بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
نیکیوں کا موسم بہار آگیا ہے۔ اے طالب خیر! ماہ رمضان کی ایک ایک قیمتی
گھڑی سے فائدہ اٹھا کیونکہ معلوم نہیں کہ آئندہ رمضان ملے گا یا یا نہیں۔
اے طالب شر! بس کر گناہوں سے، تائب ہوکر طاعت اور نیکی کی زندگی کو
اختیارکر کیونکہ تجھے ایک دن مرنا ہے اور اﷲ کے سامنے اس زندگی کا حساب
دینا ہے۔
رمضان کا مہینہ چاند کے کیلنڈر کے اعتبار سے نواں مہینہ ہے جس کے روزے
رکھنا ہر مسلمان بالغ صحت مند مردوعورت پر فرض ہے ، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے
قرآن کریم میں فرمایا: تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینہ پائے ، وہ اس میں
ضرور روزہ رکھے۔ صوم (یعنی روزہ )کے لفظی معنی امساک یعنی رکنے اور بچنے کے
ہیں اور اصطلاحِ شرع میں" طلوع صبح صادق سے لے کر غروب ِآفتاب تک روزہ کی
نیت کے ساتھ کھانے پینے اور عورت سے مباشرت کرنے سے رکنے کا نام صوم ہے"۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کااتفاق ہے کہ روزہ کے لئے نیت ضروری ہے۔
نیت اصل میں دل کے ارادہ کا نام ہے اور زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے،
لیکن اگر کوئی شخص زبان سے بھی نیت کرلے تو بہتر وافضل ہے۔ روزہ کی نیت کے
لئے کوئی بھی الفاظ حضور اکرم ﷺ سے منقول نہیں ہیں، یعنی انسان عربی زبان
یا جس زبان میں چاہے روزہ کی نیت کرسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص عربی زبان میں
نیت کرنا چاہے تو اس کے لئے کیا الفاظ ہوں تو بعض علماء کرام نے لوگوں کی
سہولت کے لئے یہ الفاظ تحریر کردئے ہیں: بِصَوْمِ غَدٍ نَوَےْتُ مِنْ شَہْرِ
رَمَضَانیعنی میں کل رمضان کا روزہ رکھوں گا۔ غرضیکہ کسی بھی زبان میں روزہ
کی نیت کی جاسکتی ہے۔
روزہ کا بنیادی مقصد:اﷲ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں ارشاد فرمایا ہے: اے
ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا
گیا تھا، تاکہ تم (روزہ کی بدولت رفتہ رفتہ )متقی بن جاؤ۔ (سورۃ البقرہ
۱۸۳) قرآن کریم کے اس اعلان کے مطابق روزہ کی فرضیت کا بنیادی مقصد لوگوں
کی زندگی میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ تقویٰ اصل میں اﷲ تعالیٰ سے خوف ورجاء کے
ساتھ حضور اکرم ﷺ کے طریقہ کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے
کا نام ہے۔ روزہ سے خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور
یہی تقویٰ یعنی اﷲ کے خوف کی بنیاد ہے۔ روزہ کے ذریعہ ہم عبادات، معاملات،
اخلاقیات اور معاشرت غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے خالق، مالک ورازق
کائنات کے حکم کے مطابق زندگی گزارنے والے بن سکتے ہیں۔ اگر ہم روزہ کے اس
اہم مقصد کو سمجھیں اور جو قوت اور طاقت روزہ دیتا ہے اس کو لینے کے لئے
تیار ہوں اور روزہ کی مدد سے اپنے اندر خوف خدا اور اطاعت امر کی صفت کو
نشو ونما دینے کی کوشش کریں تو ماہ رمضان ہم میں اتنا تقویٰ پیدا کرسکتا ہے
کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کے بعد بھی گیارہ مہینوں میں زندگی کی
شاہراہ پر خاردار جھاڑیوں سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے چل سکیں۔ اﷲ تعالیٰ
ہم سب کو روزہ کے اس اہم مقصد کو اپنی زندگی میں لانے والا بنائے۔ آمین۔
رمضان اور روزہ کی اہمیت اور فضیلت: رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ
فرماتا ہے : انسان کے ہر (نیک) عمل کا بدلہ ۱۰ گنا سے لے کر ۷۰۰ گنا تک دیا
جاتا ہے، لیکن روزہ کا بدلہ میں خود ہی عطا کروں گا کیونکہ وہ میرے لئے ہے
۔ دوسری روایت کے مطابق میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔ انسان کھانے پینے اور
جنسی شہوت سے صرف میری وجہ سے رکا رہتا ہے۔ روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں،
ایک افطار کے وقت (وقتی ) اور دوسری اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت (دائمی)۔ (بخاری
