمی دھماکوں کے عوض 5 ارب ڈالر پیشکش کو ٹھکرایا تھا
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
امریکی صدر اوبامہ آج امریکہ کے ہاتھوں ایٹمی تباہ کاریوں کی بھینٹ چڑھنے والے جاپان کے شہر ہیروشیما میں عالمی امن و رواداری کا درس دے رہے ہیں جہاں انہیں ’’انسانیت کے قاتل واپس جائو‘‘ کے نعرے بھی سننا پڑے ہیں مگر وہ ہمارے خطہ میں بھارت کی ایٹمی صلاحیتوں کی سرپرستی کرکے اور ایٹمی کلب میں اس کی شمولیت کی راہ ہموار کرکے جہاں اس خطہ میں طاقت کا توازن بگاڑ رہے وہیں بھارت کے ہاتھوں اس کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کی تباہی کی نوبت لانے کا بھی بندوبست کر رہے ہیں اس لئے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی خاطر امریکہ کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے معاملہ میں اپنا دہرا معیار اب ترک کرنا ہو گا۔ |
|
پاکستان ایک پرامن ملک ہے جس کے کبھی کسی
پڑوسی کیخلاف جارحانہ عزائم نہیں رہے جبکہ بھارت کا معاملہ اسکے برعکس ہے۔
اس نے 16 دسمبر 1971ء کو گھنائونی سازش اور فوجی طاقت سے مشرقی پاکستان کو
الگ کر دیا اور پھر باقی ماندہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف اپنی سازشوں کے
جال پھیلانا شروع کر دئیے۔ اس نے سقوط ڈھاکہ کے تین سال بعد 1974ء میں
پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کیخلاف اپنے مذموم عزائم کا اظہار
کیا جبکہ روائتی اسلحہ کے وہ پہلے ہی انبار لگا چکا تھا۔ پاکستان کبھی
بھارت کے ساتھ اسلحہ کی دوڑ میں شامل نہیں رہا تاہم اپنی بقا کیلئے ایٹمی
ٹیکنالوجی کا حصول اس کی بھی مجبوری بنی۔ اس مقصد کے لئے مرحوم ذوالفقار
علی بھٹو نے پاکستان کے لئے ایٹمی توانائی کے حصول کی منصوبہ بندی کو عملی
شکل دی اور یہ اعلان کرکے دشمن کی صفوں میں کھلبلی پیدا کی کہ ہم گھاس کھا
لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے ہالینڈ میں
موجود نوجوان پاکستانی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات حاصل
کیں۔ انہیں سنٹری فیوجز کے حصول پر مامور کیا جنہوں نے ایٹمی سائنس دانوں
کی مستعد ٹیم کی معاونت سے ملک کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے کا کارنامہ
سرانجام دے دیا۔ وطن عزیز کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے میں بھٹو مرحوم کے
بعد جنرل ضیاء الحق، غلام اسحاق خاں اور محترمہ بینظیر بھٹو کی کاوشوں کو
بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تاہم باضابطہ طور پر پاکستان کے ایٹمی قوت
ہونے کا اعلان کرنے کی سعادت میاں نواز شریف کو حاصل ہوئی جنہوں نے بھارت
کی جانب سے دوسری بار کئے گئے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998ء کو
چاغی کے مقام پر ایٹمی بٹن دبا کر وطن عزیز کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان
کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ اعزاز بلاشبہ سالہا سال کی جدوجہد کا ثمر ہے۔
وزیراعظم نوازشریف پر مقامی اور عالمی سطح پر دھماکے نہ کرنے کا دبائو تھا۔
امریکی صدر بل کلنٹن نے 5 ارب ڈالر میاں نوازشریف کے ذاتی اکائونٹ میں جمع
کرانے کی پیشکش کی جسے انہوں نے ٹھکرا دیا۔3 مئی 1998ء کو بھارت کی طرف سے
کئے گئے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اگر اس وقت میاں نواز شریف امریکی صدر
کلنٹن کی پاکستان کو عالمی تنہائی میں دھکیلنے کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر
یا پانچ ارب ڈالر کی پیشکش قبول کرکے 28 مئی کو ایٹمی دھماکے نہ کرتے تو
اندھی طاقت کے نشے میں جھومتا ہمارا دشمن پڑوسی ملک ہمیں صفحہ ہستی سے
مٹانے کیلئے اب تک نہ جانے کیا کیا اقدامات اٹھا چکا ہوتا۔ آج پاکستان کا
جغرافیائی سرحدوں کے حوالے سے دفاع پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کے ناطے
ناقابل تسخیر ہو چکا ہے مگر اندرونی طور پر دشمن ہمیں عدم استحکام سے دوچار
کرنے کی کوشش میں ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف بجا طور پر پاکستان کو ایٹمی
قوت سے سرفراز کرنے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں
نوازشریف بھارت کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتے جو آج ہماری اقتصادی
راہداری کو بھی سبوتاژ کرنے کی مکروہ سازشوں کے تحت پاکستان کی سالمیت
کمزور کرنے کے درپے ہے۔ اس وقت جبکہ چاروں جانب سے ملک کی سرحدوں اور
سالمیت کو خطرات درپیش ہیں اور بھارت ہی نہیں ہمارے پڑوسی برادر مسلم ممالک
افغانستان اور ایران کے بھی ہمارے معاملہ میں تیور بدلے ہوئے نظر آتے ہیں
جن کی ہمارے بجائے بھارت کے ساتھ قربت بڑھ رہی ہے اور اس تناظر میں گوادر
پورٹ تک دنیا کی رسائی ناممکن بنانے کے لئے پاکستان چین اقتصادی راہداری کو
سبوتاژ کرنے کی بھارتی سازشوں میں افغانستان اور ایران کا بھی عمل دخل نظر
آتا ہے جنہوں نے بھارت کے ساتھ مل کر گوادر پورٹ کے مقابل چاہ بہار پورٹ کے
لئے مشترکہ سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے اور اب امریکہ بھی دہشت گردی کی
جنگ میں ہمارے کردار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بھارت اور افغانستان کو
تھپکی دیتا نظر آتا ہے تو ہمیں آج اپنی خود مختاری اور سلامتی کے تحفظ کے
لئے دنیا کو اپنی ایٹمی صلاحیتوں کا مربوط انداز میں احساس دلانے کی زیادہ
ضرورت ہے جس کے لئے قومی جوش و جذبے کے ساتھ یوم تکبیر سرکاری طور پر منا
کر اس کے ذریعے بھارت کے علاوہ اس کے جنونی عزائم میں اس کا حوصلہ بڑھانے
والوں کو بھی ٹھوس پیغام دیا جا سکتا ہے۔ |
|