یہ بگڑے ہوئے لوگ

جوگروہ منتخب حکومتوں کے خلاف ہتھیار اٹھالیں۔ان کا یہی نام ہوسکتا ہے۔کچھ حضرات ان کے لئے ـ"گمراہ"کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ان کے نام القاعدہ،پاکستانی طالبان،افغان طالبان،داعش اور حزب التحریر معروف ہیں۔عالمی سطح پر اور بھی بہت سے گروہ اپنے آپ کو منظم کرکے باطل کے خلاف جہاد پر نکلے ہوئے ہیں۔ملکوں کے اندر قتل و غارت گری ان کا واحد مقصد ہے۔وہ آئینی اور قانونی طورپر قائم حکومتوں کوگرانے کے لئے متعلقہ ملکوں کی پولیس اور فوج پر لگاتار ایک لمبے عرصے سے حملے کرتے چلے آرہے ہیں۔نہتے شہری بھی لاکھوں کی تعداد میں ان کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں۔مسلمانوں کے اندر یہ دور جدید کا ایک بڑا فتنہ بن چکا ہے ۔صرف اور صرف پاکستان آرمی نے آہنی ہاتھوں سے ان پر قابو پایا ہے۔کچھ نہ کچھ عناصر ابھی بھی ملک میں موجود ہیں۔یہ بھی بچ نہیں سکیں گے۔ہماری مسلح افواج نے ان کے خاتمے کا مکمل عزم کیاہوا ہے۔ہماری بد امنی کی ایک بڑی وجہ ہمارا ہمسایہ افغانستان ہے۔جہاں37سال سے لڑائی جھگڑے جاری ہیں۔اب یہاں کچھ عرصے سے ایک آئینی حکومت قائم ہے۔لیکن وہاں کے طالبان اس کے خلاف سربکف ہیں۔ان کے امیر ابھی21۔مئی کو پاکستانی علاقے بلوچستان میں مارے گئے ہیں۔یہ عجب امیر تھاجو اپنا نام بدل کر،علاقہ اور ملک بدل کر مختلف ملکوں میں آتاجاتا تھا۔جعلی شناختی کارڈ،جعلی پاسپورٹ اور پاکستانی انتخابی فہرستوں میں اپنا جعلی نام۔کیا اس طرح کے لوگ حکومت الاہیہ کے اہل ہوتے ہیں۔ہم پاکستانیوں کو حکومت وقت کی خارجہ پالیسی بالکل سمجھ نہیں آرہی۔جب سے موجودہ افغان حکومت برسراقتدار آئی ہے۔ہمارے سول اورمسلح افواج کے سربراہان کئی دفعہ وہاں کے سرکاری دورے کرچکے ہیں۔ان دوروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم افغانستان کی موجودہ حکومت کو آئینی حکومت اور افغانستان کا واحد Stake Holderسمجھتے ہیں۔تو پھر جب ملا منصور ایک ڈرون حملے میں مارا گیا تو دفتر خارجہ پاکستان کو5۔دن تک چپ کیوں لگی رہی؟۔اشرف غنی اور بارک اوبامہ نے بھی کہہ دیا کہ افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور مارے گئے ہیں۔ہمیں آخر اعلان کرنے میں کیوں ہچکچاہٹ رہی۔اس موقع پر پاکستان میں ایک ماثر ،مدبر اور متحرک وزیر خارجہ کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ایک ایسا وزیر خارجہ جسے پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنے کا مکمل اختیار ہو۔اسے کہیں سے بھی ہدایات لینے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی ہو۔ہم نے اپنے پاکستانی طالبان گروہوں پر بڑی جدوجہد اورقربانیوں کے بعد قابو پایا ہے۔اب ہم افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے بارے کیوں ہلکان ہورہے ہیں۔اگر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک اشرف غنی حکومت سے امن مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تو کیا ہم ان تمام کو گردن سے پکٹر کر زبردستی مذاکرات کی میز پر بٹھائیں گے۔