بجٹ کیا ہے؟ عوام تیار رہیں!
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
قانون کے مطابق حکومت کو ہر سال بجٹ پیش
کرنا ہوتا ہے جس میں وہ پورے سال کیلئے مختلف سکیموں اور آشیاء خوردونوش
سمیت مختلف چیزوں کی قیمتوں کا تعین کرتی ہے ۔ حکومت عوامی فلاح کو مد نظر
رکھتے ہوئے ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل کردیتی ہے۔ بعض آشیا ء پر نئے ٹیکس
لگائے جاتے ہیں جبکہ بعض پرٹیکس چوٹ یا سبسڈی دی جاتی ہے تاکہ عوام کو
روزمرہ آشیاء کی خریدنے میں مشکلات نہ ہو یا مہنگائی کو اس طرح کنٹرول کیا
جاسکے ۔ پاکستان میں نیا فنانشل ائیر یعنی اقتصادی سال یکم جولائی کوشروع
ہوتا ہے جواگلے سال کے تیس جون تک چلتا ہے یعنی حکومت کا نیاسال یکم جولائی
سے شروع ہوتاہے اور اگلے سال کی تیس جون تک چلتا ہے جس میں متعلق بجٹ ختم
کرناہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی بجٹ جون کے مہینے میں پیش کیا جاتاہے جس پر
اسمبلیوں میں بحث ہوتی ہے۔ کچھ کم وزیادہ کرکے بجٹ حکومت منظور کرا لیتی ہے۔
اسی طر ح صوبائی اسمبلیاں بھی اپنی تر جیحات کے مطابق بجٹ پیش کرتی ہے۔اب
آئین وقانون کے مطابق تو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ جو بجٹ میں منظور ہو جن
پروجیکٹ کیلئے رقم مختص کی گئی ہو ان پروجیکٹ پر رقم خر چ ہونی چاہیے لیکن
ہمارے ملک میں عوام بجٹ کو حکومت کی طرف سے ایک مہنگائی کا بم سے موازنہ
کرتے ہیں کہ بجٹ کانام مہنگائی کانیا طوفان اور ٹیکسوں میں اضافہ ہے ۔حکومت
آئین وقانون کے مطابق بجٹ تو جون میں پیش کرتی ہے لیکن یہاں پر حکومت کی
طرف سے ہر ماہ نیا بجٹ آتا ہے۔ حکومت اپنی سیاست کے مطابق بجٹ سے ہٹا کر
ترقیاتی اعلانات اور وعدیں کرتی ہے۔ایک پروجیکٹ کا پیسہ دوسرے پروجیکٹ میں
خرچ کرتی ہے۔ ٹیکسوں میں اضافہ حکومت جب چاہے اپنی مرضی سے کرتی ہے۔ حکومت
اپناخسارا پورا کرنے کیلئے سالانہ بجٹ کے علاوہ مختلف مد میں ٹیکس چوٹ ختم
کرتی ہے یا نئے ٹیکس لگادیتی ہے۔ میرے خیال میں پاکستان دنیا کا واحد
جمہوری ملک ہوگا جس میں صرف حکومت ہی سیاہ وسفید کی مالک ہوتی ہے ،
اسمبلیوں کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اپوزیشن برائے نام ہوتی ہے۔ حکومت
اسمبلی سے کوئی بڑاسکیم یا پروجیکٹ سمیت اہم مسئلے کو اسمبلی میں ڈسکس کرنا
اپنی توہین سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو جمہوریت اور آمریت میں کوئی
فرق نظر نہیں آتا۔ جمہوریت کامطلب عوامی حکومت ہے جس میں عوام کے فلاح
وبہبود کیلئے کام کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں جمہوری حکومت عوام کے
مشکلات میں اضافے اور اپنے ترجیحات اور فائدے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔
موجودہ حکومت نے گزشتہ ایک سال کے دوران مختلف اشیاء کی ٹیکسوں میں اضافہ
کیا اور اس کو نہ پہلے بجٹ میں رکھا گیا تھا اور نہ ہی بعد ازاں اسمبلی سے
منظور کرایا۔اس کی ایک مثال ہمارے سامنے ٹول پلازوں کی ٹیکس کا ہے جس میں
حکومت نے پہلے کے مقابلے میں دوگنا اضافہ کیا ہے یعنی جو ٹیکس ایک گاڑی یا
ڈرائیور سو روپے ادا کرتا تھا اب وہ دوسو روپے ادا کرتا ہے لیکن ان سے
پوچھنے والا کوئی نہیں جس کا اثر آخرمیں مہنگی کرایے کے شکل میں گاڑی کے
مالکان ، بس اور ٹرک ڈرائیور ادا کرتے ہیں اور اس کا بوجھ عام آدمی پر پڑ
