افغان جنگ توقع سے کہیں زیادہ مشکل نکلی
حقیقت ہے....؟امریکا افغانستان میں اپنی ناکامی اور شکست تسلیم کرچکا ہے
11ستمبر2001 کے امریکی ٹریڈ سینٹر پر(خودساختہ امریکی) حملے کے ڈرامے کے
بعد اِس حملے کے ملزمان(اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے اراکین) کی تلاش میں
افغانستان پر دہشت گردی کے خلاف زبردستی کی جنگ ملسط کرنے اور اِس پر اپنی
فتح و کامرانی کی صورت میں اپنے قبضے اور امریکی جھنڈا گاڑنے کی نیت سے
گھسنے والی بالخصوص امریکیوں کے ساتھ ساتھ نیٹو افواج نے جو خواب اپنی اُلو
جیسی آنکھوں میں سجا رکھا تھا اِن شاطر اور چالاک امریکیوں اور نیٹو افواج
کا یہ خواب آج نو سال بعد چکنا چُور ہوتا ساری دنیا کو نظر آرہا ہے اور اَب
اِس حقیقت کو امریکیوں سمیت ساری کو بھی تسلیم کرلینا پڑے گا کہ آج
افغانستان میں لاکھوں ٹن بارود پھونک ڈالنے اور ہزاروں معصوم انسانوں کو
موت کے گھاٹ اُتارنے کے باوجود بھی امریکا اور اِس کے حواری اپنے اُن مقاصد
میں کامیاب نہ ہوسکے ہیں جن کے لئے یہ افغانستان میں اپنے مذموم مقاصد لئے
گھسے تھے۔ اور یوں آج اِس حقیقت کو بھی امریکیوں سمیت دنیا بھر کے انسانوں
نے برطانوی آرمی چیف جنرل ڈیوڈ رچرڈ اور امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے
سربراہ لیون پینٹا کی زبانی خود سُن لیا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے امریکی
ڈرامے ٹریڈ سینٹر کے حملے میں ملوث ملزمان( طالبان سے مذاکرات کا وقت آگیا
ہے، اِس جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذاکرات جلد شروع ہونے چاہئیں، تاہم
اِس برطانوی جنرل نے اِس بات کا بھی برملا اور کھل کر کچھ اِس طرح سے اظہار
کیا ہے کہ ہر بغاوت کو ختم کرنے کے دوران ایسا مرحلہ بھی ضرور آتا ہے کہ جب
فریقین کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں میں یہاں یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا کو اَب
یہ بات بھی اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ مذاکرات کی پیشکش میں پہل بھی
وہ ہی فریق ) برطانیہ جو امریکا کے اُکسانے پر اِس جنگ کا حصہ بنا تھا آج
اپنے ہزاروں فوجی افغانستان کی پہاڑوں میں مروانے کے بعد خود) کر رہا ہے
اور جو اِس گھمنڈ میں تھا کہ وہ اپنی قوت کے زریعے افغانستان پر قابض ہو کر
یہاں اپنی حکومت قائم کر لے گا اور دنیا کو یہ ثابت کرد ے گا کہ ہم اپنی
بقا کے لئے ہر حربہ استعمال کر کے دنیا کو اپنے تابع کرسکتے ہیں.....اور آج
کتنے افسوس کی بات ہے کہ افغانستان کی زمین پر اِس ہی زمینی خدائی فوج کا
دعویدار برطانیہ خود اپنے ہی منہ سے یہ بات بھی تسلیم کر رہا ہے کہ
افغانستان میں جنگ کا حل قوت کا استعمال نہیں بلکہ مذاکرات ہیں۔ اور اِس حل
کے نتیجے میں یہاں دائمی امن کے قیام کے لئے ہر صورت میں پُرامن مذاکرات
جلد کئے جائیں یہاں میرا خیال یہ بھی ہے کہ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو
مزاکرات پہلے ہی کرلیتے تو اچھا ہوتا معصوم انسان تو اِس جنگ میں نہ مرتے۔
جبکہ دوسری جانب امریکی سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے بھی افغان
امریکا جنگ کے حوالے سے اے بی سی ٹی وی سے گفتگو کے دوران انتہائی ندامت
اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ نو برس سے جاری افغان جنگ
اندازوں سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوئی ہے جو حقیقتاً افغان جنگ میں امریکی
شکست کا بھی باعث ہے اور اِس کے علاوہ اِس امریکی نے اپنی جھینپ مٹانے کے
