سربانندسونوال یعنی سونے والا سراپا آنند
طلائی تمغہ جیت کر وزیراعلیٰ بن گئے اور اسی کے ساتھ آسام میں کمل کھل گیا
۔ کیوں نہ کھلتا ؟ کانگریس کے ۱۵ سالوں سے چلے آرہے وزیراعلیٰ کا نام ترون
یعنی نوجوان تھا مگر ان کی عمر ۸۱ سال تھی ۔ پانچ سال قبل انتخاب سے قبل ان
کو دل کا دورہ پڑا اور تین آپریشن ہوئے۔ اس وقت گوگوئی کے اہل خانہ نے
کانگریسی صدر سونیا گاندھی سے گزارش کی کہ برائے کرم ترون گوگوئی کو سیاست
سے سبکدوش کر دیا جائے لیکن اس مشورے پر نہ کانگریس نے کان دھرا اور نہ
ترون گوگوئی نے قابل التفات سمجھا۔ بستر مرگ سے اٹھ انتخابی دنگل میں قدم
رکھنے والےوالےسابق وزیراعلیٰ نے۵ سال قبل حزب اختلاف آسام گن پریشد کو جڑ
سے اکھاڑ کر اپنی زندہ دلی کا ثبوت پیش کیا ۔ پرفل کمار مہنتا کے ہاتھی موت
کی نیند سلا کر چوتھے نمبر پہنچا دیا۔ اسےبوڈو فرنٹ کے ۱۲ سے بھی ۳ نشستیں
کم ملیں اور اس کی پارٹنر بی جے پی کے ارکان کی تعداد ۱۰ سے گھٹ کر ۵ پر
پہنچ گئی تھی۔ سربانند جوانتخاب سے قبل آسام گن پریشد چھوڑ کر بی جے پی
میں شامل ہوئے تھے خود الیکشن ہارگئے۔ ترون گوگوئی کی زوردار واپسی کے ساتھ
ہی آسام کے سیاسی افق پر ایک نیا تالہ آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فورم
اور اس کی کنجی مولانا بدرالدین اجمل کی بھی نمودار ہوئے۔ اے آئی یو ڈی
ایف کو کانگریس کے بعد سب سے زیادہ ۱۸ نشستوں پر کامیابی ملی اوراب وہ
آسام کی سب سے بڑی حزب اختلاف تھی ۔
آسام کی سیاسی بساط پر ایک زمانے تک کانگریس پارٹی ترپ کا اکاّ ہوا کرتی
تھی لیکن جب آسام اسٹوڈنٹس یونین (آسو) نے اپنی سیاسی جماعت اے جی پی بنا
کر انتخاب میں حصہ لیا تو وہ غلام بنادی گئی اور بی جے پی نئے صاحب کی بی
بی بن جانے پر راضی ہوگئی ۔ پرفل کمار یونیورسٹی ہاسٹل سے نکل کرسیدھے
وزیراعلیٰ کی کوٹھی میں پہنچ گئے ۔ صاحب بی بی اور غلام کی اس کہانی میں
دوسراموڑ اس وقت آیا جب ۲۰۰۱ میں کانگریس اچھے دن لوٹ آئے اور وہ
بادشاہ بن گئی اور اقتدارسے محروم اے جی پی کے گلے میں غلامی کا طوق ڈال
دیا گیا۔ ۲۰۰۶ میں کانگریس کی حالت پتلی تھی لیکن پھر بھی سب سے بڑی پارٹی
ہونے کے سبب اس نے بوڈو فرنٹ کو اپنی بی بی بنا کر حکومت قائم کرلی لیکن
اسی کے ساتھ پہلی بار میں ۹ نشستوں پر کامیابی درج کروا کر مولانا بدرالدین
اجمل کی اے یو ڈی ایف غلام کے تیسرے مقام پر فائز ہوگئی۔ اس وقت انتخابی
سیاست پر مٹنے والے مسلمان مولانا اجمل کی کامیابی سے پھولے نہیں سمارہے
تھے ۔ انہیں یقین تھا کہ آگے چل کر قفل کنجی والی یہ جماعت اقتدار کا
دروازہ کھول دے گی ۔
۲۰۱۱ کے انتخابات میں مولانا بدرالدین اجمل نے بڑی چھلانگ لگائی اور اپنے
