میرے شہر میں بہار کا موسم ہے باہر نکلو تو
فضا میں ایک بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی ہے ہر طرف پرندوں کی چہچہا ہٹ ہے
کچھ اپنے گھونسلوں کے لئے ٹھکا نے ڈھونڈھ رہے ہیں ۔ہمنگ برڈ۔ بالکل منا سا
پرندہ جو اردو میں پدی کہلاتا ہے جا بجا درختوں اور پھولوں سے جھول رہا
ہے اسکا منا سا گھونسلا بھی ایک شاہکار ہوتا ہے ۔
۔ جو شاخ نازک پہ آشیانہ ..بنے گا نا پائدارہوگا ۔
اس مختصر سے پرندے کے لئے اردو میں یہ محاورہ بھی مشہور ہے "کیا پدی اور
کیا پدی کا شوربہ "۔ لیکن یہ اس حقیقت سے بے خبر اسی چھوٹے سے أشیانے میں
خوش و خرم ہے ۔ یہ امریکہ کا وہ خطہ ہے جہاں کی سردیاں مختصر اور گرمیاں
ہولنا ک ہوتی ہیں ۔۔
لیکن امریکہ میں اسوقت صدارتی امیدواروں کو چننے کا موسم ہے اور اس موسم نے
پورے ملک ، ٹھنڈے ، گرم سب شہروں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے پورے ملک میں
بوڑھا، جوان ، بچہ سب ہی اس انتخابی مہم میں غلطاں و پیچاں ہے ۔وہ بھی جو
ابھی قانوناووٹ دینے کے حقدار نہیں ہیں ۔ میڈیا کے ہر چینل سے امیدواروں کے
بحث مبا حثے کا انتظام ہے ۔۔ ریپبلکن پارٹی کی جانب سے تو امیداروں کی پوری
ایک برات تھی جو اب چھٹتے چھٹتے ایک رہ گئی ہے
۔۔ مشہورارب پتی تاجر اور ساہوکار ڈونلڈ ٹرمپ اپنے تمام تر متعصب بیانات کے
ساتھ سرفہرست ہے ۔۔۔
امریکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے اور حقیقتا ہے بھی-
ہر چار سال کے بعد یہاں کے صدارتی انتخابات ہوتے ہیں ایک صدرچاہے کتنا ہی
مقبول اور قابل کیوں نہ ہو ،دو مرتبہ سے زائد اقتدار پر قابض نہیں ہوسکتا-
سوائے فرینکلن ڈی روزویلٹ کے جو چار مرتبہ صدارت کے عہدےپر فائز رہے اور
انکا انتقال چوتھی مرتبہ کے انتخابات کے چند مہینے کے بعد ہوا۔ ۱۹۵۱ کے
دوران امریکی أئین کی ۲۱ ویں ترمیم میں امریکی کانگریس نے یہ قانون منظور
کر لیا کہ اب صدارتی میعاد کا دورانیہ لگاتار دو مرتبہ جیتنے تک محدود ہوگا۔
مخالف پارٹیاں عموما دو بڑی پارٹیاں ہیں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ - ریپبلکن جو
عام طور پر جی او پی کہلاتی ہے اسکا کا انتخابی نشان ہاتھی ہے جبکہ
ڈیموکریٹ کا گدھا ہے -ہاتھی کے مقابلے میں گدھا ایک کمزورسا جانور ہے لیکن
باربرداری اور بوجھ ڈھونے کے لئے ہاتھی سے زیادہ مفید اور ہلکا پھلکا ،
سیدھا سادا سا جانور ہے۔ ہاتھی کی نسبت اسکی ضروریات کافی قلیل ہیں-ہاتھی
کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور --بہر حال یہ سب ہمارے دیسی محاورے اور
استعارے ہیں جن سے امریکی قطعی نابلد ہیں نہ معلوم امریکیوں کو اپنے
انتخابی نشان کے لئے ان ایشیائی، افریقی یا بر صغیری جانوروں کا خیال کیوں
آیا؟ کیا امریکی جانوراس قابل نہیں تھے ؟--- اسپر غور کرنا پڑے گا
علاوہ ازیں ریپبلکن کا رنگ سرخ اور ڈیمو کریٹ کا نیلا ہے اسلئے جن ریاستوں
میں ڈیموکریٹ اکثریت ہے انکو نیلی اور ریپبلکن اکثریت والی سرخ کہلاتی
