اقتدار کے بھوکے ہمارے ہیرو نہیں ہو سکتے
(Syed Anis Bukhari, Karachi)
پوری دنیا جارحیت اور بیہیمانہ قتل و غارت
گری کے خلا ف ہے اور اس سے نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ خواہ یہ دنیا کے کسی بھی
مذہب و ملت سے تعلق رکھتی ہو۔ جہاں بھی طاقت کے نشے میں مخمور ظالم اور
جابر حکمران اپنی شاہی سلطنت کی حدود کو وسعت دینے ، معیشت پر قبضہ کرنے
اور کمزوروں کے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے جنگ مسلط کرتے رہے وہاں ہزاروں
نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں کا گاجر مولی کیطرح بے رحمی اور انتہائی ظالمانہ
طریقے سے قتل کیا گیا ۔ہماری تاریخ اس جارحیت اور بیہیمانہ قتل و غارت گری
، وحشت و درندگی کے شرمناک واقعات سے بھری پڑی ہے جس سے انسانیت بھی شرما
جائے۔
ہماری بحیثیت مسلمان یہ روایت رہی ہے کہ ہم نے اپنے مسلم حکمرانوں کے ڈھائے
جانے والے مظالم اور بربادیوں کی داستانیں اور قصے انتہائی فاخرانہ طور پر
بیان کئے ہیں اور ہمارا یہ متشدادانہ رویہ آج بھی ہمارے مختلف اعمال اوراور
افعال سے ظاہر ہوتا ہے۔ بنو قریش، بنو ہاشم بنی امیہ، بنو عباس، فاطمیداور
اسی طرح مسلمانوں کے دوسرے قبیلے آپس میں بر سر پیکار رہے اورآپس میں ہی
ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا۔مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کشت و خون کے
پیچھے قبیلوں کی آپس کی نفرت ، اقتدار اور سلطنت کا لالچ تھا۔ اصل اسلام کی
مسخ شدہ حالت پر تعمیر کی جانے والی موجودہ اسلام کی عمارت میں کافی ردو
بدل ہوتا رہا اور اسلامی سلطنتوں کے ان فرمانرواؤں نے اپنی مرضی سے مذہب
میں بہت سی چیزوں کو تحریف و تبدیل بھی کیا ۔ ہزاروں دینی کتابیں اور
انتہائی مقدس نسخے جلا دیئے گئے ۔تشدد کا یہ عالم تھا کہ جن مسلمان
فرمانرواؤں کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں انہوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا
اور ان کے سروں کے پہاڑ بنا ڈالے یہاں تک کہ عوررتوں اور بچوں کو دیواروں
میں چنوا دیا گیا۔ اور یہ متشددانہ رویہ آج بھی فرقہ وارانہ شکل میں موجود
ہے اور مسلمان مسلمان کو انتہائی بے دردی سے قتل کر رہے ہیں۔
ہم اپنے بچوں کے پارکوں میں ٹینکوں اور توپوں کے ماڈل لگانے کو اہمیت دیتے
ہیں، اسی طرح ہم اپنے بڑے بڑے شہروں کے بڑے بڑے چوکوں پر جنگی ہوائی جہاز
نصب کرکے اپنے متشددانہ رویے کا اظہار کرتے ہیں جس سے ہمارے بچوں کے دلوں
میں تشدد پسند رویہ ابھرتا ہے، ہم تصویروں کے ذریعے اور اپنے دار الحکومت
میں ماڈل کے طور پر چاغی کے پہاڑوں میں ایٹم بم کی تباہی کا منظر دکھا کر
یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم جنگ و جدل کو پسند کرتے ہیں، ہم اپنی بڑی بڑی
عمارتوں پر میزائیل کے ماڈل لگا کر اپنے آپکو جنگی جنونی ثابت کرتے ہیں اور
متشددانہ رویوں کو ہوا دیتے ہیں، ہم تلواروں اور خنجروں کو اپنے گھروں کے
ڈرائینگ روم میں سجا کر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم جنگجو ہیں۔ ہمارے
بچے علامہ اقبال کو ایک فلسفی کے طور پر کم اورانکے وہ اشعار جن میں
