سیاست کا شیخ چلی
(ajmal malik, faisalabad)
لڑکی ( نجومی سے): میرے لئے خالہ زاد اور چچا زاد کے رشتے آئے ہیں ۔پلیز بتائیں میری شادی کب ہو گی۔اور خوش قسمت کون ہوگا۔؟
نجومی:تمہاری شادی اسی سال خالہ زاد سے ہو گی۔ اورچچا زاد خوش قسمت ہوگا۔
قوم جانتی ہے کہ عمران خان خالہ کے بیٹے نکلے ۔ اور مسلم لیگ ن چچا کا بیٹا نکلی ۔خوش قسمت۔قوم وہ لمحات بھی نہیں بھول سکتی جب عمران خان کہہ رہے تھے۔ ’’جلدی سے نیا پاکستان بنا دیں تاکہ میں شادی کر لو ں‘‘۔نجومی اس وقت کنٹینر پر ساتھ ہی کھڑا تھا۔ مُنہ حیرت زدہ تھا اور خالہ کا بیٹا واقعی بری قسمت والا نکلا تھا ۔ قسمت کی دھنی اداکارہ میرابھی شادی کی خواہش مند تھی۔اچانک ایک روزمیرا کا بیان آ گیا کہ ’’میں نے عمران خان کو اپنا چچا اورشیخ رشید کو اپنا تایا بنا لیا ہے‘‘۔بات خالہ زاد سے بھی آگے بڑھ چکی تھی
|
|
|
شیخ رشید سوچ و بچار کرتے ہوئے |
|
پروڈیوسر ہمیشہ نئی فلم کے لئے کاسٹ کا
انتخاب یہ سوچ کرکر تے ہیں کہ فنکاروں کے پردہ سکرین پرآتے ہی ہر طرح کے
فلم بینوں کے ذوق کی تسکین ہو جائے۔ یعنی گلیمر۔ ڈانس ۔ ایکشن ۔اور۔کامیڈی۔۔فلم
میں ہر فلیورکا تڑکہ برابر لگتا ہے جیسے ۔دال کو بھگار لگتا ہے ۔فلم جتنی
بھی رنگین اور تڑکہ جتنا بھی چٹخارے دار ہو ۔ ڈائیلاگ خواہ کتنے ہی اوپن
ہوں۔اورسنسر کتنا ہی نرم کیوں نہ ہو۔ کامیڈین کے بغیر فلمیں سنجیدہ رہتی
ہیں۔ 2008سے 2013 تک ملک میں جو فلم چلی وہ انتہائی سنجیدہ سی تھی۔کیونکہ
شیخ رشید احمد اُس اسمبلی کا حصہ نہیں تھے۔راولپنڈی سے ناقابل شکست تصور
کیے جانے والے شیخ رشید کو 2008 اور2010 میں جاوید ہاشمی اور شکیل اعوان نے
شکست دی تھی۔لال حویلی کے باسی کو لال مسجدراس نہیں آئی تھی۔فرزندانِ
راولپنڈی نےفرزندِ راولپنڈی کو 5 سال سرکٹ سے آوٹ رکھا تھا۔شیخ صاحب
کواگرچے بہت دور کی سوجھتی ہےلیکن اپنی ہار دکھائی نہیں دی۔ملکی حالات سے
متعلق ان کی چرب زبانی۔۔اُن مافی الضمیر ہوتی ہے۔شیخ رشید کے بہت سے بیان
کہاوت بن چکے ہیں اور بہت سی کہاوتیں ان کا بیان ہوتی ہیں۔بڑھاپے کی شادی
اور بینک کی چوکیداری سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔پی پی کا مستقبل ’’ہانگ کانگ
کے شعلے‘‘ جیسا ہے۔بلاول سیاست کی بلو رانی ہیں۔اورمسلم لیگ ن کی حکومت کے
بارے میں تو’’ شیخ گوئیاں‘‘ سب سے زیادہ ہیں۔وہ کہتے رہے ہیں کہ ہم ڈبل شاہ
قسم کے لوگوں کو نہیں مانتے ۔نواز لیگ میں بھی مصطفیٰ کمال بننے والا
ہے۔اگر یہ پاجامہ لیکس ہیں تو حکومت کو بہت جلد پیمپر کی ضرورت پڑنے والی
ہے۔یہ سال خونی ثابت ہو گا۔اورقربانی سے پہلے قربانی ہوگی۔وہ اکثر نجومی
بنے رہتے ہیں۔
لڑکی ( نجومی سے): میرے لئے خالہ زاد اور چچا زاد کے رشتے آئے ہیں ۔پلیز
بتائیں میری شادی کب ہو گی۔اور خوش قسمت کون ہوگا۔؟
نجومی:تمہاری شادی اسی سال خالہ زاد سے ہو گی۔ اورچچا زاد خوش قسمت ہوگا۔
