ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کے لیے کھلا چیلنج
(Abid Mehmood Azzam, Karachi)
ڈرون حملے ملکی خودمختاری کے لیے کھلاچیلنج....حکومت
پاکستان بے بس
امریکا پاکستان میں 2004ءسے ڈرون حملے کر رہا ہے، جن سے متعلق پاکستان کا
پہلے دن سے ہی واضح موقف رہا ہے کہ ڈرون حملوں سے جہاں معصوم شہری مارے
جاتے ہیں وہیں یہ ملکی سالمیت کے اصولوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔
ان حملوں سے نہ صرف شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے، بلکہ ملک میں دہشت گردی
بھی بڑھی ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے ڈرون حملوں کو بند کرنے کے حوالے سے احتجاج
اور پاکستانی قیادت متعدد بار امریکا سے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کرچکی
ہے، جبکہ عوام بھی ایک عرصے سے ان حملوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔اقوام
متحدہ بھی ان حملوں کو کھلی جارحیت اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کہہ چکی
ہے۔اس سب کے باوجود امریکا نے ڈرون حملے نہیں روکے اور تمام قوانین و
مطالبات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان میں بلوچستان کے علاقے
نوشکی میں ڈرون حملہ کیا، جس میں افغان طالبان کے سابق امیر ملااختر
منصورسمیت دیگر کئی افراد مارے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ملااختر منصور ایران
کے راستے سے پاکستان میں داخل ہورہے تھے، لیکن پھر بھی پاکستان میں حملہ
کیا گیا، جس کا مقصد پاکستان پر طالبان کی معاونت کا الزام لگا کر اسے دنیا
بھر میں بدنام کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حالانکہ افغانستان میں امریکی فوج
پاکستان کی نسبت زیادہ آسانی سے ملااختر منصور کو نشانہ بناسکتی تھی، لیکن
پاکستان میں ہی نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان نے امریکی جارحیت پراحتجاج کیا
اور اس حملے کی مذمت کی ہے، جبکہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی کا کہنا تھا
کہ ملّا منصور مذاکرات کے مخالف نہیں تھے، اس بات سے قطع نظر دیکھا جائے تو
ان کی موت سے امن عمل کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ تاہم امریکا کو یہ بات ملحوظِ
خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ڈرون حملے جاری رہیں گے تو وہ شاید ہی
مذاکرات پر آمادہ ہوں، اِس لیے ساز گار فضا پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ
یہ سلسلہ روکا جائے۔ مختلف شہروں میں ملک کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے
ہزاروں کارکنوں نے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے امریکا کے خلاف
شدید نفرت کا اظہار کیا ہے اور امریکا ، بھارت اور نیٹو فورسز کے خلاف سخت
نعرے بازی کی گئی۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے مشاورتی اجلاس کے
دوران ڈرون حملوں اور امریکی دھمکیوں کے خلاف متفقہ طور پر دفاع پاکستان
کونسل کے پلیٹ فارم سے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اور کونسل کو
فعال کرتے ہوئے پہلا بڑا پروگرام 5 جون اتوار کو اسلام آباد میں ہو گا جس
میں ملک بھر کی مذہبی و سیاسی قیادت کو شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ ملک بھر
کی مختلف مذہبی و سیاسی رہنماﺅں نے اجلاس میں طے کیا ہے کہ پاکستان کو
درپیش چیلنجز کے مقابلہ کے لیے 18کروڑ عوام کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہو گا۔
ڈرون حملوں پر حکومت جراتمندانہ مﺅقف نہیں اپنا سکی۔ امریکا نے پاکستان کی
خودمختاری و سلامتی کو چیلنج کیا۔ امریکا اس خطہ میں امن کا قیام نہیں
چاہتا۔ ڈرون حملوں و امریکی دھمکیوں کے خلاف دفاع پاکستان کونسل میں شمولیت