انداز میں بات کو گول مول کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ شائد یہی وجہ ہے کہ
اِسی لئے جنگ میں بہت سست رفتاری سے پیش رفت ہو رہی ہے۔ مگر اِس کے ساتھ ہی
انتہائی افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ اِس ہی امریکی سی آئی اے کے سربراہ
لیون پنیٹا نے اپنی اِسی گفتگو میں یہ بات کہہ کر ہم پاکستانیوں کے لئے ایک
نئی مشکل کھڑی کر دی ہے کہ ”اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے بیشتر ارکان
پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں روپوش ہیں“ جبکہ اِس بات کا یقین ہزاروں مرتبہ
حکومت ِ پاکستان اِن شاطر امریکیوں کو کروا چکی ہے کہ پاکستان کے کسی بھی
حصے میں نہ تو اسامہ بن لادن موجود ہے اور نہ ہی القاعدہ کا کوئی رکن ہے“
مگر حکومت پاکستان کی جانب سے اتنی یقین دہانیوں کے باوجود بھی امریکیوں کا
اِس پر یقین نہ کرنا تو پھر یہی ہے کہ اِس کے بعد امریکیوں کے لئے یہ
انتہائی شرم اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی شکست تسلیم
کرلینے کے بعد بھی اِس ضد اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں کہ اسامہ بن لادن
اور القاعدہ کے ارکان پاکستان میں موجود ہیں “جبکہ اِن کی اِس جنگ کا ایک
بڑا اتحادی پاکستان بارہا اِسے یہ یقین دلا چکا ہے کہ اِیسا کچھ نہیں ہے
جیسا کہ امریکا سوچ رہا ہے۔ جبکہ اِس منظر اور پس منظر میں، تو میں یہ
سمجھتا ہوں کہ آج امریکا کو پاکستان پر کسی قسم کی الزام تراشی اور شک و
شبہات کا اظہار کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہوئے اپنے گربیان میں بھی جھانک
لینا چاہئے کہ پاکستان بھلا کیوں کسی ایسے دشمن کو اپنے یہاں پناہ دے گا..؟
جس کے خلاف پاکستان پہلے ہی امریکی جنگ کا حصہ بن کر گزشتہ نو برس کے دوران
اپنے 35 سے38ارب ڈالر کا نقصان کرنے کے علاوہ اپنی افواج کے ہزاروں بہادر
سپاہیوں کو اِس امریکی جنگ میں شہید کرا چکا ہے تو بھلا پاکستان کیوں..؟
اپنے کسی دشمن کو پناہ دے گا..؟جبکہ امریکیوں کو پاکستان پر الزام لگانے
اور”اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے بیشتر ارکان پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں
روپوش ہیں“ یہ کہنے سے پہلے افغانستان میں اپنی ناکامی کے اسباب کا جائزہ
امریکی کانگریس کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان ٹائرینے کے کہے
ہوئے جملوں کی روشنی میں لے لینا چاہئے کہ جو اُنہوں نے امریکا کے دورہ
کرنے والے پاکستانی پارلیمانی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی زبان سے ادا کئے
اُنہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی سی آئی اے میں
بداعتمادی ہے جس کی وجہ سے امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے اہداف
افغانستان میں حاصل نہ کرسکا ہے۔ جبکہ اِن کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی سی
آئی اے اور آئی ایس آئی میں بداعتمادی ہے بالکل غلط اور بے بنیاد ہے اصل
میں امریکی سی آئی اے خود آپس میں عدم اعتماد کا شکار ہے اور وہ افغانستان
میں کھل کر اپنی موت کے خوف سے کام نہیں کر پا رہی ہے یوں اِسی وجہ سے
امریکی اپنی ناکامی کا سارا الزام آئی ایس آئی کے کاندھوں پر ڈال کر اِسے
دبا رہے ہیں حالانکہ امریکی سی آئی اے افغانستان میں بُری طرح سے ناکام
ہوچکی ہے اور اِس میں پایا جانے والا عدم اعتمادی کا عنصر ہی افغانستان میں
امریکی شکست کی وجہ بنا ہے۔ (ختم شد) |