ہیں۔ووٹر (رائے دہندگان )بھی ریپبلکن اور ڈیموکریٹ کے لئے پہلے سے رجسٹر
شدہ ہوتے ہیں ۔
۔۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کی نمائندگی حاصل کرنے ہیلری کلنٹن میدان میں ہیں برنی
سینڈرز ابھی بھی ڈٹے ہوئے ہیں لیکن نامزدگی کی امیدیں دن بدن معدوم ہوتی جا
رہی ہیں ۔۔۔۔ کھود کھود کر الزامات لگائے جارہے ہیں ۔۔ ریپبلکن کی طرف سے
ڈونلڈ ٹرمپ ہر ایک کی ایسی کی تیسی کر تے ہوئے نامزدگی کے دروازے پر کر و
فر سے کھڑا ہے۔۔ اسی طرح ہیلری کلنٹن امریکہ میں پہلی خاتون صدارتی امیدوار
کا اعزاز حاصل کرکے تاریخ رقم کر رہی ہیں ۔اب وہ اس تگ و دو میں ہے کہ کسی
طرح برنی کو مفاہمت پر أمادہ کردے ۔ برنی ایک یہودی نژاد أزاد خیال سینیٹر
ہے اگر وہ منتخب ہوتا تو امریکی تاریخ میں اولیں یہودی نامزد امیدوار ہوتا۔
اوباما اپنا ّأخری برس خیر و خوبی سے گزارنے کی کوشش میں ہیں اسلئے یہ
الزامات کہ وہ مسلمان ہے، امریکہ میں پیدا ہی نہیں ہوا یا اسکا اوبامہ کیئر
ایک ناکام پروگرام تھا ،اسکا بال بیکا نہیں کرسکتے وہائٹ ہاؤس میں اسکے
ساڑھے سات برس پورے ہوا چاہتے ہیں ۔۔اور یہ کہ اب کب اور کیسے کوئی سیاہ
فام قصر ابیض میں داخل ہوگا ،یہ تو وقت ہی بتائے گا اور یہ بھی کہ ہاتھی
اور گدھا کس کروٹ بیٹھتے ہیں۔۔
پچھلی مرتبہ ۲۰۰۸ میں جب ڈیموکریٹک پارٹی اپنے امیدوار کو منتخب کر رہی تھی
اور اس کیلئے باقاعدہ الیکشن کے طرز پر انتخاب ہو رہاتھا- اسوقت ہیلری
کلنٹن کے متعلق سبکو یقین تھا کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار
ہوںگی اور امریکہ کی پہلی خاتون صدر ہونگی -امریکہ جو روشن خیالی اور
آزادئی را ئے کا اتنا بڑا علمبردار ہے یہاں ابھی تک کوئی خاتون صدارتی
نامزدگی تک حاصل نہیں کر سکی ۔سربراہ مملکت بننا تو بہت دور کی بات ہے ۔ نہ
ہی صدر اور نہ ہی نائب صدر-اس معاملے میں تو ہمارے پسماندہ تیسری دنیا کے
ممالک ان سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں -پاکستان ، بھارت ، سری لنکا ،
بنگلہ دیش جہاں آئے دن خواتین حکمران ہوتی ہیں اب بھی آصف علی زرداری بی بی
کے بل بوتے پرہی سیاست کر رہے ہیں-اور نواز شریف مریم کو جانشین بنانے کے
لئے تیار کر رہے ہیں۔۔ بنگلہ دیشی حسینہ واجد ۴۵ برس کے بعد جماعت اسلامی
کے معمر رہنماؤں کو پے درپے پھانسی دیکر اپنے انتقامی جذبے کی تسکین کر رہی
ہے۔۔اور وہ جو اپنے ناکردہ گناہوں کی سزائیں پارہے ہیں۔۔ خدا رحمت کند ایں
عاشقان پاک طینت را۔۔
کلنٹن مونیکا سکینڈل میں مجھے ہیلری کا اپنے شوہر سے باوفائی کا انداز بہت
بھایا تھا ،کچھ اپنی اپنی سی لگتی تھی ۔ اس زمانے میں، میں امریکہ میں تھی
کچھ امریکن خواتین سے بات ہوئی تو انکو اسکے روئے پر سخت اعتراض تھا ٓ ایک
عورت کہنے لگی 'ہیلری کا رویہ ہرگز ایک امریکن عورت کا نہیں ہے- اسکو فورا
اپنے شوہر سے طلاق لینی چاہئے " لیکن ہیلری اپنےشوہر کے ساتھ کھڑی رہی -
بالکل ہمارے ہاں کی خواتین کی طرح کہ صبح کا بھولا شام کو گھرآجا ئے تو
اسکو ہرگز بھولا مت کہو- کیونکہ ہم لوگ جس معاشرے اور ماحول سے ہیں وہاں پر