ارکان کی تعداد میں صد فیصد اضافہ کرلیا لیکن جہاں مولانا کا اضافہ ۹
نشستوں کا تھا وہیں کانگریس کا فائدہ ۲۲ نشستوں کا تھا اس طرح ۷۸ نشستیں
جیت کر کانگریس خودکفیل ہوچکی تھی اور اس کو کسی بی بی کے سہارے کی ضرورت
نہیں تھی ۔ کانگریس کی اس کامیابی سے اے یو ڈی ایف کے’’ دل کے ارماں
آنسووں میں بہہ گئے‘‘۔ ۲۰۱۴ کے قومی انتخاب میں جب مودی جی کی آندھی
آئی تو کانگریس کا خیمہ اکھڑ گیا مگر مولانا نے آسام کی ۱۴ میں سے ۴
نشستوں پر کامیابی درج کروا کر اپنی قوت کا لوہا منوایا۔ کانگریس کی اس
کسمپرسی کی حالت میں اے یو ڈی ایف کو یقین تھا کہ وہ ان کے دروازے پر دستک
دے گی لیکن ترون گوگوئی نے ایسا نہیں کیا ۔مولانا نے سونیا گاندھی کی مدد
سے بھی کانگریس کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن دال نہیں گلی ۔
کانگریس سے مایوس ہونے کے بعد مولانا اجمل نے ازخود کنگ میکر ہونے کا دعویٰ
کردیا ۔ وہ بولے اگر ایک چائے بیچنے والا ملک وزیراعظم بن سکتا ہے تو عطر
بیچنے والا جس کا کاروبار ۳۷ ملکوں میں پھیلا ہوا ہے کنگ میکر کیوں نہیں بن
سکتا؟ مولانا بدرالدین اجمل نے انتخاب سے قبل یہ دعویٰ بھی کردیا تھا کہ
آسام کی اگلی حکومت جو بھی بنائے ان کی مدد کے بغیر نہیں بنا سکے گا۔ اس
شاطرانہبیان میں کانگریس کے علاوہ بی جے پی کی حمایت کا اشارہ موجود تھا ۔
کانگریس نے اس کا فائدہ اٹھا کر اے یو ڈی ایف کو بی جے پی کا درپردہ حامی
قرار دیا اور بی جے پی نے تشہیر کردی کہ مولانا گوگوئی سے ملے ہوئے ہیں اور
انتخاب کے بعد اے یوڈی ایف کے تالے کی چابی کانگریس کے ہاتھ میں ہوگی ۔
مولانا بدرالدین اجمل اگر نائب وزیراعلیٰ نہ سہی تو کم از کم وزیراداخلہ
ضرور بن جائیں گے لیکن ہائے کم بختی بی جے پی اور اس کے حلیفوں کو دوتہائی
اکثریت مل گئی اور گوگوئی کے ساتھ ساتھ مولانا بھی ہاتھ ملتے رہ گئے ۔
ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو بی جے پی کی کامیابی سے زیادہ دکھ مولانا کی
ناکامی پر ہے لیکن شاید آسام کے مسلمان اے یوڈی ایف کی ناکامی پر غمزدہ
نہیں ہیں اس لئے کہ اے یو ڈی ایف کو بی جے پی نے نہیں بلکہ خود مسلمانوں نے
ہرایا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال خود مولانا بدرالدین اجمل کی جنوبی سلمارہ
میں شکست ہے جہاں سے پانچ سال قبل ان کا بیٹا عبدالرحمٰن اجمل کامیاب ہوا
تھا۔ یہ نشست ڈبری پارلیمانی حلقہ کا حصہ ہے جہاں سے کامیاب ہوکر دوسال قبل
مولانا اجمل خود ایوانِ پارلیمان میں پہنچے تھے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
سلمارہ میں کیا انہیں بی جے پی کے امیدوار نے ہرایا ؟ جی نہیں ایسا نہیں
