دِل، خط اور سڑکیں!

میں نے اپنے تئیں یہ فیصلہ کیا تھا کہ جب تک وزیراعظم میاں نواز شریف زیر علاج ہیں، اُن سے متعلق کوئی کالم نہ لکھوں گا۔ اب بھی کئی روز اور گزر جاتے، مگر ہوا یہ کہ اب ایک تو وہ اپنے گھر منتقل ہوچکے ہیں، دوسرایہ کہ ان کے متعلق ’’کالمانہ ‘‘ خبریں تسلسل کے ساتھ آرہی ہیں، ایسے میں اپنا خاموش رہنا کافی مشکل تھا۔ وزیراعظم کے برادرِ خورد وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی چونکہ اپنے بڑے بھائی کی عیادت کے لئے لندن میں موجود ہیں اور وہیں سے اپنے صوبے کا نظم ونسق بذریعہ ویڈیو کانفرنس چلا رہے ہیں، انہوں نے ایسے ہی ایک پروگرام میں بتایا ہے کہ’’ وزیر اعظم کے سینے میں 20سال کا دل آگیا ہے․․․‘‘۔وزیراعلیٰ کے اس بیان کے بعد اب معاملات کافی تبدیل ہو جائیں گے، بلکہ اس عمل سے بہت سے مسائل پیدا ہونے کا خدشہ بھی ہے۔ اب اگر وزیراعظم بیس سالہ دل کے ساتھ زندگی گزارنے کی کوشش کریں گے تو حالات کیا ہوں گے؟ اس سے قبل کہ نواز شریف بہت سے مسائل کا شکا ر ہوں، وہ ہمت کرکے دل کی بجائے دماغ سے کام لیں تو زیادہ بہتر ہے، کیونکہ دل کے علاوہ ان کے جسم کے دیگر اعضاء ایک ہی عمر کے ہیں۔ وزیراعظم کے بھائی اور ان کے دیگر مشیر تو دل کی جوانی کی بات کریں گے، ان تمام لوگوں کو بھی ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ اس عمر میں بیس سالہ دل کی بات سن یا مان کر انجام کیا ہوگا۔ مشیروں سے درخواست ہے کہ وہ بھی ذرا ہاتھ ہولا رکھیں، تاکہ بیس سالہ دل اور اڑسٹھ سالہ جسم کا آپس میں ٹکراؤ ہی نہ ہو جائے۔

ادھر خبر آئی ہے کہ عوام دوست وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تمام وزرائے اعلیٰ کو خط ارسال کئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنے اپنے ضلع میں اشیائے خوردو نوش اور دیگر چیزوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کو روکنے کا بندوبست کریں۔ رمضان المبارک میں قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھنے کے لئے اقدامات کریں۔ امید ہے یہ خطوط وزرائے اعلیٰ کو موصول ہو چکے ہوں گے، اور وہ بھی پہلی ہی فرصت میں وفاقی حکومت کے ان احکامات کو عملی جامہ پہنا کر اشیائے خوردونوش اور اشیائے صرف کی قیمتوں کو کم کردیں گے۔ تاہم اپنے وزیراعلیٰ چونکہ برطانیہ میں ہیں اس لئے یہ خط یقینا انہیں نہیں ملا ہوگا، مگر جب وہ ویڈیو لنک کے ذریعے احکامات جاری کرتے ہیں تو یہاں والی انتظامیہ کا فرض تھا کہ وہ خط میاں صاحب تک پہنچا دیا جاتا۔ خیر وزیراعلیٰ ایسے خطوط کے محتاج نہیں، وہ خود بھی اس قسم کے معاملات میں کافی سرگرم رہتے ہیں۔ ہر سال کی طرح اب بھی رمضان میں وزراء، مشیروں اور پارلیمانی سیکریٹریوں وغیرہ کی ڈیوٹیاں لگائی جا چکی ہونگی، یہ لوگ شہر شہر جائیں گے، ماڈل بازار اور رمضان بازاروں پر چھاپے ماریں گے، اور قیمتوں کو کنٹرول رکھنے کی اپنی سی کوششیں کریں گے، حکومتی انداز کے مطابق وہ ایسے بازاروں پر اظہارِ اطمینان کریں گے ۔ قوم چیختی رہے گی کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کردیا گیا ہے، مگر حکومتی نمائندے اپنے قول پر مُصر رہیں گے کہ رمضان بازاروں میں یہ چیزیں کنٹرول ریٹ پر فروخت ہورہی ہیں۔ دونوں فریق اپنی جگہ سچے ہیں، دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کتنے فیصد لوگ ان رمضان بازاروں تک رسائی رکھتے ہیں اور کتنے عام بازاروں کا رخ کرتے ہیں؟

قیمتوں کو قابو کرنے کے حکومتی عزائم ایک طرف، دوسری طرف یہ خبر بھی آئی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں نے بھی گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنی رٹ قائم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے، یا ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور اپنے مشن میں کامیاب ہوتے ہیں، کہ سال بھر میں رمضان المبار ک ہی ان کے لئے ایسا مہینہ ہوتا ہے، جس میں کھل کر لوٹ مار کی جاسکتی ہے۔

ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ ٹی او آرز پر بنائی گئی کمیٹی ناکامی کے کنارے تک پہنچ چکی ہے، اپوزیشن کا قول ہے کہ حکومت ایک قدم پیچھے ہٹے، ہمیں سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ عوامی نمائندوں کی دلچسپی اور سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ اسمبلی کا کورم پورا نہ ہونے پر حکومت کو سُبکی کا سامنا کرنا پڑا اور اپوزیشن لیڈر نے بجٹ پر بحث سے انکار کردیا۔ ویسے اپوزیشن سڑکو ں پر آنے کا شوق پورا کرلے، کیونکہ وزیراعظم فرما چکے ہیں کہ’’ قسمت کی بات ہے، ہم سڑکیں بناتے ہیں اور ’وہ‘ سڑکوں پر آتے ہیں‘‘۔ نظامِ ہستی چل رہا ہے، ہر کوئی اپنی اپنی ڈگر پر قائم ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472766 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.