ومسلم) اﷲ تعالیٰ نے ہر عمل خیر کا دنیا میں ہی اجر بتادیا کہ کس عمل پر
کیا ملے گا مگر روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
الصَّوْمُ لِی وَانَا اَجْزِیْ بِہ روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کا
بدلہ دوں گا۔ بلکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ
ہوں۔ اﷲ اﷲ کیسا عظیم الشان عمل ہے کہ اس کا بدلہ ساتوں آسمانوں وزمینوں کو
پیدا کرنے والا خود عطا کرے گا یا وہ خود اس کا بدلہ ہے۔ روزہ میں عموماً
ریا کا پہلو دیگر اعمال کے مقابلہ میں کم ہوتا ہے اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے
روزہ کو اپنی طرف منسوب کرکے فرمایا الصَّوْمُ لِی روزہ میرے لئے ہے ۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے متعلق میری امت کو خاص طور پر پانچ چیزیں
دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں: (۱) روزہ دار کے منہ کی بو (جو
بھوک کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہے) اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ
ہے۔(۲) ان کے لئے دریا کی مچھلیاں تک دعائے مغفرت کرتی ہیں اور افطار کے
وقت تک کرتی رہتی ہیں۔ (۳) جنت ہر روز ان کے لئے سجائی جاتی ہے۔ (۴) اس ماہ
مبارک میں سرکش شیاطین قید کردئے جاتے ہیں۔ (۵) رمضان کی آخری رات میں روزہ
داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ کیا یہ شب ِمغفرت شب ِقدر
ہی تو نہیں ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم
ہوتے ہی اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (مسند احمد، بزاز، بیہقی، ابن حبان)
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کے ہر شب وروز میں اﷲ کے یہاں سے جہنم
کے قیدی چھوڑے جاتے ہیں اور ہر مسلمان کی ہر شب وروز میں ایک دعا ضرور قبول
ہوتی ہے۔ (بزاز، الترغیب والترہیب) رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ تین آدمیوں
کی دعا رد نہیں ہوتی، ایک روزہ دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی
اور تیسرے مظلوم کی۔ (مسند احمد، ترمذی ، صحیح ابن حبان)
حضرت کعب ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ منبر کے
قریب ہوجاؤ، ہم لوگ حاضر ہوگئے۔ جب حضورﷺ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم
مبارک رکھا تو فرمایا آمین ۔ جب دوسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا
آمین ۔ جب تیسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین ۔ جب آپ خطبہ سے
فارغ ہوکر نیچے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے
ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس
وقت جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے ۔ جب پہلے درجہ پر میں نے قدم
رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا پھر
بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا آمین۔ پھر جب دوسرے درجہ پر چڑھا تو
انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپ ﷺ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود
نہ بھیجے، میں نے کہا آمین۔ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا
ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو
پہونچے اور وہ اسکو جنت میں داخل نہ کرائیں، میں نے کہا آمین۔ (بخاری،
ترمذی)
رمضان اور قرآن کریم:قرآن کریم کو رمضان المبارک سے خاص تعلق اور گہری
خصوصیت حاصل ہے۔ چنانچہ رمضان المبارک میں اس کا نازل ہونا ، حضور اکرمﷺ کا
رمضان شریف میں تلاوت ِقرآن کا شغل نسبتاً زیادہ رکھنا، حضرت جبرئیل علیہ
السلام کا رمضان شریف میں نبی اکرم ﷺ کو قرآن کریم کا دور کرانا، تراویح
میں ختم قرآن کا مسنون ہونا، صحابہ کرام اور بزرگان دین کا رمضان میں تلاوت
کا خاص اہتمام کرنا، یہ سب امور اس خصوصیت کو بتلاتے ہیں۔ لہذا اس ماہ میں
