بجٹ سے لگی امیدیں ۔۔۔۔؟؟؟

سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں بیٹھے اعلیٰ افسران سے لے کر کلاس فورتک، چوراہے میں ریڑھی لگائے ریڑھی بان سے لے کر کاشت کار و زمیندار تک، مزدور سے لے کر فیکٹری مالکان تک، حتی کے ہر عام و خاص اور ہر اعلیٰ و ادنی کو ہر سال ماہ ِ جون کا امید و قیاس کے ساتھ بڑی بے صبری کے ساتھ انتظار رہتا ہے کہ شایداب کے سال ان کو کوئی اچھی نوید سنائی جائے جس سے ان کے حالات میں بہتری آئے۔ملک ِ خداداد ِ پاکستان کی عوام کی اگر رائے لی جائے تو مزدور و ملازم پیشہ افراد اور سرمایا دار دونوں الگ الگ پارٹیوں کی تعریف کرتے ہوئے دو ٹولیوں میں نظر آتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں ہونے والے بجٹ ملازمین کے لیے بہترین بجٹ ثابت ہوتے ہیں اور ملازمین اس اعتبار سے پارٹی کی تعریفیں کرتے ہیں اور اس پارٹی کی حمایت کرتے ہیں مگر لگے ہاتھوں اگر سرمایا داروں یا فیکٹری مالکان کی ٹولی کا سروے کیا جائے تو وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

بجٹ میں اگرچہ جو ہلکی سے ہلکی مہنگائی کا تناسب بھی رکھا جائے تو اس کا اطلاق جلد از جلد اور ہنگامی بنیادوں پر اس قدر کر دیا جاتا ہے کہ عام آدمی کی تنخواہ میں ہونے والے اضافے سے دو گناہ زیادہ کر دی جاتی ہے جس کو دیکھتے اور بھانپتے ہوئے عام آدمی بجٹ کے مہینے کو قصائیوں کے نئے نرخوں کا مہینہ کہتے ہیں کہ اس میں مزید مہنگائی ہو نے والی ہے۔ اور وہ اس مہینے کے خوف و خطر سے انتہائی گھبرائے ہوتے ہیں کیونکہ اس ماہ میں اکثر گرمی بھی اپنے جوبن دیکھا رہی ہوتی ہے اور اوپر سے بجٹ کی ہونے والی تقریب ماحول میں زیادہ گرمی کی کیفیات پیدا کر دیتی ہے۔

ہم لوگ ایک متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے عام پاکستانی ہیں، بمشکل دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر کے اپنے رب خداو ند عزوجل کا شکر کرتے ہیں ، ہم جیسے غریب لوگوں کے خواب بھی چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں جو کہ اعلیٰ حکام کی نظر میں تو رائی کے دانے کے برابر ہیں مگر ہر سال ہونے والے بجٹ میں ان رائی کے دانوں کے نرخوں کو بڑھا کر کوہ پیماہ کے پہاڑی سلسلہ کی طرح طوالت دی جاتی ہے، ہمارے خواب اور ہماری ضرورتیں کیا ہوتی ہیں آسانی سے عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی، رہنے کے لیے پر سکون چھوٹا سا دو کمروں کا مکان، سستے نرخوں میں گیس، بجلی و پانی کی فراہمی، اولا د کے لیے مساوی تعلیم، علاج کے لیے سستا اور آسان طریق علاج، تعلیم کی تکمیل کے بعد میرٹ کی بنیاد پر نوکری کا ملنا۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔مگر ہمارے بجٹ میں ہمارے ان چھوٹے چھوٹے مسائل و توجہات کی طرف تو نظر جاتی تو ہے مگر اس نظر کو آنکھ کادھوکہ سمجھ کر اس سے رو ح گردانی کر کے نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اور ہم کو ایک نئی امیدیں دے کر نئے آئندہ مالی سال میں بہتری کی نوید سنا کر خوش کر دیا جاتا ہے اور ہم بھی بڑی نادانی کے ساتھ اس نوید کو سن کر امیدیں لگا بیٹھتے ہیں مگر یہ بھول جاتی ہیں کہ "ہم دل تو لگا بیٹھے ۔۔۔دل توڑنے والوں سے"۔

قرضے لے کر ملک چلایا جاتا ہے مگر اپنے وسائل کو اپنے مفاد کی خاطر نہیں استعمال کیا جاتا ، اور ان ہی قرضوں کو اتارنے کے لیے ہمارے اوپر ٹیکسوں کی شکل میں بھاری بھرگم بوجھ لاد کر مہنگائی کی دلدل میں دھنسیل دیا جاتا ہے اور یہ مہنگائی کی دلدل اس قدر خطرناک ہوتی ہے کہ جس میں دن بدن آدمی دھنستا ہی چلا جاتا ہے۔ اور اس میں سے وآپسی کی کوئی لہر نظر نہیں آتی ۔ ہم کو چاہیے کہ ہم اپنے وسائل کو بغیر کسی مفاد کے استعمال کریں اور اپنے ملک کی پیدوار اور معدنیات کے اوپر توجہ دیں تو ہم خود بغیرکسی سے بھیگ مانگے خود کفیل ہو کر اپنے ملک کے اندر ایک بہتری اور غربت کو ختم کرنے کے لیے سدباب کر سکتے ہیں ، مگر یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سب کرے گا کون۔۔۔؟؟؟ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گاکون۔۔۔؟؟؟غربت ختم کرے گا کون۔۔۔؟؟؟ قرضے ادا کرے گا کون۔۔۔؟؟؟یہ وہ سوال ہیں جو کہ ہم سب پاکستانی ہر وقت اپنے آپ سے کرتے ہیں مگر ان کے جواب کے لیے ہم خود کچھ نہیں کرتے تو کیا کوئی اور خاک ہمارے ان سوالوں کا جواب دینے کے لیے تیا ر ہو گا۔۔۔ذرا سوچو۔۔۔!!!
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 191269 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More