ہوا وہاں پر بی جے پی کا میدوار بھی شکست کھا گیا۔ اچھا تو کیا کانگریس کے
ہندو امیدوار نے مولانا کو شکست فاش سے دوچار کردیا ؟ جی نہیں ایسا بھی
نہیں ہوا بلکہ کانگریس کے ایک مسلمان امیدوار واجد علی چودھری نے مولانا کو
۱۶ ہزار سے زیادہ ووٹ سے ہرادیا ۔
اس کے معنیٰ یہی ہیں کہ مولانا کو مسلمانوں نے ہی مسترد کردیا ۔ سوال یہہے
کہ ایسا کیوں ہوا ؟ اس سوال کے کئی جواب ہیں ۔ اول تو مسلمانوں کو یہ محسوس
ہوا ہوگا کہ بی جے پی کو ہرانے کیلئے صرف مسلمان ووٹ کافی نہیں ہیں اس لئے
کانگریس کے مسلمان امیدوار کو کامیاب کردو ۔ یہ وجہ بظاہر معقول ہے اس لئے
کہ آسام کے مسلمانوں نے پارٹی کے بجائے مذہب کی بنیاد پر ووٹ دیا ۔ یہی
وجہ ہے کہ بی جے پی کی لہر کے باوجود کامیاب مسلم امیدواروں کی تعدادمیں ۲
کا اضافہ ہوگیا۔ اے یو ڈی ایف کے ۱۳ ، کانگریس کے۱۵ اور بی جے پی کے ۲ مسلم
امیدوار کامیاب ہوگئے ۔ بی جے پی کے مسلم امیدوار کی کامیابی پر کسی حیرت
نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ ۲۰۱۱ میں بھی جبکہ بی جے پی کے صرف ۵ امیدوار
جیتے تھے ان میں سے بھی ایک مسلمان تھا ۔ اس طرح بی جے پی کے آنے سے
مولانا تو ضرور خسارے میں رہے لیکن مسلمانوں کی جملہ نمائندگی میں اضافہ ہی
ہوا۔
مولانا بدرالدین اجمل کی ناکامی کی اور بھی وجوہات ہیں مثلاً اگر ان کا
فرزندارجمند عبدالرحمٰن اپنے علاقہ کے رائے دہندگان کی فلاح و بہبود کا کام
کرتا تو انہیں اس کا فائدہ ضرور ہوتا۔ عوام کی یہ رائے ہے کہ خود مولانا کو
بھی اپنے رائے دہندگان کے مسائل کی بہ نسبت اپنا کاروبار بڑھانے میں زیادہ
دلچسپی ہے اس لئے وہ بھی مودی جی کی طرح اکثر غیر ملکی دورے پر رہتے ہیں ۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ وہ اپنی تجارت کے فروغ کیلئے سیاسی رسوخ کا
استعمال کرتے ہیں۔ مولانا کی یہ روش آئندہ ڈبری کے پارلیمانی حلقہ سے بھی
ان کی کامیابی مشکوک کردے گی ۔ مولانا کو چھوٹا بیٹا عبدالرحیم اس بارجمنا
مکھ سے کامیاب ہوگیا ہے لیکن اگر وہ اپنے بڑے بھائی کے نقشہ قدم پر چل کر
رائے دہندگان سے بے اعتنائی برتے گا تو اس کا حشر بھی والد جیسا ہوگا۔
مولانا کا چھوٹا بیٹا تو رکن اسمبلی بن گیالیکن بڑے کی سیاست سے دوری کیوں؟
اس سوال کا جواب ایک اور سوال میں پوشیدہ ہے کہ مولانا نے رکن پارلیمان
ہونے کے باوجود اسمبلی کا انتخاب لڑنے کی زحمت کیوں کی؟ گمانِ غالب تو یہ
ہے چونکہ مولانا کو اس بار ح یقین تھا کہ اسمبلی معلق ہوگی اور ان کی قسمت
کا ستارہ چمکے گا۔انہیں کسی مخصوص جماعت سے پر ہیز بھی نہیں تھا اس لئے وہ
وزارت کی امید میں اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے میدان میں اتر گئے ۔