متشددانہ رویہ پایا جاتا ہے جیسا کہ ـ’’ بحر ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم
نے‘‘ یا پھر انکے وہ اشعار جن میں معصو م پرندوں پر جھپٹ کر انہیں مار دینے
والے شاہین کا ذکر آتا ہے ہمارے بچے انہیں اس حوالے سے ذیادہ جانتے ہیں ہم
نے اپنے بچوں کے اذہان میں متشددانہ رویوں کو ہوا دی ہے ہم نے اپنے بچوں کو
کتاب سے محبت کرنا نہیں سکھایا۔ ہم ہمیشہ اپنے خیالات کو مسلط کرنے کیلئے
جنگ و جدل سے پوری دنیا پر اپنی حکومت کرنے کے قائل رہے اور نہ چاہتے ہوئے
بھی دوسروں پر اپنے نظریات کو طاقت کے بل بوتے پر مسلط کرنے میں ہمیشہ کوئی
دقیقہ فروگزاشت نہ رکھا گیا جو ہماری تاریخ سے واضح ہے ۔ جبکہ ہمارا دعویٰ
ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا ۔ مسلمانوں کی تاریخ اس بات کی
گواہ ہے کہ ہم نے اسلام کے نام پر دوسرے ممالک پے حملے کئے انہیں تہہ تیغ
کیا اور وہاں پر اپنی سلطنت قائم کی جبکہ اسلام میں سلطنت کا کوئی تصور
نہیں ہے اور نہ ہی اسلام ہمیں دوسروں کی عبادتگاہوں اور یادگاروں کو مسمار
کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔
مسلمانوں کی شاہی حکومت جو غیر مسلموں کے خلاف رہی لاکھوں میلوں پر محیط
تھی اور یہ سلطنت برطانوی راج سے ذیادہ طویل اور وسیع تھی اور مسلمانوں کی
نفسانی خواہش پر مشتمل یہ سلطنت جنوبی فرانس سے لیکر فلپائن تک پھیلی ہوئی
تھی ۔ اسی طرح آسٹریا سے نائیجریا اور وسطی ایشیا سے لیکر نیو گینیا تک ۔
یہ شاہی سلطنت کی انتہائی فصیح و بلیغ تعریف ہے کمزور ممالک پر حملہ کرنا
اور ان پر دسترس حاصل کرنا ، انکی معیشت پر قبضہ کرنا اپنی سلطنت کو وسعت
دینا اسکی حدود میں اضافہ کرنا اور مردوں کو غلام بنانا اور عورتوں کو
لونڈیاں بنا کر اپنے ساتھ لیجانا اور ان سے ان کی مرضی کے بغیر تمتع کرنا
ہماری تاریخ کا حصہ رہا ہے۔مسلمانوں کی مرکزی حکومت ہمیشہ دمشق ، بغدا،
استنبول ، مصر اور اسی طرح دوسری عرب سلطنتیں رہیں۔ قاضی ، گورنر اور
عدالتیں مسلمانوں کے قوانین کے تحت ہوا کرتے تھے اور تمام اختیارات مسلمان
حکمرانوں کی مرضی سے مسلط کئے جاتے تھے۔ عربی زبان کو حکمرانوں کی زبان کے
طور پر وہاں کے لوگوں پر مسلط کر دیا جاتا تھااور وہاں کی مقامی زبانیں
آہستہ آہستہ دم توڑ جاتی تھیں۔مسلمان حکمران اور انکے حواری ٹیکس کی
ادائیگی سے ماورا تھے جبکہ وہاں کہ مقامی آبادی سے ٹیکس وغیر ذبر دستی وصول
کیا جاتا تھا۔ غیر مسلم اسلحہ نہیں رکھ سکتے تھے جبکہ مسلمانوں کو اسے
رکھنے کی اجازت ہوتی تھی۔ غیر مسلم گھوڑے پر سوار نہیں ہو سکتے تھے جبکہ
مسلمان سوار ہو سکتے تھے۔ غیر مسلموں کو عبادتگاہیں تعمیر کرنے کی اجازت
نہیں تھی جبکہ مسلمان کر سکتے تھے۔ غیر مسلموں سے ہر طرح کا ٹیکس لیا جاتا
تھا جبکہ مسلمان اسے مستثنیٰ ہوتے تھے۔ غیر مسلموں کو ذبر دستی مسلمان کیا
جاتا تھا اور نہ ہونے کی صورت میں ان پر ظلم اور تشدد کیا جاتا تھا۔ غیر
مسلموں کو مسلم قانون کے تحت زندگی گزارنے کی اجازت تھی نہ کہ وہ اپنی مرضی
سے اپنے مذہب اور قانون کے مطابق زندگی گزارنے کی۔ مسلمان فاتحین نے شمالی