اپریشن ضرب عضب شروع کرتے وقت یہ طے ہوگیاتھا کہ ہمارے لئے تمام طالبان برابر ہیں تو اب ہم حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے لئے یہ کیوں کہہ رہے ہیں "ہم ان پر کچھ اثر رکھتے ہیں"اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ ہم نے حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی علاقوں سے بھاگنے میں سہولت فراہم کی۔یافاٹا سے نکل کر Settled areasکی طرف جانے دیا۔کیا افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے مقاصد میں کچھ فرق پایا جاتا ہے۔دونون گروہ جمہوری حکومتوں کے خلاف ہیں۔توپھر یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی پاکستان کیوں کوشش کررہا ہے؟۔محترم نثار صاحب کا یہ کہنا کہ ملا اختر منصور کو قتل کرکے افغانستان میں امن کے امکانات کو ختم کردیا گیا۔اس کہنے میں کنفیوژن محسوس ہوتاہے۔لڑتے ہوئے افغان طالبان کی اب یہ دوسری نسل ہے۔یہ لمبا عرصہ ان کا اسی کام میں گزر گیا ہے۔لڑنا اب ان کی زندگی کاکلچر بن گیا ہے۔ایسے گروہوں جواب دنیا کے کئی علاقوں میں پائے جاتے ہیں ان کو صرف 2۔اشیاء خوراک اور اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ دونوں اشیاء ایسے گروہوں کوناجائز یا جائز طریقے سے ملتی رہتی ہیں۔افغان طالبان کو لڑنے کے لئے ملک کے اندر سے ہی ایک دوسرا دشمن داعش کی شکل میں بھی مل گیا ہے۔یک نہ شد دوشد ۔اب پاکستان کو خوابوں کی دنیا سے نکل آنا چاہیئے۔ہم افغانستان کے امن عمل میں کوئی کردار ادانہیں کرسکتے۔اب تک بہت سی کوششیں ہوچکی ہیں۔کہیں بھی کامیابی نہیں ہوئی۔امریکی حکومت،افغان حکومت اور افغان طالبان یہ اپنے مسائل خود حل کریں۔افغانستان کے اندر پاکستان کی حامی حکومت کے لئے ہم90۔کی دہائی کے شروع سے ہی کوشش کررہے ہیں۔جنرل ضیاء الحق مرحوم بھی80۔کی دہائی کے آخر میں تمام مجاہد گروہوں کو اپنے سامنے بٹھا کر افغان حکومت کے لئے سمجھوتہ کرانے کی کوشش کیاکرتے تھے۔ایک دفعہ مجاہد لیڈروں میں اونچی آواز سے تکرار ہورہی تھی۔جنرل صاحب کو آنکھوں میں آنسو لا کر انہیں خاموش کرانا پڑا۔تمام مجاہد گروہ تخت کابل کے لئے سالہا سال لڑتے رہے۔کابل کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ان مجاہدوں کی آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے ختم ہوگیا تھا۔شہر ملبے کا ڈھیر بن گیاتھا۔کابل کی بربادی میں حکمت یار کابھی بڑا حصہ تھا۔آخر میں اگر طالبان نامی گروہ نے کابل پر قبضہ کیاتھا تو انہوں نے بھی خون کی ندیاں بہائی تھیں۔اور مزار شریف جہاں طالبان مخالف عقائد کے لوگ بستے تھے۔گلیاں واقعی سرخ ہوگئی تھیں۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کیا کرے؟۔پاکستان صرف اور صرف اپنا گھر درست کرے۔اعلان کردیاجائے حکومت پاکستان آئندہ کسی بھی امن امل میں شریک نہیں ہوگی۔ہماری توجہ 3۔کاموں کی طرف ہونی چاہیئے۔