مگرمہاراشٹر میں جوشرد پوار کے ساتھ ہوا وہی آسام میں مولانا بدرالدین
اجمل کے ساتھ بھی ہوگیا۔ مولانا اگر انتخاب میں کامیاب ہوکر وزیر بن جاتے
تو انہیں پارلیمانی نشست خالی کرنی پڑتی اور اس صورت میں ان کا لائق و فائق
وارث فرزند ارجمند عبدالرحمٰن کے سوا کون ہوسکتا تھا ؟اقرباء پروری کی بابت
ملائم سنگھ یا پرکاش سنگھ بادل ، لالو یادو، کروناندھی اور مولانا اجمل میں
کوئی فرق نظرنہیں آتا اس لئے وہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں-
جس طرح مولانا اجمل کو مسلمانوں نے ہرایا اسی طرحترون گوگوئی کی رعونت پر
خود ان کے اپنے اہوم سماج نے خاک ڈال دل دی ۔اپنے اہوم ہونے پر ناز کرنے
والے ترون گوگوئی کو اس باراوپری آسام میں ۲۲کے مقابلے صرف ۳ نشستوں پر
کامیابی ملی ۔ اگر ترون گوگوئی خود اپنا قلعہ محفوظ رکھنے میں کامیاب
ہوجاتے تب بھی ان کا ایسا برا حال نہیں ہوتا۔ گوگوئی کو سادہ لوح مسلمان
آر ایس ایس کا آدمی کہتے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سربانند سونوال بھی
آر ایس ایس سے نہیں آیا۔گوگوئی پر یہ الزام اس لئے لگتا ہے کہ انہوں نے
نہ تو دس سال قبل مولانا بدرالدین اجمل کو اپنی حکومت میں شامل کیا اور نہ
اس بار اتحاد کیا۔ وہ دراصل دوہرے خوف کا شکار تھے ۔ آسام کے مسلمانوں کی
بہت بڑی تعداد اب بھی کانگریس کے ساتھ ہے یہی وجہ ہے کہ ۲۶کانگریسی ارکان
اسمبلی میں سے ۱۵ مسلمان ہیں ۔ ان کو ایک ڈر تو یہ تھا کہ مسلم ووٹر اگر
مولانا کے ساتھ جائیں تو ہوسکتا ہے لوٹ کر دوبارہ کانگریس میں کبھی نہ
آئیں جیسا کہ اے جی پی کا ہندو ووٹر بی جے پی میں گئےتو وہیں کےہو رہے۔
گوگوئی کو خوف تھا کہ مولانا کے ساتھ اتحاد کے نتیجے میں ان کا ہندو ووٹ
ناراض ہوکر بی جے پی کی جانب نہ چلا جائے۔ ہندو ووٹرکو توگوگوئی کی کبر سنی
اور متبادل کی غیر موجودگی بی جے پی میں لے گئی۔ گوگوئی کو خدشہ تھا کہ اگر
بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرآے تو ممکن ہے مولانا کانگریس کا
پینجہ مروڈ کر بی جے پی کا کمل تھام لیں گے ۔ اس طرح کے اندیشۂ لولاک کا
شکار کانگریسی رہنما کا عبرتناک سیاسی انجام شکیب جلالی کے مشہور شعر کی
مصداق ہے ؎
آ کر گرا تھا ایک پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
آسام کے سیاسی افق سے ترون گوگوئی کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوچکا ہے ۔ اب
اگر کبھی کانگریس کا ستارہ چمکے گا تب بھی اس جھرمٹ میں ترون گوگوئی نہیں
ہوگا ۔ بہت سارے لوگ ملائم اور لالو کی مثال دے کر کہتے ہیں کہ مسلم پارٹی