افریقہ ، سپین، پرتگال اور جنوبی فرانس میں خونریز جنگیں لڑیں جن میں
لاکھوں غیر مسلموں کا خون بہایا گیا یہانتک کہ مسلمانوں میں موجود دوسرے
فرقوں کے مسلمانوں پر بھی ظلم و ستم روا رکھا جاتا اور انکی مار ڈھار کی
جاتی اور انکا اختتام وسطی فرانس میں سخت خونریزی کی صورت میں ہوا۔اسکے
علاوہ عبادتگاہوں، یادگاروں، مزاروں، عمارتوں ، لائبریریوں کا مسمار کیا
جانا، انہیں جلا دینا، سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کی لوٹ مار بھی ہماری
تاریخ کا ہی حـصہ ہیں اور یہاں پر ہونے والی خانہ جنگی اور اسکے نتیجے میں
ہونے والی قتل و غارت گری بھی ہماری تاریخ کا سیاہ باب رہینگی۔ اسی طرح وہ
صلیبی جنگیں جو مذہبی جنون کی پیدا وار تھیں انمیں لاکھوں بے گناہوں کا قتل
عام کیا گیا جو 1291 - 1095 تک جاری رہیں جنکا بڑا مقصد اپنی کھوئی ہوئی
طاقت کو بحال کرنا اور اپنی مذہبی عبادتگاہوں کو واپس حاصل کرنا تھا انکی
بنیاد بھی مذہب ہی تھا۔ ہم اپنے ہیروز کا تذکرہ فاتحانہ انداز میں کرکے بہت
خوش ہوتے ہیں اور انہیں اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں حالانکہ ہم سمجھتے ہیں کہ
ہمارے ہیروز محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور طارق بن ذیاد ہیں جو حقیت میں
ہمارے ہیرو نہیں ہیں بلکہ وہ تو وہ بیرونی حملہ آور تھے جو طاقت کے نشے میں
مخمور دولت،سونا چاندی اور اجناس کی لوٹ مار اور زمین پر قبضہ کرنے کی خاطر
اپنی طاقت کے زعم میں کمزور ممالک پر حملے کرکے اپنی سلطنت کو وسعت دیتے
اور انکی لوٹ مار میں مصروف رہتے تھے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ایک خاص طبقہ فکر یا
پھر مکتبہ فکر کے لو گ جو بنی امیہ یا پھر بنو عباس سے تعلق رکھتے تھے یہ
وہی خاندان تھے جنہوں نے مختلف ممالک میں اپنی سلطنت کو وسعت دینے کیلئے شب
خون مارا اور اپنی حکومتیں قائم رکھنے کیلئے اپنے نبی کی اولاد پر وہ وہ
ظلم وستم ڈھائے کہ تاریخ کے اوراق بھی انہیں رقم کرتے ہوئے شرما جاتے
ہیں۔یہی مخصوص مکتبہ فکر کے لوگ آج بھی پوری دنیاکے امن کو بہہ و بالا کرنے
پر تلے ہوئے ہیں اور اسلام کے نام پر خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں ملوث
پائے جاتے ہیں۔محمد بن قاسم بنو امیہ کے قبیلے کے گورنر حجاج بن یوسف کا
بھتیجا تھاجس نے سندھ پر اپنے 6000 اونٹوں پر سوار فوجیوں کیساتھ دیبل کی
بندر گاہ پر حملہ کیا انکے پاس منجنیق بھی تھیں۔ دیبل کے مقام پر خون ریز
جنگ ہوئی اور دیبل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی جس میں ہزاروں لوگوں کو مارا
گیا وہا ں سے سیہون شریف اور پھر ملتان کیطرف بڑھے جہاں پر ہزاروں لوگوں کو
مارا گیا انکے گھروں کو لوٹ لیا گیا اور لوٹا ہو امال غنیمت جس میں سونا
چاندی اور اجناس کے علاوہ غلام اور لونڈیوں کے علاوہ راجہ داہر کی دو
انتہائی خوبصورت کنواری بیٹیاں بھی تھیں جنہیں خاص طور پر بغداد کے خلیفہ
کو اسکے حرم کی زینت بنانے کیلئے تحفے کے طور پر بھیجا گیا۔ مگر راستے میں
ہی ان دونوں بہنوں نے محمد بن قاسم کے بارے میں ایک پلاننگ کی جس میں وہ