پہلا بہت ہی ضروری کام پاکستان۔افغانستان کے باڈر کی انتظام کاری ہے۔یہ مسام دار باڈر7۔دہائیوں سے ہمارے لئے بے شمار مسائل کا سبب بنا ہوا ہے۔لوگ ایک دوسرے ملک میں آسانی سے آجارہے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کے ساتھ دہشت گرد گروہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ابھی ابھی ہماری ایجنسیوں نے کوئٹہ کے قریب پشتون آباد سے چھ ٹارگٹ کلر اور دھماکہ کرنے والے پکٹرے ہیں۔اسلام آباد اورراولپنڈی میں بھی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔اب ہمیںDurand lineکو بین الاقوامی سرحد کی طرح بند کرنا چاہیئے۔افغانستان نہیں کچھ کرناچاہتا نہ کرے۔ہمیں پاکستانی علاقے میں مضبوط اونچی اور خطرناک تارلگانا چاہیئے۔چند دن پہلے ایک دوست نے یہ بھی تجویز دی تھی۔کہ ہمیں ڈیورڈ لائن کے پاکستانی علاقے میں ایک چوڑی خندق کھودنی چاہیئے۔اور اسے پانی سے ہروقت بھرے رہنا چاہیئے۔خندق ایسے علاقوں میں تو کھودی جاسکتی ہے جو پہاڑی علاقے نہیں ہیں۔اس وقت پوری باڈر پر طورخم سے لیکر چمن تک آٹھ قانونی راستے ہیں۔ان کی تعداد گھٹا کر نصف کردینی چاہیے۔اور انکی کڑی نگرانی ہونی چاہیئے۔اس مسٔلہ کے لئے باڈر انتظام کاری کے ماہرین کی میٹنگ ہونی ضروری ہے۔اس کے علاوہ اور طریقے بھی اختیار کرنا ضروری ہیں۔افغانستان اگر اس میں تعاون کرے تو پھر یہ کام بہت ہی آسان ہے۔پاکستان کو کسی اپنی حامی افغان حکومت کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے۔موجودہ وفاقی بجٹ میں سرحدی انتظام کاری کے لئے وسائل مختص کئے جائیں۔دوسرا ضروری کام وہی ہے جوسرفراز بگٹی وزیر داخلہ بلوچستان نے بڑی جرات سے کرنے کے لئے کہا ہے۔آخر مہاجرین کاکوئی نہ کوئی عرصہ توہوتا ہے۔25تا30لاکھ افغانیوں کو اب ہمارے ملک میں ڈیرے ڈالے تقریباً37۔سال ہوگئے ہیں۔انکی واپسی پاکستان کے امن کے لئے ضروری ہے۔یہ لوگ کیمپوں سے نکل کر پورے ملک میں پھیل چکے ہیں۔ایک اونچے لیول کی میٹنگ میں اس پر تفصیلی غور ہونا چاہیئے اور تمام افغان جو1979ء کے بعد یہاں آئے ہیں۔انہیں اب واپس جانا چاہیئے۔افغانوں کی یہاں 2۔نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں۔ایران کے سفیر نے بھی افغانوں کی واپسی کی بات جرات سے کی ہے۔یہ کام رمضان شریف کے بعد شروع ہونا ضروری ہے۔تیسرے کام کا حکم چوہدری نثار صاحب نے خودکردیا ہے۔وہ تمام افغانی لوگ جنہوں نے پاکستانی شناختی کارڈ اور دوسرے کاغذات بنائے ہیں۔یہ کینسل ہونے چاہیئے۔اگر افغان طالبان کے امیر نے یہ کام کیا ہوا تھا تو دوسری سطح کے لیڈر شپ نے بھی یہ کام کیاہواہوگا،عام افغانی بھی پیچھے نہیں رہے ہونگے۔نادرا کی کمزوریاں بہت واضح نظر آتی ہیں۔ہمیں اپنا گھر درست کرنا چاہیئے۔پاکستانی طالبان کی طرح افغان طالبان بھی بگڑے ہوئے لوگ ہیں ان سے امریکہ اور افغان حکومت جیسے چاہیں نپٹیں۔ہمیں اپنے ملک سے طالبان راہنماوں کو بھی نکا دینا چاہیئے۔ہماری کوشش یہ ہو کہ ہم اپنے ہاں سے تمام افغانوں کو نکالیں۔کسی کو بھی ڈیورڈ لائن عبور نہ کرنے دیں۔صرف اور صرف پاسپورٹ کے حامل لوگ ہی سرحد پارکرسکیں۔بگڑے ہوئے افغانی طالبان کو سدھارنے کی پاکستان کو ذمہ داری نہیں لینی چاہئے۔پاکستان یہ کام نہ پہلے کرسکا ہے اور نہ آئندہ کرسکے گا۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55177 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.