مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کو کھلی چھٹی

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم ایک بار پھر عروج پر ہے۔ ہر روز کتنے ہی کشمیری نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی اور بموں سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس جہان فانی سے رخصت کیا جا رہا ہے۔ روزانہ کتنے ہی کشمیری نوجوان اور بچے بھارتی فوج کے عقوبت خانوں میں پہنچائے جا رہے ہیں۔ اور تو اور، اب ان کشمیریوں کیلئے گوانتاناموبے کی طرز پر نیا قید خانہ بنانے کی تیاری شروع کر دی گئی ہے۔ مختصر سے خطہ مقبوضہ جموں کشمیر میں دس لاکھ بھارتی فورسز عرصہ 30سال سے آگ و خون کے کھیل میں مصروف ہیں لیکن دنیا کا کوئی ملک، کوئی ادارہ یا تنظیم اس پر بھارت کے خلاف زبان تک کھولنے کو تیار نہیں۔ ظلم کی حد دیکھئے کہ اب تو بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے کھلے بندوں اعلان کر دیا ہے کہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کو مار دھاڑ جیسی ہر کارروائی کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے سب سے بڑے قاتل اور دشمن نریندر مودی کی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر اپنے ایک ملکی ٹی وی چینل ڈی ڈی نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں منوہرپاریکر نے کہا کہ ’’انہوں نے اپنی فوج کے ہاتھ کوئی باندھ کر نہیں رکھے ہوئے ہیں۔ ہم فوج کو صرف جدید سے جدید اسلحہ ہی فراہم نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہم نے ان کا نفسیاتی طور پر بھی ساتھ دیا ہے اور خود وزیراعظم نریندر مودی بھی اس حوالے سے فوج کی پشت پر کھڑے ہیں۔ سابقہ حکومت کی پالیسیوں سے فوج کے مورال کو کچھ نقصان پہنچا تھا لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ کشمیر تک ہم نے فوج کو کھلی چھوٹ دی ہے۔‘‘ اس بیان کے بعد منوہرپاریکر کا اگلا بیان یہ سامنے آیا کہ مقبوضہ کشمیر میں فوج کے دفاع کے لئے بنائے گئے کالے قوانین ختم نہیں ہوں گے۔ شہری علاقوں میں فوج کو مختلف عسکری کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جن کے لئے یہ قوانین انتہائی ضروری ہیں۔‘‘ بھارت کے وزیر دفاع کے ان بیانات کے بعد ہمیں یا دنیا کے کسی شخص یا ادارے کو شک نہیں رہ جانا چاہئے کہ بھارت کشمیریوں کے ساتھ اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے کالے قوانین تو پہلے سے بنا کر لاگو کر رکھے ہیں جن کے تحت بھارتی فوج کا کوئی بھی سپاہی کسی بھی کشمیری مرد، عورت، بچے، جوان یا بوڑھے کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے اس پر کوئی قدغن نہیں اور کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ بھارتی فورسز اور اہلکار مظاہروں پر کھلے عام گولیاں چلاتے اور بم برساتے ہیں، زہریلی گیس پھینکتے ہیں لیکن ان سے کوئی بازپرس نہیں کر سکتا۔ لگ بھگ 30سالہ مسلح جدوجہد آزادی میں ایک لاکھ کشمیری شہید ہو چکے ہیں، ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں تو 10 ہزار سے زائد ہمیشہ کے لئے معذور ہو چکے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ املاک خاکستر ہو چکی ہیں۔10ہزار کشمیری لاپتہ ہیں تو اتنے ہی بھارتی جیلوں میں شہید ہو چکے ہیں۔ سوا لاکھ کے قریب کشمیری بچے یتیم ہو چکے ہیں لیکن آج تک کسی ایک بھارتی فوجی پر اس حوالے سے کوئی ایک فیصلہ کن مقدمہ بھی نہیں چلا کہ اس نے کسی کشمیری پر کوئی ظلم کیا ہے۔ نہتے، بے گناہ اور مظلوم لوگوں پر اس طرح قانونی ظلم و جبر کی مثال شاید آج کی دنیا میں نہ مل سکے لیکن بھارت کو کوئی پوچھ ہی نہیں سکتا کہ وہ ایک ایسی قوم ہے، جس نے خود بارہا حق خودارادیت دینے کے دعوے کئے، اب انہیں اس مطالبے پر ہی قتل کرتا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حالت زار یہ ہے کہ سال کا ہر دن ہی کشمیریوں پر بدترین ظلم کی یاد دلاتا ہے۔ 30مئی 2009ء کو بھارتی فوجیوں نے شوپیاں کے مقام پر نند بھاوج کو اغوا کر کے زیادتی کے بعد قتل کیا تھا اور لاشیں قریبی نالے میں پھینک دی تھیں۔ کشمیریوں نے اس ظلم کے خلاف طویل ہڑتالیں کیں، اربوں کا مالی خسارہ برداشت کیا اور آج تک اس ظلم پر وہ سراپا احتجاج ہیں لیکن کسی کی کوئی شنوائی نہیں ہو سکی۔ یہ ایک واقعہ نہیں، بھارتی فوج 10 ہزار سے زائد کشمیری خواتین کی عصمت دری کر چکی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو مسلح جہادی جدوجہد آزادی جاری ہے، اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے لیکن وہ آج ایک بار پھر تسلیم کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں فوج کے ساتھ لڑنے مرنے والے کشمیری شہری ہیں۔ آج ایک بار پھر کشمیریوں کی بڑی تعداد میدان جہاد کا رخ کر رہی ہے۔ سیاسی تحریک میں ایک زمانہ گزار کر مقبوضہ کشمیر کے ہر دلعزیز اور مقبول ترین رہنما سید علی گیلانی اپنے گھر میں قید ہیں اور انہیں نماز جمعہ و نماز عید تک ادا کرنے کی اجازت نہیں، لیکن اس پر سب خاموش ہیں۔ انہیں گزشتہ سال صرف چند دنوں کیلئے رہائی ملی تو انہوں نے مقبوضہ وادی کے مختلف حصوں میں جلسوں سے خطاب کیا تھا۔ جلسے اتنے بڑے تھے کہ انہوں نے ایک بارپھر سے بھارت کو لرزا اور دہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان چند جلسوں کے ساتھ ہی انہیں رہنماؤں کو دوبارہ قید کر دیا گیا تھا۔ یہی صورتحال دیگر سیاسی قائدین کی ہے کہ جنہیں ایک دن آزاد تو دو دن قید رکھا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں زمانہ گزرا، کسی معمولی سیاسی سرگرمی کی یہاں کوئی اجازت نہیں لیکن بھارت پھر بھی دنیا میں عزت مند ہے کہ وہ سوا ارب انسانوں کا ملک ہے۔

بھارتی وزیر دفاع کا اتنا بڑا، ڈھٹائی سے لبریز مکمل دہشت گردانہ بیان بھی دنیا کے کسی کونے میں توجہ حاصل نہیں کر سکا کہ مرنے اور قتل ہونے والے جو مسلمان ہیں اور بھارت میں مسلمانوں کے یوں قتل پر تو جیسے یہ دنیا متحد ہے۔ جہاں تک کشمیر کا معاملہ ہے، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور پاکستان کشمیر کا اصل اور حقیقی وکیل و حقدار ہے۔ اگر پاکستان کشمیریوں کی وکالت کا حق ادا کرے تو نہ صرف یہ ظلم رک سکتے ہیں کہ بلکہ ان کی آزادی کی منزل بھی جلد قریب آ سکتی ہے۔ دنیا میں ظلم و ستم پر خاموشی سب سے بڑا جرم ہی قرار دیا جا سکتا ہے جو ہمیں ختم کرنا ہو گا۔ کیسی حیران کن بات ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کے شہر ننکانہ میں ایک معمولی سا جھگڑا ہوا۔ مقامی لوگوں نے حکومت کی جانب سے ان کی املاک پر بلڈوزر چلا کر تباہ کرنے پر احتجاج کیا تو بھارت نے فوراً واویلا مچانا اور طوفان کھڑا کرنا شروع کر دیا کہ پاکستان میں سکھوں کے گوردوارے کو نقصان پہنچا ہے اور یہ کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں، دوسری طرف اس قضیہ کی حقیقت یہ تھی کہ یہاں حکومت کی جانب سے آپریشن اس نام پر ہو رہا تھا کہ مقامی لوگ سکھ گردوارے کی وقف زمین پر مبینہ طور پر تعمیرات کی کوشش کر رہے ہیں، لہٰذا انہیں اس سے بے دخل کر کے زمین واگزار کرائی جا سکے۔ یعنی ہم اقلیتوں کی خدمت بلکہ چاپلوسی کر کے بھی مجرم کے مجرم ہی ہیں۔ پاکستان یقینا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو غیر مسلموں کیلئے ان کی وہ عبادت گاہیں جہاں کوئی عبادت کرنے والا بھی نہیں، بنا بنا کر دے رہا ہے۔ کسی اقلیتی فرد کو کوئی خراش نہ بھی آئے تو مخالفین کے ساتھ اتنا عبرتناک سلوک ہوتا ہے کہ سوچنا محال ہے لیکن بھارت ہے جو ہمیں دنیا میں بدنام کرنے کا کوئی معمولی سے معمولی واقعہ اچھال کر بلکہ جھوٹ گھڑ کر بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس کے مستزاد ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ اگر ہم نے بھارتی مسلمانوں پر ظلم، ان کی مساجد کی تباہی یا شعائر کی توہین کی بات کی تو شاید یہ دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار پائے گی۔ سو ہم خاموش رہتے ہیں۔ بھارت ہماری اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے لئے آزادکشمیر کو متنازع قرار دے کر شور مچا رہا ہے اور ہم اتنے بڑے ظلم و ستم پر خاموش ہیں۔ ہمیں یہ خاموشی ختم کرنا ہو گی اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک محفوظ رہے اور ہم بھارت کی بدمعاشیوں سے نجات پائیں اس کا تو راستہ صرف اور صرف مقبوضہ کشمیر کی آزادی ہے جہاں ہونے والے ظلم کے خلاف ہمیں مؤثر انداز میں آواز اٹھانا اور یہ ظلم دنیا کے سامنے لانا ہو گا۔ وگرنہ ہم ایسے ہی تماشہ بنتے اور ذلت کے ساتھ جیتے رہیں گے۔
Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 194 Articles with 141078 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.