قوم جانتی ہے کہ عمران خان خالہ کے بیٹے نکلے ۔ اور مسلم لیگ ن چچا کا بیٹا
نکلی ۔خوش قسمت۔قوم وہ لمحات بھی نہیں بھول سکتی جب عمران خان کہہ رہے تھے۔
’’جلدی سے نیا پاکستان بنا دیں تاکہ میں شادی کر لو ں‘‘۔نجومی اس وقت
کنٹینر پر ساتھ ہی کھڑا تھا۔ مُنہ حیرت زدہ تھا اور خالہ کا بیٹا واقعی بری
قسمت والا نکلا تھا ۔ قسمت کی دھنی اداکارہ میرابھی شادی کی خواہش مند
تھی۔اچانک ایک روزمیرا کا بیان آ گیا کہ ’’میں نے عمران خان کو اپنا چچا
اورشیخ رشید کو اپنا تایا بنا لیا ہے‘‘۔بات خالہ زاد سے بھی آگے بڑھ چکی
تھی ۔ حالانکہ شادی کوئی معیوب فعل نہیں ہے۔ البتہ دھرنے کےفورا بعداسد عمر
نے یہ کہہ کر غلطیوں کا اعتراف کرلیا تھا کہ ’’ مشاورت میں کمی تھی ، بعض
نعرے غلط تھے اور سول نافرمانی کی کال درست نہیں تھی‘‘۔ایسا ہی اعتراف شیخ
رشید بھی کر چکے ہیں۔
بیوی شوہر سے :ذرا دیکھ کر کار چلاؤ۔اندھے ہو۔ایکسیڈینٹ ہونے لگا تھا۔
اسپیڈ کم کرو۔سٹیئرنگ کو دھیان سے پکڑو“۔
شوہر(غصے سے):تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟
بیوی:کیوں کیا ہوا ۔؟۔۔’’گاڑی اس وقت تم چلا رہی ہو‘‘۔شوہر بولا۔
شیخ رشید نے اسلام آباد دھرنے کی قیادت خود کی تھی۔ وہ اُس قیادتی ٹرک پر
سوار تھے۔ جس نے لاہور سے نکلتے ہی ڈاکٹر طاہر القادری کے ٹرک کی بیت کر لی
تھی۔ لندن پلان سے لے کر اسلام آباد اعلان تک ہر منصوبے پر مشاورت شامل
تھی ۔۔۔کیونکہ شیخ رشید ہماری سیاست کی زبیدہ ہیں۔ان کے پاس ہر مسئلے کا حل
ہوتا ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 62 کے مطابق شیخ رشید انتہائی 63 واقع ہوئے ہیں۔
حکومت کو لگے 35 پنکچر کے توپے انہوں نے کچے کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ فلم
میں ایکشن، ڈانس ،گلیمر، تھریل اور کامیڈی سمیت سب کچھ موجود تھا۔پورے سرکٹ
میں کامیاب نمائش جاری تھی۔قربانی سے پہلے قربانی کا ڈائیلاگ ہٹ جا رہا
تھا۔فلم بینوں کی تمام حسوں کی تسکین ہو رہی تھی۔میاں نواز شریف کی چوکیاں
بھرنے والے قوالوں کا تال میل کہیں اور ہو چکاتھا۔کل کے عمران ہاشمی آج
امریش پوری بن چکے تھے۔اچانک دی اینڈ کے بغیر فلم ختم ہو گئی۔شیخ صاحب نے
پھر پیش گوئی کر دی کہ ’’جمہوریت بیوہ ہو نے والی ہے‘‘۔
نجومی ( عورت کا ہاتھ دیکھ کر): انتہائی افسوس ناک خبر ہے کہ آپ 3 ماہ کے
بعد بیوہ ہوجائیں گی۔
عورت( غصے سے): یہ تو مجھے بھی پتہ ہے تم یہ بتاؤ کہ میں بچ جاؤں گی یا
پکڑی جاؤںگی۔
قتل کی خواہش رکھنے والوں کو صرف اپنی فکر پڑی تھی۔ بیوہ نے جو خیالی
منصوبہ بنایاتھا وہ شیخ چلی جیسا تھا۔شیخ چلی تقریبا ساڑھے تین صدیاں پرانا
ایسا کردار ہے۔ جوجاگتے میں بھی خواب دیکھتا تھا۔شیخ چلی کےواقعات اور شیخ
رشید کے بیانات میں مزاح کاتڑکہ موجود ہوتا ہے ۔ میری حس مزاح چونکہ تھوڑی
کمزور ہے۔ اس لئے میں شیخ رشید کی درفنتنیاں شوق سے سُنتا ہوں۔ان کے بیانات