کثرت سے تلاوت قرآن میں مشغول رہنا چاہئے۔ تلاوت قرآن پاک کے ساتھ قرآن
کریم کو علماء کرام کی صحبت میں رہ کر سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے
خواہ روزانہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو،تاکہ اﷲ تعالیٰ کے احکام سے واقفیت کے
بعد اس پر عمل کرنا اور اس کو دوسروں تک پہونچانا ہمارے لئے آسان ہو۔
رمضان اور تراویح:حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد
فرمایا : جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے
(عبادت کے لئے) کھڑا ہو ، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری
ومسلم) نوٹ: تراویح کی تعداد ِ رکعات میں علماء کرام کا اختلاف ہے، ۲۰ یا ۸
رکعات۔ البتہ یہ بات سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ حرمین ( مسجد حرام اور مسجد
نبوی) میں حضرت عمر فاروق ؓکے زمانے سے آج تک یعنی ۱۴۰۰ سال سے ۲۰ رکعت
تراویح سے کم نہیں پڑھی گئیں، جیسا کہ مدینہ منورہ کے سابق قاضی اور مسجد
نبوی کے مدرس شیخ عطیہ محمد سالم ؒنے اپنی کتاب ﴿التراویح اکثر من الف عام
فی المسجد النبوی﴾ میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ نیز قرآن وحدیث کی روشنی
میں امت مسلمہ متفق ہے کہ رمضان کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی
چاہئے۔
سحری:رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : خود حق تعالیٰ شانہ اور اس کے فرشتے سحری کھانے
والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں ۔ (طبرانی، صحیح ابن حبان) متعدد احادیث میں
رات کے آخری وقت میں سحری کھانے کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ ایک دو لقمے کھانے
سے بھی سحری کی فضیلت حاصل ہوجائے گی، ان شاء اﷲ۔
افطار کے لئے کھجور یا پانی بہتر ہے:حضرت سلمان بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ کھجور سے روزہ
افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے ۔ اگر کھجور نہ پائے تو پھر پانی ہی سے
افطار کرے، اس لئے کہ پانی نہایت پاکیزہ چیز ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت
انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مغرب کی نماز سے پہلے چند تر کھجوروں سے
روزہ افطار فرماتے تھے ، اگر تر کھجوریں بروقت موجود نہ ہوتیں تو خشک
کھجوروں سے افطار فرماتے تھے اور اگر خشک کھجور بھی نہ ہوتی تو چندگھونٹ
پانی پی لیتے تھے۔ (ابوداود)
افطار کے وقت دعاء: افطار کے وقت چند دعائیں نبی اکرم ﷺسے ثابت ہیں، جن میں
سے دو دعائیں یہ ہیں:اللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ
(سنن ابوداود ۔ باب قول عند الافطار۔ حدیث نمبر ۲۳۵۸) ذَہَبَ الظَّمَاءُ
وَابْتَلَّتِ العُروقُ وَثَبَتَ الاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللّٰہ (سنن ابوداود ۔
باب قول عند الافطار۔ حدیث نمبر ۲۳۵۷) غرضیکہ یہ دونوں دعائیں ایک ساتھ یا
دونوں میں سے کوئی ایک یا اس موقع پر حضور اکرم ﷺ سے ثابت شدہ کوئی دوسری
دعا مانگی جاسکتی ہے۔
روزہ افطار کرانے کا ثواب :حضرت زید بن خالد الجہنی ؓ سے روایت ہے کہ رسول
اﷲ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اُس کو روزہ
دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اِس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی
کمی کی جائے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان، مسند احمد) حضرت سلمان
فارسی ؓ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اﷲ ﷺ نے ہم کو
خطبہ دیا ۔ اور اس میں یہ بھی فرمایا:جس شخص نے اس رمضان المبارک کے مہینہ
میں کسی روزہ دار کو (اﷲ تعالیٰ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لئے روزہ)
افطار کرایا تو اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ
ہوگا۔ اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اس کے کہ روزہ
دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اﷲ ! ہم
میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا؟ تو آپ ﷺنے
فرمایا: اﷲ تعالیٰ یہ ثواب اُس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی
یا صرف پانی کے ایک گھونٹ سے کسی کا روزہ افطار کرادے۔ (بیہقی ۔ شعب
الایمان)
رمضان اور شب قدر:رمضان کی راتوں میں ایک رات شب ِقدر کہلاتی ہے جو بہت ہی
خیر اور برکت کی رات ہے۔ جس میں عبادت کرنے کو قرآن کریم (سورۃ القدر) میں
ہزار مہینوں سے افضل بتلایا گیا ہے۔ ہزار مہینے کے ۸۳ برس اور ۴ ماہ ہوتے
ہیں۔ گویا اِس رات کی عبادت پوری زندگی کی عبادت سے بہتر ہے۔ حضرت ابوہریرہ
ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص شب قدر میں ایمان کے
ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہو ، اس کے پچھلے تمام گناہ
معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) کھڑے ہونے کا مطلب: نماز پڑھنا، تلاوت قرآن
اور ذکر وغیرہ میں مشغول ہونا ہے۔ ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ
شہرت اور دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ خالص اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لئے عمل کیا
جائے۔حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا: شب قدر کو رمضان
کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری) مذکورہ حدیث کے مطابق
‘ شب قدر کی تلاش ۲۱ ویں، ۲۳ ویں، ۲۵ ویں، ۲۷ ویں، ۲۹ ویں راتوں میں کرنا
چاہئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اﷲ اگر مجھے شب
قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور نے ارشاد فرمایا: پڑھو:
اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی اے اﷲ! تو
بیشک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو ، پس معاف فرمادے
مجھے بھی۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، ترمذی)
رمضان اور اعتکاف:رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے
یعنی اگر محلہ کی مسجد میں ایک دو آدمی اعتکاف کرلیں تو پورے محلہ کی طرف
سے ذمہ داری ادا ہوجائے گی۔ آخری عشرہ کے اعتکاف کے لئے بیس رمضان کو سورج
ڈوبنے سے پہلے مسجد میں داخل ہونا ضروری ہے۔ اعتکاف کا اصل مقصد شب قدر کی
عبادت کو حاصل کرنا ہے، جسکی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ حضور
اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایاکرتے تھے۔ ایک سال پورے ماہ
رمضان کا اعتکاف فرمایا، جبکہ آخری رمضان میں آپ ﷺ نے ۲۰ روز کا اعتکاف
فرمایا۔معتکف کو بلا ضرورت شرعیہ وطبعیہ اعتکاف والی مسجد سے باہر نکلنا
جائز نہیں ہے۔معتکف کے متعلقین میں سے کوئی سخت بیمار ہوجائے یا کسی کی
وفات ہوجائے یا کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے یا معتکف خود ہی سخت بیمار ہوجائے
یا اس کی جان ومال کو خطرہ لاحق ہوجائے تو معتکف کے مسجد سے چلے جانے سے
اعتکاف ٹوٹ جائے گا لیکن ایسی مجبوری میں چلے جانے سے گنا ہ نہیں ہوگا ان
شاء ا ﷲ۔ البتہ بعد میں قضا کرلینی چاہئے۔
رمضان کا اہتمام نہ کرنے والوں کے لئے:حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ
آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے (شرعی) اجازت اور مرض کی (مجبوری) کے
بغیر رمضان کا ایک روزہ چھوڑدیا ، (اگر وہ ساری) عمر (بھی) روزے رکھے تب
بھی اس کی فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ (مسند احمد، ترمذی، ابوداود) حضرت
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ رکھنے
والے ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے ثمرات میں بجز بھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل
نہیں ، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے
سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ (ابن ماجہ، نسائی) |