کے لیے دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں سے بھی رابطے کیے جائیں گے۔ آرمی چیف کا
ڈرون حملوں پر امریکی سفیر کو بلا کر احتجاج خوش آئند ہے اور ان کے علاوہ
بھی دیگر کئی حوالوں سے اپنا موقف پیش کیا گیا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل
راحیل شریف نے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے
ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے، اِس طرح کے واقعات
دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کے لیے تباہ کن اور امن عمل و علاقائی استحکام
کے لیے نقصان دہ ہیں۔ پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے بات چیت کرتے
ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں اور
قربانیوں کی مثال نہیں ملتی۔ جنرل راحیل شریف نے بالکل درست کہا ہے کہ
پاکستانی فوج کی دہشت گردی کے خلاف کامیابیاں اور قربانیاں ناقابلِ فراموش
ہیں اور دنیا کی کسی دوسری فوج نے اتنی زیادہ قربانیاں نہیں دیں۔
بلوچستان کے علاقے نوشکی میں ہونیوالے ڈرون حملے کی ایف آئی آر لیویز کے مل
تھانہ میں درج کرادی گئی ہے۔ یہ ایف آئی آر ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے
ٹیکسی ڈرائیور محمداعظم کے بھائی محمد قاسم کی مدعیت میں درج کرائی گئی ہے
جس میں امریکی حکام کو نامزد کیا گیا ہے، جبکہ ایف آئی آر میں ایکسپلوسیو
ایکٹ کی دفعات 5,4,3 ‘انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7۔اے اور تعزیرات
پاکستان کی دفعات 427, 109, 302 کے تحت نامزد ملزمان کیخلاف قانونی
کارروائی عمل میں لانے کی استدعا کی گئی ہے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ
میڈیا میں امریکی حکام نے ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، جبکہ امریکی
حکام کی جانب سے پاکستان میں دراندازی کی گئی ہے، ہم ڈرون حملہ کرنے والوں
کو انصاف کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم کے معاون
خصوصی برائے امور خارجہ امورطارق فاطمی کا کہنا ہے کہ نوشکی ڈرون حملے کا
عسکری قیادت کو بھی علم نہیں تھا، اس حملے کو انٹیلی جنس کی ناکامی کہنا
درست نہیں، اس میں کئی اندرونی اور بیرونی عناصر ملوث ہیں، لیکن کئی باتیں
ایسی ہیں جنہیں افشا نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان ڈرون حملوں پر احتجاج تو کر
سکتا ہے مگر ان کا منہ توڑ جواب دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا، ہمارے پاس
ابھی تک ایسی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس سے ڈرون کا پتہ لگایا جاسکے، حالانکہ
پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پاک فضائیہ کے اس وقت کے سربراہ نے دوٹوک
الفاظ میں باور کرایا تھا کہ ہمارے پاس ڈرون کا تعاقب کرکے اسے گرانے کی
ٹیکنالوجی اور صلاحیت موجود ہے، اس کے علاوہ بھی متعدد بار یہ بات سامنے
آچکی ہے کہ پاکستان ڈرون طیارے تباہ کرنے کا اہل ہے۔ طارق فاطمی کے بیان سے
ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ڈرون حملے کے معاملے میں امریکا کے خلاف کارروائی سے
دست بردارہونے کا اعلان کررہے ہیں، حالانکہ دوسری جانب ڈرون حملے کی ایف
آئی آر لیویز کے مل تھانہ میں درج کرادی گئی ، جس میں امریکی حکام کو نامزد
کیا گیا ہے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مندرجات سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ
یہ ایف آئی آر حکومت کی رضامندی اور مشاورت سے ہی درج ہوئی ہے۔ اس سے ثابت
ہوتا ہے کہ ایک طرف تو حکومت عوام کو دکھانے کے لیے ایف آئی آر درج کررہی
ہے، جبکہ دوسری جانب طارق فاطمی امریکا کے خلاف کارروائی سے بے بسی کا
اظہار کررہے ہیں۔اگر حکومت واقعی ایف آئی آر پر پیش رفت کرتے ہوئے کسی
کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے تو پھر حکومت کو آئندہ امریکا کو پاکستان میں