عورت ایک وفا کا پیکر، وفا کی پتلی ہی تو ہے اور اس وجہ سے۲۰۰۸میں اس سے
رابطے مٰیں تھی -بلکہ اسکے لئے رضاکارانہ کام کر رہی تھی- آئے دن میرے پاس
ہیلری، بل کلنٹن اور چیلسی کے تعریفی اور شکرئے کے ای میلز آتے اور
پرائمریزمیں ، ہیلری کی ٹاپ کالر اور ای میل بھیجنے والوں میں سے ایک بن
گئی- کافی دلچسپ مشغلہ تھا- قصہ مختصر یہ کہ ہم نے ایڑی چوٹی کازور لگایا
لیکن اوباما آیا اور چھا گیا - ہیلری نے ہار مان لی اور اوبامہ ڈیموکریٹ کا
صدارتی نامزد بن گیا - لیکن امریکی سیاست اور مزاج دیکھئے دو دن پہلے وہ
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئےہر حربہ آزمارہے تھےاور اب ہیلری نے اعلان
کیا کہ اب ہمارے سارے رضاکار اوباما کیلئے کام کرنگے اور ہم جیت کر
دکھائینگے- تو پھر ہم نے وہی کام اوبامہ کیلئے کیا اور پھر اوبامہ اور مشل
کے ای میلز ملنے لگے -انگلی پر خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے والی بات
تھی ۔۔ لیکن دلچسپ کام تھا ۔۔ اس مرتبہ میری کچھ اپنی مصروفیات تھیں اور
ابھی تک نظر انداز کیا ہوا ہے۔۔
امریکہ معاشی کساد بازاری سے ایک حد تک تو نکل آیا ہے لیکن اب بھی کافی
مقروض ہے ، ملازمتوں کی عدم دستیابی یعنی بیروزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے۔۔
ٹرمپ ہر دوسرے جملے میں یہ اعلان کرتا پھر رہاہے کہ میں امریکہ کو از سر
نوایک شاندار ملک بنا دونگا۔۔شروع میں اسنے غیر قانونی تارکین وطن لاطینی
یا میکسیکن افراد کے لئے سخت بیانات دئے اور یہ کہ میکسیکو کی سرحد پر ایک
دیوار بنا دی جائیگی تاکہ انکا امریکہ میں داخلہ بند ہو جائے ۔وہ بھی نت
نئے جتن کرکے بہتر زندگی کی تمنا لئے امریکہ میں داخل ہوتے ہیں۔نسبتا کم
داموں پر وہ کام اور مزدوری کرتے ہیں جنکی عام امریکی زیادہ اجرات لیتے ہیں
۔لیکن بقول ٹرمپ انکے ساتھ جرائم پیشہ افراد کی ایک بڑی تعداد آجاتی ہے ۔
اسمیں ایک حد تک حقیقت بھی ہے ۔
سان برنارڈینو اور پیرس کے واقعے کے بعد ٹرمپ نے مسلمانوں کی امریکہ آمد پر
پابندی کےسخت بیانات دئے جسکی عموماً اسکے ووٹر نے پذیرائی کی ۔۔حالانکہ
ٹرمپ کے بزنس میں سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کا کافی بڑا سرمایہ ہے۔۔
ساتھ ہی اسنے یہ بیان بھی دئے ہیں کہ وہ اسلامی ممالک سے امریکی فوجوں کو
ہٹا لیگا اور اسلامی ممالک میں دخل اندازی بند کردیگا۔۔ یہ ایک بہت بڑا قدم
ہوگا جسکے متعلق امریکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ عامہ بالکل خاموش ہے
۔۔
امریکی خارجہ پالیسیوں مین افراد یا صدور کے أنے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں
پڑتا اب تو یہ أنے والا وقت ہی بتا ئے گا کہ اس صدارتی دنگل میں کوں جیتتا
ہے اور کون چاروں شانے چت ہو جاتا ہے ۔۔۔
ایک عام امریکی کی زندگی میں کیا فرق پڑ سکتا ہے ۔۔
پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکر معاش
منزل جاناں سے کوئی کامیاب أیا تو کیا ۔۔ |