وہ کیوں نہیں کرسکتی جو سماجوادی یا آر جے ڈی کرلیتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات
ہیں اول تو یہ کہ ان جماعتوں سے دوسرے ہندو خوف نہیں کھاتے اور مسلمان تو
بے خوف ہوکر ان کے ساتھ ہوجاتے ہیں ۔ مسلم جماعتوں کے ساتھ یہ نہیں ہوتا
نیزہندو سماج کو بڑی آسانی سے مسلم جماعت کے خلاف ورغلایا جاسکتا ہے۔ اس
لئے جیسے مسلمانوں کے دور ہوجانے سے سماجوادی یا بی ایس پی ہار جاتی ہے اسی
طرح ہندووں کے ساتھ نہ آنے سے مسلمان پارٹی جیت نہیں پاتی۔
مسلم جماعتوں کی ناکامی کو دو اور وجوہات ہیں اول تو امت کے اندر پایا جانے
والا احساسِ عدم تحفظ دوسرا ملت اسلامیہ ہند کی حقیقت پسندی ۔ مسلمان بیشتر
مواقع پرخودجیتنے کیلئے نہیں بلکہ بی جے پی کو ہرانے کیلئے ووٹ دیتے ہیں ۔
بی جے پی کے سبب جان و مال کے نقصان کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ وہ اسے سبق
سکھانا چاہتے ہیں اور اس کی جانب سے کی جانے والی دلآزاری کا بدلہ لے کر
خوش ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفاداریاں بدلتی رہتی ہیں ۔ جوکوئی بھی
بی جے پی کو ذک پہنچانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے وہ اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں
اور اپنے پرائے میں تفریق نہیں کرتے۔ اس موقع پر عام مسلمان کی حقیقت پسندی
اس کے کام آتی ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں میں کوئی بھی ان کا
اپنا نہیں ہے۔ ہر کسی کے نزدیک اس کا اور اس کے اہل خانہ کا مفاد مقدم ہے
پارٹی کا نمبر بعد میں آتا ہے اور امت کا نمبر تو آتا ہی نہیں ہے۔ ساری
سیاسی جماعتیں بشمول مسلم جماعتوں کے (الاّ ماشاءاللہ) اقرباء پروری کے مرض
کا شکار ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر رہنما جب اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر
دیکھتا ہے تو اسے اپنا ک والی و وارث سوائے قریبی رشتے دار کے کوئی اور
نہیں نظر آتا ۔
مسلمان اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ سیاست فی الحال اپنا خاندانی بزنس
یا ذاتی تجارت میں بن چکی ہے ۔ کہیں گاندھی خاندان کی سربلندی کیلئے تو
کہیں مودی جی خدمت میں ساری پارٹی جٹی ہوئی ہے۔ اس لئے ان سے کوئی توقع
کرنا فضول ہے ۔ انتخاب صرف اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک موقع ہے ۔
مسلمان ہی نہیں ہندو بھی یہی سمجھتے ہیں ۔ کیرالہ میں وہ ہر ۵ سال میں اہل
اقتدار کو سبق سکھاتے ہیں ۔ تمل ناڈو میں بھی یہی کرتے تھے لیکن اس بار
متبادل کی عدم موجودگی میں انہوں نے گریز کیا ۔ دوسرے علاقوں میں بھی یہ
عمل ہوتا رہتا ہے فرق یہ ہے کہ کبھی انہیں متبادل نہیں ملتا اور کہیں ان کے