ڈرون حملہ کرنے سے روکنا ہوگا اور اس کے ساتھ پاکستان کی خودمختاری پر حملہ
کرنے کے جرم میں امریکا کو عالمی عدالت میں پیش کرنا ہوگا، بصورت دیگر اسکے
فرنٹ لائن اتحادی کے کردار سے رجوع کرلیا جائے اور ملکی سلامتی اور قومی
مفادات سے ہم آہنگ قومی خارجہ پالیسی ازسرنو مرتب کی جائے جس کی بنیاد پر
صرف ملکی اور قومی مفادات کو ہی مقدم رکھا جائے۔
ہماری سرزمین پر 2004ءسے شروع ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کے خلاف ملک میں
ہر سطح پر احتجاج کیا جاچکا ہے، دفتر خارجہ کے علاوہ پارلیمنٹ کے مشترکا
اجلاس میں دوبار قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرکے بھی ڈرون حملوں پر
احتجاج اور یہ سلسلہ روکنے کا تقاضا کیا جاچکا ہے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں
میں ڈرون حملوں کے خلاف متفقہ طور پر قراردادیں منظور ہوچکی ہیں اور حکومتی
و اپوزیشن سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی ڈرون حملوں کے
خلاف قراردادیں منظور کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا جاچکا ہے جبکہ پشاور
ہائیکورٹ نے دو سال قبل ڈرون حملے سے متاثر ایک شخص کی ”کووارنٹو“ رٹ
درخواست منظور کرتے ہوئے حکومت کو ڈرون حملے بند کرانے، ان حملوں پر امریکا
کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور حملوں میں ہونے والے نقصان کا امریکا سے ہرجانہ
طلب کرنے کا حکم صادر کرچکی ہے۔ عدالت عالیہ کے اس فیصلے کی بنیاد پر وفاقی
یا خیبر پی کے حکومت نے کیا کارروائی کی ہے، اس بارے میں ابھی تک کوئی چیز
بھی ریکارڈ پر نہیں آئی، جبکہ اس کے بعد بھی امریکا نے ڈرون حملے برقرار
رکھے ہیں تو اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے پشاور
ہائیکورٹ کے متذکرہ فیصلہ کو درخوراعتناءہی نہیں سمجھا۔ ڈرون حملوں کا
سلسلہ یوں تو کئی سال سے جاری ہے اِن پر احتجاج اور اظہارِ تشویش بھی ہوتا
رہتا ہے، لیکن حملے بند نہیں ہو سکے۔ اب اِس لحاظ سے اِن کا دائرہ وسیع تر
ہو گیا ہے کہ پہلی مرتبہ بلوچستان کے ریڈ ایریا میں بھی ڈرون حملہ ہو گیا
ہے۔ یہ حملے پاکستان کی علاقائی سلامتی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف
ورزی تو ہیں ہی، اِن سے دونوں ملکوں کے تعلقات بھی آزمائش سے دوچار ہوتے
ہیں۔ ڈرون حملے بلاشبہ ہماری آزادی، خودمختاری اور سلامتی کے لیے کھلا
چیلنج ہیں اور ہر ڈرون حملے پر دفتر خارجہ پاکستان اور دوسرے حکام کی جانب
سے امریکا کو احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے یہی باور کرایا جاتا ہے کہ یہ حملے
ہماری سلامتی اور خودمختاری کے منافی ہیں، اس احتجاج کے باوجود امریکا نے
ہماری سرزمین پر ڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جن میں حالات کی مناسبت سے
وہ کمی بیشی کرتا رہتا ہے۔ بیورو آف انویسٹیگیٹوو جرنلزم کی رپورٹ میں
بتایا گیا کہ پاکستان میں 2004ءسے 2015ءکے اواخر تک کل 421 کارروائیاں کی
گئیں جن میں مرنے والوں کی تعداد 3989 تک تھی اور ان میں ایک بڑی تعداد عام
شہریوں اور بچوں کی تھیتو کیا اس پس منظر سے بھی قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے
کہ ہمارے احتجاج کے باوجود امریکا نے اب تک ڈرون حملے کیوں جاری رکھے ہوئے
ہیں؟۔ امریکا کی جانب سے ڈرون حملوں کا یہی جواز پیش کیا جاتا ہے کہ اسے
اپنی سلامتی کے تحفظ کی خاطر کہیں بھی فضائی اور زمینی کارروائی کرنے کا حق
حاصل ہے۔امریکا کی یہ دلیل سراسر غلط، کیونکہ کسی دوسرے کے ملک میں گھس کر
حملہ کرنا عالمی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔انسانی حقوق کا یواین چارٹر
اور دوسرے عالمی قوانین و ضوابط کسی ملک کو کسی دوسرے ملک کی آزادی و
خودمختاری میں مداخلت کرنے اور اسکی جغرافیائی حدود کے اندر حملہ آور ہونے
کی اجازت نہیں دیتے۔ |
|