پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل

آپ نے کسی بھی ملک میں قائم جمہوریت کے مستقبل کا اندازہ لگانا ہوتو آپ کوتین باتوں کو مدنظر رکھنا پڑیگا اُس ملک میں قائم سیاسی جماعتوں کے اند ر جمہوریت ،سیاسی کلچر اور نظریات ، سیاسی جماعتوں کے قائدین کا جمہوری طرز عمل، اخلاق،کردار، سیاسی بصیرت، ایمانداری، عوام کے ساتھ اُن کی کمٹمنٹ، سچائی،ویژن ،خیالات ،سوچ ، عوام کی ترجیحات کا درست تعین اور ملک کے ساتھ وفاداری اور تیسرا اور سب سے اہم نقطہ اُس ملک میں رہنے والی عوام کا سیاسی شعور کسی بھی ملک میں جمہوریت کے کامیاب ہونے یا نہ ہونے میں سب سے اہم کردار عوام کا ہوتا ہے کیونکہ عوام جمہوریت کی بنیاد ہیں اور اگر بنیاد مضبوط ہو تو جمہوریت کا مستقبل روشن اور اگر بنیاد ہی کمزور ہو تو پھر گھپ اندھیرا۔

پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان میں قائم سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالیں تو ماسوائے جما عت اسلامی کے تمام سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نا پید ہی نظر آئے گی تمام سیاسی جماعتیں مالکانہ حقوق کے قانون کے تحت ہی چل رہی ہیں سیاسی جماعتوں کی باپ سے بیٹے اور بیٹی ، بیوی سے شوہراوربیٹے کو منتقل ہوتی وراثت،بادشاہت کے طرز پر چلتی سیاسی جماعتیں،نااہل افراد کو ٹرانسفر ہوتی سیاسی جماعتوں کی ملکیت اور مالکان میں قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان بھی جمہوریت میں بگاڑ کا سبب ہے سیاسی جماعتوں میں اس طرح کا سیاسی کلچر پروان چڑھا دیا گیا ہے کہ متوسط طبقے کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے سیاسی جماعتوں میں ان کے مالکان سے اختلاف کرنا شیر کے منہ میں ہاتھ دینے کے برابر ہے اور جو اختلاف کرنے کی جسارت کرتے ہیں اُن کو ایاز امیر، مخدوم جاوید ہاشمی ، راجہ محمد افصل خان اور جسٹس (ر) وجہیہ الدین احمد کی طرح نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور سیاسی نظریات کے کیا کہنے اس ملک میں سیاسی نظریات تو دو وزارتوں، کشمیر کمیٹی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی چئیرمینی کے نیچے ہی دب کر مر جاتے ہیں سیاسی جماعتوں کے قائدین کے جمہوری طرز عمل کی بات کریں توجمہوری دور میں سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملہ ان کے جمہوری طرز عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے ان کے اخلاق کی بات کریں تودماغوں میں ان کی تو تکار گھومتی ہے کردار کی بات کریں تو سیتا وائٹ کا چہرہ نظروں کے سامنے آ جاتا ہے ان کی سیاسی بصیرت کا سُوچے تو ان کی نادانی کے سبب ملک پرآمریت کے منڈلاتے سیاہ بادل دل کود ہلا دیتے ہیں ان کی ایمانداری کی بات کریں تو سوئس آکاؤنٹ، فرانس کے محلات،مے فئیر آپارٹمنٹ دماغ کی چولیں ہلا دیتے ہیں عوام اور ملک کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ پر غور کریں تو پاناما میں ڈبکیاں لگاتے ان کے چہرئے ہوش اڑا دیتے ہیں ان کی سچائی کے بارئے میں بات کریں تو ان کے عوام سے بولے گئے جھوٹ کانوں کے پردئے پھاڑ دیتے ہیں ان کی دوراندیشی،خیالات اور سُوچ کے بھی کیا کہنے بھاشن سُنوں تو طرم خان اور عملی طور پر زیرو، عوام کی ترجیحات کا تعین تو قابل تعریف بھی ہے اور قابل فخر بھی تھر میں بھوک سے مرتے بچوں کو روٹی چاہیے اور یہ اُن کو اُورنج ٹرین کاتحفہ دیتے ہیں تعلیم کی سہولیات چاہیے تو یہ میٹرو ٹرین کے خواب دکھا دیتے ہیں غریبوں کو سر ڈھانپنے کے لیے چھت چاہیے اور یہ ان کو مُوٹر وئے کے سنہرئے خواب دکھا دیتے ہیں اور اس ملک کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی وفاداری کے چرچے تو آج کل زبان ذدعام ہیں یہ حکمرانی اس ملک کے عوام پر کرتے ہیں لیکن ان کے مفاد دوسرئے ممالک کے ساتھ وابستہ ہیں اور جمہوریت کا سب سے بنیادی ستون عوام ان کے بھی کیا کہنے باتیں ان کی سُنو تو لگتا ہے کہ ان سے قابل اس قرہ ارض پرہے ہی نہیں کوئی ،بسوں میں بیٹھ کر یہ اس ملک کے سسٹم کو گالیاں دیتے ہیں یہ لندن میں ایک مسلمان بس ڈرائیورکے بیٹے کے مئیر بننے پر جشن مناتے ہیں لیکن خود ابھی تک نہ غلامانہ سُوچ سے چھٹکارا پا سکیں ہیں نہ ذات پات سے بالاتر ہو کر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکتے ہیں کیا یہ اس ملک میں کسی بس ڈرائیور کے بیٹے کو اپنا قیمتی ووٹ دیں سکتے ہیں کبھی بھی نہیں کیونکہ یہ بھی اپنے ووٹ کا فیصلہ اپنے ضمیر کے مطابق نہیں اپنے ذاتی مفادات کو مدنظر رکھ کرتے ہیں ویسے بھی جس ملک میں واٹر کو لر پر رکھے گلاس کو زنحیر سے باندھنا پڑئے اور لوگوں کو مسجدوں میں اپنی آخرت سے زیادہ اپنے جوتوں کی فکر ہووہاں صدر یا وزیراعظم کی تبدیلی سے کیا فرق پڑتا ہے تبدیلی کے لیے ہر انسان کو اپنا اخلاق، کردار اور سوچ کو بدلنا پڑئے گا ورنہ اس ملک میں جمہوریت کا مستقبل گھپ اندھیرا۔ اس تمام تصویر کی بہترین عکاس حبیب جالب کی یہ نظم ہے
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
بے نام سے سپنے دیکھا کر
یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں
ہے یہاں یہ کاروبار بہت
اس دیس میں گردے بکتے ہیں
کچھ لوگ ہے عالی شان بہت
اور کچھ کا مقصد روٹی ہے
وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے
مغرب کا راج ہی سچا ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
Raja Waheed
About the Author: Raja Waheed Read More Articles by Raja Waheed: 20 Articles with 12987 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.