عوام کے لیے مایوس کن وفاقی بجٹ

 ہر سال بجٹ کی آمد پر عوام پریشان ہوتے ہیں بجٹ سادہ ترین مفہوم میں سال بھر کا حکومتی میزانیہ ہوتا ہے اس میں آئندہ سال کے لیے حکومت کی مالی ضروریات کا تعین ہوتا ہے اور یہ اخراجات کیسے پورے کیے جائیں گے ان کے لیے کیا اقدامات تجویز کیے جائیں گے مگر ہمارے ملک میں تو بادشاہت کا دور ہے ان کو دنیا کی ہر چیز میسر ہے لیکن غریب عوام کے لیے ان کی سوچ قاصر ہے ابھی حکومت نے جو ۲۰۱۶ء کا بجٹ پیش کیا یہ قوم کے ساتھ مذاق ہے اور یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے اس بجٹ کو تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کیا ہے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ نئے مالی سال کے لیے ٹیکسوں کی بو چھاڑ کر دی ہے۔عوام کو بجٹ کا دھکا ۶۰۰ ارب کے نئے ٹیکس سیکڑوں اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی لگ گئی موبائیل فون،سیمنٹ،اور سیگرٹ مہنگے کر دیئے وزیر خزانہ ڈار صاحب فرما رہے ہیں۳ سال میں معیشت کو در پیش خطرات ٹل چکے ہیں۔یہ صرف جھوٹے دعوے ہیں اور جن چیزوں پر ٹیکس نہیں لگا ہے اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے عوام کو جن بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے!(۱)پینے کا صاف پانی۔(۲) صحت (۳) تعلیم ۔اور دوسری روزمرہ کی جو ضروریات زندگی ہے عوام کو اس سے فائدہ ہے اگر بجٹ کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جائے تو صحت اور تعلیم کے منصوبوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور ان کے لیے بہت کم بجٹ رکھا گیا ہے اب ذرا سرکاری ملازمین کی طرف آئیں ۱۰ فی صد تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ یہ عوام کے ساتھ مذاق ہے اس بجٹ سے غریب آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملی ہے یہ امیروں کا بجٹ ہے اسحاق ڈار صاحب با ر بار بجٹ تقریر میں یہی فر مارہے تھے کہ کم سے کم ایک مزدور کی آمدنی تیرہ ہزار ہو گئی ہے جناب اسحاق ڈار صاحب مہنگائی بھی عروج پر ہے آٹے کاتھیلا بھی ایک ہزار سے کم نہیں ہے اور بھی ضروریات زندگی ہیں ۔وزیرخزانہ صاحب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں دس فی صد اضافہ کر رہے ہیں اور ارکان اسمبلی کی تنخواہیں دو لاکھ کی گئی ہیں اور سینیٹر ز کی تنخواہیں چار لاکھ کی گئی ہیں اور جولوگ آگے باڈروں پر ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں اور خون کانزرانہ پیش کر رہے ہیں وہ صرف دس فی صد کے حقدار ہیں وزیرخزانہ صاحب غریب عوام پر رحم کھا ئیں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر نظر ثانی کریں۔اوراکثر ہر بجٹ کے بعد منی بجٹ آتا ہے ۔منی بجٹ سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ہمارا ملک اس وقت گونا گوں مسا ئل سے دو چار ہے امن و امان کی صورت حال مخدوش ہے جرائم کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑکر رکھ دی ہے کرپشن اور لوٹ مار عروج پر ہے سر عام قانون کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ہمارے حکمرانوں کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔آپ یورا گوئے ملک کی مثال لے لیں ابھی حال ہی میں یورا گوئے کے صدر ہوزے مو جیکا سبکدوش ہوئے لیکن انہوں نے اپنے ملک کو مضبوط کیا اور اپنے ملک کے لیے دن رات کام کیا ۔ہمارے حکمرانوں کی بھی یہی سوچ ہونی چاہیے ملک کی ترقی میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کریں۔محلوں میں رہنے والے بادشاہوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ عوام کے خادموں کے روپ ایسے نہیں ہوتے ۔بلکہ حضرت عمر فاروقؓ و خلافت کی مثالیں ایمان کامل کے حامل طبقے کے لیے بھی ہو سکتی ہیں۔کاش یہ لوگ اس پرعمل بھی کرتے یہاں حکمرانوں اور ان کے اہل خانہ پر سالانہ کتنے اخراجات ہوتے ہیں کاش ان لوگوں کی غریبوں کے لیے بھی یہی سوچ ہوتی تو پھر یہاں ترقی اور خوش حالی کے پھول کھلیں گے اور ہمارا ملک جلد ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اﷲ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Malik Nazir
About the Author: Malik Nazir Read More Articles by Malik Nazir: 159 Articles with 151569 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.