رمضان المبارک
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Malegaon)
اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کو بڑی بڑی
خصوصیات سے متصف فرمایا، اس ماہ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس
ماہ مبارک میں اعمال صالحہ کے اجر کو بڑھا چڑھا کر دیتاہے ، اس ماہ میں
بغیر حساب کے نیکیاں عطا فرماتاہے ، لہٰذا اس ماہ کے جملہ اعمال ِخیر اور
ان کے ثواب سے ذیل میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں
تفصیلات بیان ہیں:
۱۔ ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھنا: ارشاد نبوی ﷺ ہے :
من صام رمضان إيماناً واحتساباً غُفِرَ له ما تقدَّم من ذنبه
[متفق عليه]
جس نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ روزہ رکھا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف
کردیئے جاتے ہیں۔
۲۔ ایمان واحتساب قیام رمضان کا اہتمام کرنا:
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من قام رمضان إيماناً واحتساباً غُفِرَ له ما تقدَّم من ذنبه۔
[متفق عليه]
’’جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں قیام کیا اس کے پچھلے
تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘
۳۔ صدقہ وخیرات کثرت سے کرنا:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مبارک مہینے میں لوگوں میں سب سے زیادہ
خیرات کرنے والے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں جب آپ جبریل سے
ملاقات فرماتے تھے تو بہت زیادہ خیرات کرنے والے ہوتے تھے، آپ جبریل کے
ساتھ قرآن کا دور فرماتے، اور جبریل ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ سے
قرآن سنتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبریل سے ملاقات کے دنوں میں
تیز ہواؤں سے زیادہ خیر ات کرنے والے تھے۔‘‘
[متفق علیہ]
۴۔ روزے داروں کو افطار کرانا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من فطَّر صائماً كان له مثل أجره غير أنّه لا ينقص من أجر الصائم شيء
[رواه أحمد ]
’’جس نے ایک روزے دار کو افطار کرایا، اس کے لیے اسی کے برابر اجر ہے، اور
روزے دار کے اجر میں کچھ کمی نہیں کی جاتی ہے۔‘‘
۵۔ کثرت تلاوت قرآن:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
الصيام والقرآن يشفعان للعبد يوم القيامة، يقول الصيام:
أي رب منعته الطعام والشهوة فشفعني فيه، ويقول القرآن: منعته النوم بالليل
فشفعني فيه، قال: فيشفَّعان»
(رواه أحمد وصححه الألباني)
’’روزہ اور قرآن قیامت کے روز بندے کی سفارش کریں گے، روزہ کہے گا:
اے میرے رب! میں نے اسے دن میں کھانے اور خواہش نفسانی سے روکے رکھا، لہٰذا
اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما ، اور قرآن کہے گا: میں نے اسے رات میں
سونے سے روکے رکھا لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما ، آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
پھر اللہ تعالیٰ ان دونوں کی سفارش کو قبول فرمائے گا ۔‘‘
۶۔ عشرہ اخیر میں خوب عبادت کرنا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول
تھا کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوجاتا توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کمر کس لیتے، اور راتوں کو جاگتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار فرماتے۔
[متفق علیہ]
۷۔ شب قدر کی تلاش:
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: تحروا ليلة القدر في الوتر من العشر
الأواخر من رمضان»
(متفق عليه)
’’رمضان کے اخیر عشرے کی وتر راتوں میں شب قدر کو تلاش کرو۔‘‘
اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من قام ليلة القدر إيماناً واحتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه» [متفق عليه]
’’جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں عبادت کی اس کے پچھلے سارے
گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘
رمضان میں عمرہ کرنا:
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
عمرة في رمضان تعدل حجة - أو قال - حجة معي [متفق عليه]
’’رمضان میں ایک عمرہ کرنا ایک حج کے برابر ہے۔ یا پھر آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس طرح فرمایا: میرے ساتھ ایک حج کرنے کے برابر ہے۔‘‘
۹۔ اعتکاف:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول آپ کے وصال تک رہا۔‘‘
[متفق علیہ]
بخاری میں ہے: كان النبي صلى الله عليه وسلم يعتكف في كل رمضان عشرة أيام،
فلمّا كان العام الذي قبض فيه اعتكف عشرين يوماً
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں دس روز اعتکاف فرماتے تھے،
لیکن جس برس آپ کا وصال ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس رمضان میں
بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔‘‘
۱۰۔ کثرت سے ذکر واستغفار اور دعاؤں کا کرنا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
إن لكل مسلم في كل يوم وليلة - يعني في رمضان- دعوة مستجابة
[ رواه البزار ]
رمضان کی ہر رات اور دن میں مسلمان کی دعا قبول کی جاتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
«ثلاث دعوات مستجابات: دعوة الصائم، ودعوة المظلوم، ودعوة المسافر
[رواه البيهقي ]
تین دعائیں مقبول ہیں:
روزے دار کی دعا،
مظلوم کی دعا،
اور مسافر کی دعا۔
پنج وقت نمازوں کی باجماعت ادائیگی کی فکر اور سنن ونوافل کا اہتمام کرنا:
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
ما من امرئ مسلم تحضره صلاة مكتوبة، فيحسن وضوءها وخشوعها، وركوعها إلّا
كانت كفارة لما قبلها من الذنوب ما لم تؤت كبيرة، وذلك الدهر كله [رواه
مسلم]
’’کوئی مسلمان اچھی طرح وضو کرکے ، پورے خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرتا
ہے، وہ نماز اس کے لیے اس کے پچھلے تمام گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے، جب تک
کہ وہ گناہ کبیرہ سے بچتا رہے، اور یہ سلسلہ عمر بھر جاری رہتا ہے۔‘‘
۱۲۔ ناواقف لوگوں کو درگزر کرنا:
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
وإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث ولا يصخب، فإن سابّه أحدٌ أو قاتله فليقل:
إنّي امرؤ صائم۔[متفق عليه]،
جب تم میں سے کسی کو روزہ ہو، تو اسے چاہیئے کہ فحش گوئی وبدکلامی اور
سوقیانہ زبان درازی نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اس سے گالی گلوج اور
لڑائی جھگڑا کرنا بھی چاہے تو وہ اسے کہہ دے کہ بھئی ! میں تو روزے سے
ہوں۔‘‘
ارشاد نبوی ﷺ ہے:
ومن لم يدع قول الزور والعمل به والجهل، فليس لله حاجة في أن يدع طعامه
وشرابه
[رواه البخاري]
’’جو روزہ دار روزے کی حالت میں جھوٹ بولنے اور اس پر عمل کرنے سے باز نہیں
رہتا، اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے
(اور بھوکا پیاسا مرنے) کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘چ |
|