جاتا ہے۔اس طرح سو روپے کارڈ میں پچاس روپے ٹیکس موبائل کارڈمیں کچھ ایڈونس
اور کچھ کال کرنے پر ہر آدمی اد ا کرتا ہے جو انتہائی ظلم و زیادتی ہے۔ اس
طرح دیکھا جائے تو ان ڈائریکٹ ٹیکس اور سیلز ٹیکس ہر پاکستانی روزانہ ہر
چیز میں ادا کرتا ہے۔ یہ وہ ٹیکس ہوتا ہے جو حکومت نے ہر چیز پرلگایا ہے
یعنی پچاس روپے کی دوائی کا بوتل ہویا بسکٹ اورٹافی کا پیکٹ اس میں پانچ چھ
روپے ٹیکس آپ سے لیا جاتا ہے جو پروڈکٹ سیل ہونے کے بعد کارخانہ دار حکومت
کو ادا کرتا ہے۔یہ ٹیکس آپ سے لیا جاتاہے اور بعد ازاں کارخانہ دار ادا
کرتاہے یہ وہ ٹیکس ہے جس کا ذکر وزیراعظم میاں نواز شریف نے اسمبلی میں
تقریر کے دوران کیا کہ ان کے خاندان نے گزشتہ پچیس سال کے دوران اٹھ ارب
روپے ٹیکس ادا کیا ہے یعنی میاں نواز شریف کا احسان ہے کہ جو ٹیکس ہم نے ان
کو سیلز ٹیکس کی صورت میں ادا کیا تھا وہ انہوں نے حکومت کو ادا کیا اس پر
ان کو فخر ہے کہ ہمارے پورے بزنس نے اتناٹیکس ادا کیا جب کہ ذاتی انکم ٹیکس
غالباً چھ سات کروڑ روپے ہی ادا کیاہے ۔ان کے مقابلے میں جانگیر ترین نے
صرف ایک سال میں ذاتی انکم ٹیکس 27کروڑجبکہ بزنس کا87کروڑ ایک سال میں ادا
کیا ان میں سیلز ٹیکس شامل نہیں ہے۔ وزیراعظم کے خطاب اورسیلز ٹیکس کے ادا
کرنے پر مجھے شک پڑ گیا ہے کہ سیلز ٹیکس سرمایہ دار عوام سے تو لیتے ہیں
لیکن آگے حکومتی خزانے میں جمع نہیں کرتے ہوں گے۔بحرکیف اس ملک میں خوار
صرف غریب اور عام آدمی ہے لیکن ایک بات حقیقت ہے کہ اس ملک کولوٹنے والے
اگر عوام اور حکومت کو جوابدے نہیں ،کم ازکم اﷲ تعالیٰ ایک دن پورا حساب لے
گا اور کفن میں جیب بھی نہیں ہے کہ یہ لوگ اپنی کھر بوں کی لوٹ مار اور
کرپشن کا پیسہ اپنے ساتھ قبر میں لے جائیں۔
حکومت اپنی چوتھی بجٹ تین جون کو پیش کرنے جارہی ہے جس کا حجم تقر یباً
پانچ ہزار ارب ہوگا جس میں عوام تیار رہیں تقر یباً 150ارب روپے کے نئے
ٹیکس لگائے جائیں گے جبکہ پہلے سے دی گئی سبسڈی بھی ختم کی جائے گی یعنی
مجموعی طور پر 280ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیے جائیں گے جس میں روزمرہ
اشیاء کے علاوہ تقریباً ہر چیز مہنگی ہوجائے گی ۔ پہلے سے مشکلات اور تکلیف
میں مبتلا لوگوں کی غم اوردرد میں مزید اضافہ ہوگا ۔ وزیر اعظم سمیت حکومت
اہلکار تو اپنی کھربوں روپے پر ٹیکس تو ادا نہیں کرے گی لیکن غریب لوگوں پر
ان ڈائر یکٹ ٹیکس یعنی سیلز ٹیکس میں مزید اضافے سے مہنگائی کانیا طوفان
آئے گا۔حکومت نے پہلے تین بجٹ میں عوام کے صحت ،تعلیم اور روزمرہ زندگی کو
آسان بننے کیلئے کیا کام کیا ہے کہ ہم اب امید رکھیں کہ اس دفعہ کا بجٹ
ماضی سے بہتر ہوگا ۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی حکومت کاعرصہ جو اب دوسا ل
ہی رہ گیاہے باآسانی پورا کرے تا کہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں ۔موجود حکومت
نے اپنے مہنگے پروجیکٹ کو پورا کرنے کیلئے جہاں پر ملک کی تاریخ میں مہنگے
قرضے لیے وہاں پر قرضوں میں صرف تین سال میں زرداری حکومت کی پانچ سال دور
سے زیادہ قرض لیا گیا ہے جس کو پورا کرنا آئندہ حکومتوں کیلئے انتہائی مشکل
کام ہوگا۔حکومت عوام کیلئے کچھ بھی نہ کرے صرف ایک مہربانی کرے کہ نئے ٹیکس
نہ لگائے اور قرضہ لینا بند کرے یہ عوام اور اس ملک پر مہربانی ہوگی ۔
|
|