اکتاہٹ نما ہوتے ہیں۔شیخ چلی کی طرح سارے انڈے جلد ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔ مستقبل
کے سہانے خوابوں میں کبھی خالہ کا بیٹا پھنس جاتا ہے اور کبھی خواہش مند
قاتلہ پکڑی جاتی ہے۔پاکستان کی سیاست میں شیخ رشید کے علاوہ منظور وسان بھی
خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن بہت سے سیاسی خواب ۔سیاسی وعدوں کی طرح جھوٹے نکلتے
ہیں۔البتہ شیخ رشید اور منظور وسان میں فرق یہ ہے کہ اُن میں سے ایک نیند
میں بولتا ہے اور ۔ دوسراسوتے جاگتے بولتا ہے۔
اعداد و شمار کے ماہر پروفیسر نےاپنے دوستوں کو بتایا’’اوسط درجے کا ایک
آدمی روزانہ تقریباً دس ہزار الفاظ جبکہ اوسط درجے کی عورت روزانہ تیس ہزار
الفاظ بولتی ہے۔بدقسمتی سے شام کو جب میں گھر پہنچتا ہوں تو اپنے دس ہزار
الفاظ ختم کر چکا ہوتا ہوں جبکہ میری بیوی کے تیس ہزار الفاظ شروع ہوجاتے
ہیں۔‘‘
میاں اور بیوی کے الفاظ ملا کر کل تقریبا چالیس ہزار بنتے ہیں اور شیخ رشید
روزانہ سارے الفاظ بولتے ہیں۔ان میں سے کچھ جھوٹ نکلتے ہیں اور کچھ زیادہ
جھوٹ ۔ لیکن میرا دوست شیخ مریدکہتا ہے کہ ’’شیخ رشید لال حویلی کے پیر
پگاڑا بھی ہیں اور منظور وسان بھی۔لیکن ان کی بیشتر پیش گوئیاں خواہشات کے
زیر اثر ہوتی ہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اب نیا بیان داغا ہے کہ قربانی
سے پہلے قربانی کا کہتا تھا تو اعتراض کیا گیا تھا لیکن اب کہتا ہوں کہ
حکومت کا ۔کاونٹ ڈاون شروع ہو گیا ہے۔عیدکے بعد عید ہے۔اور میرا دوست مرید
کہتا ہے اس میں کیا خاص بات ہے یہ تو سب کو پتہ ہے۔
مریض (ڈاکٹر سے):مجھے رات کو نیند نہیں آتی
ڈاکٹر:سونے سے پہلے دو ہزار تک گنتی گنا کرو۔اگلے روز مریض پھر ڈاکٹر کے
پاس چلا گیا اور بولاڈاکٹر صاحب گنتی 2018 تک جار ہی ہے لیکن نیند نہیں آ
رہی ۔
سرکٹ میں اب پھر سے نئی فلم کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ سارے کردار اکھٹے ہو
چکے ہیں۔پروڈیوسر فائنل کیا جا رہا ہے۔ کامیڈین بھی موجود ہیں ۔بلو رانی
بھی آ چکی ہے۔ نئے ڈائیلاگ تیار کئے جا رہے ہیں۔ فلم میں نعتیہ کلام بھی
شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔مجھے تو شیخ چلی یاد آگیا۔
شیخ چلی کوکسی نے کہا ۔’’ انڈوں کایہ ٹوکرا میرے گھر چھوڑ آؤ تو 1
انڈا۔تمہارا۔“
شیخ چلی نے ٹوکرا ۔اٹھایا۔اور سوچنے لگا کہ انڈا ملا تواُس کا چوزہ نکلوا
لوں گا۔وہ مرغی بنے گا۔مرغی روزانہ انڈا دے گی۔پھر مزیدبچے نکلواؤں گا ۔ایک
دن مرغی خانہ میرا ہوگا۔ مرغیاں بیچ کر بکری لے لوں گا۔پھر بکری بچے دے گی
۔یوں ایک بڑے ریوڑ۔میرا ہو گا۔کچھ بکریاں بیچ کرگائے لوں گا۔ایک دن گائیوں
کا ریوڑ میرا ہو گا۔پھر شادی کرؤں گا۔ میرے بچے مجھ سے پیسے مانگیں گےتو
میں کہوں گا کہ ’’ہٹو شیطانو‘‘۔اس دوران سارے انڈے ٹوٹ گئے
آدمی:’’تم نے سارے انڈے توڑ دیئے“۔
شیخ چلی :تمہیں انڈوں کی پڑی ہے میراسب کچھ برباد ہو گیا ۔ |
|