صبر کا پیمانہ پانچ سال کے بجائے دس پندرہ سال بعد لبریز ہوتا ہے۔
ملک میں آج کل علاقائیت کا بول بالا ہے اس لئے صوبائی انتخاب میں جہاں دو
مضبوط علاقائی جماعتیں ہوتی ہیں قومی جماعتیں بے دست وپا ہوجاتی ہیں ۔ جہاں
ایک جانب قومی اور دوسری طرف علاقائی جماعت ہوتی ہے ریاستی وقار کا مسئلہ
اچھال دیا جاتا ہے اور لوگ قومی جماعت کے مقابلے علاقائی پارٹی کو ترجیح
دیتے ہیں ۔ ملک کے کئی صوبوں میں یہ ہوچکاہے ۔ آسام میں بی جے پی نے بڑی
چالاکی سے اے یو ڈی ایف کو پردیسی مہاجرین کی جماعت اور خود کو آسامی وقار
کامحافظ بناکر پیش کیا۔ہندووں کو ڈرایا کہ اگر مولانا بدرالدین اجمل یا
کانگریس اقتدار میں آگئی تو بہت جلد آسا م میں بنگلہ دیشی مسلمان اکثریت
میں ہو جائیں گے ۔ اس طرح گویا اے جی پی کے ساتھ بی جے پی نے خودکو بھی
علاقائیت کا علمبردار بنادیا۔ مولانا بدرالدین علاقائیت کے بجائے فسطائیت
کا کارڈ کھیلتے رہے اس لئے اسے زیر نہ کرسکے۔ جب تک ان کی جماعت اے جی پی
کی مانند علاقائی جماعت نہیں بن جا تی وہ فسطائیت کی بنیاد پر ہندووں کو
اپنے ساتھ نہیں کرسکتے اس لئے کہ مسلمانوں کی طرح عام ہندو فسطائیت کو اپنے
لئے خطرہ نہیں سمجھتا ۔
انتخابی سیاست میں اصول و ضوابط کے علاوہ انسانی نفسیات کا بہت کردار
ہوتاہے ۔ اس کا پاس و لحاظ کئے بغیر کوئی فرد یا جماعت اس کھیل میں کامیاب
نہیں ہوسکتی۔ آسام کے انتخابی نتائج اس بات ثبوت ہیں کہ مولانا بدرالدین
اجمل اس بارکانگریس اور بی جے پی تو درکنار مسلم اور ہندو رائے دہندگان کی
نفسیات کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں ۔ مولانا کی پارٹی کا نشان قفل اور
کنجی ہے ۔ ایک زمانے تک ایک تالے کی ایک یا زیادہ سے زیادہ دو چابیاں ہوا
کرتی تھیں اور جب وہ کھو جاتی تھی تو نئی چابی بنانے کیلئے اچھی خاصی زحمت
اٹھانی پڑتی تھی لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔جدید تالے دروازوں سے نہیں لٹکتے
۔ ان کو بند کرنے کیلئے چابی کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ دروازے کے بند ہوتے
ہی وہ اپنے آپ بند ہوجاتے ہیں اور کارڈ نما الیکٹرونک چابی کی مدد سے مس
کرتے ہی کھل جاتے ہیں ۔ ان چابیوں کو بنانے میں کوئی محنت لگتی۔ کمپیوٹر کی
مدد سے کوڈنمبر ڈالتے ہی انگنت چابیاں ’’کلون‘‘ کی مانند بن کر تیار ہوجاتی
ہیں ۔ مولانا کو اپنے تالے اور چابی کی جدید کاری کا کام اولین فرصت میں
کرنا ہوگا ورنہ وہ بن تالے کی چابی لے کر مارے مارے پھرتے رہیں گے اور ان
کی حالت اس شعر کی مانند ہو جائیگی کہ؎
اپنے آپ کو کوس رہا ہوں، گھور رہا ہوں تالے کو
الماری میں بھول گیا ہوں پھر چابی الماری کی
|