کامیا ب ہو گئیں۔ جب حجاج بن یوسف کو معلوم ہوا تو محمد بن قاسم کو بیل کی
کھال میں لپیٹ کر سی دیا گیااور سڑکوں پر گھسٹوایا گیا جس سے وہ دم گھٹنے
سے مر گیا۔محمد بن قاسم نے یہاں کے لوگوں کو ذبردستی مسلمان بنایا یہاں کے
لوگوں پرعرصہ حیات تنگ کر دیا گیا انکا مال و متاع لوٹ لیا گیا انکے ریشم،
کمخواب اور زیورات پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی جو لو گ یہ پہنتے تھے
انہیں تہہ تیغ کر دیا جاتا۔حجاج بن یوسف انتہائی ظالم اور جابر شخص تھا
اسنے مکہ میں ایک لاکھ لوگوں کا قتل عام کیا ۔ یہاں تک کہ کعبہ کو بھی نہ
چھوڑا اور منجنیق سے اسے بھی تباہ کروا دیا۔ اسنے حضرت محمد ﷺ کے دو
صحابیوں جابر بن عبداﷲ اور عند اﷲ بن زبیر کو قتل کروایا۔ اسنے یہ شرط رکھی
کہ جب تک حضرت ابو بکر کی بیٹی اسماء عبداﷲ بن زبیر کی لاش کی بھیک نہیں
مانگے گی یہ لاش اسی طرح پڑی رہیگی اور اسکے سوا کسی کے حوالے نہیں کی
جائیگی۔ حجان بن یوسف کے بارے میں ابن داؤد کی کتاب کتاب المصاحف میں لکھا
ہے کہ اس شخص نے بزور تلوار قرآن پاک میں گیارہ تبدیلیاں کروائی تھیں( دروغ
بر گردن راوی)۔حجاج بن یوسف نے فارسی بولنے پر پابندی عائد کردی اور فارسی
بولنے کی پاداش میں یہ حکم جاری کر دیا کہ فارسی بولنے والے اور لکھنے والے
ہر شخص کو قتل کر دیا جائے۔تمام ایرانی لائبریریوں اور انمیں موجو د ہزاروں
کتب کو جلا دیا گیا۔ حجان بن یوسف نے عربی ثقافت کے تسلط کیلئے ایرانی کلچر
کو یکسر ختم کرنے کیلئے فارسی بولنے والوں کا قتل عام کیا ااور ان پر مظالم
ڈھائے گئے جو ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہیں۔
سلطان محمود غزنوی افغانستان کا رہنے والاتھا اسے یمین الدولہ، امین الملک
کے خطابات خلفیہ بغداد کی طرف سے عطا کئے گئے تھے۔وہ سلطنت غزنی کا
فرمانروا تھا اور تاریخ اسلام کا وہ پہلا حکمران تھا جس نے سلطان کا لقب
اختیا ر کیا۔وہ ہندوستان پر ہر سال حملہ کرتا اور یہاں سے سونا چاندی دوسرے
قیمتی لعل وجواہرات اور غلہ کی لوٹ مار کرتا یہاں کے لوگوں کی مار ڈھاڑ
کرتا اور لوگوں کو غلام بنا تا اور انکی گردنیں کاٹ دیا کرتا تھا۔ محمود
غزنی نے ملتان میں قائم شدہ مسلمان اسماعیلی ریاست کے خلاف 965میں مہم
چلائی اورخلافت فاطمید کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ایک چال کے ذریعے عباسی
خلیفہ کا ساتھ دینے پر زور دیا۔ 1001ء میں جے پالا کو گرفتار کر لیا گیا
بہت خون بہایا گا خواتین اور مردوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں جے پالا
کو رہا کر دیا گیا مگر وہ اپنی بے عزتی برداشت نہ کر سکا اور اسطرح اسنے
خود کشی کرلی۔اسنے ملتان اور بھاٹیہ پر 1005-1006میں بھرپور حملے کئے سکھا
پالا کی حکومت کو نیست و نابود کر دیا۔ محمود غزنوی نے کشمیر، لاہور،
ملتان، ماتھرا، گوالیار، سومنات او رکَچھ پر بھی حملے کئے اسکے علاوہ
ہندوستان اور موجودہ پاکستان کے بہت سے علاقوں پر حملے کئے انکی لوٹ مار کی
او ر مرد و زن کو گرفتار کر لیا گیا انکا مال و متاع لوٹ لیا گیا۔ سمندر کے
مشرقی کنارے پر واقع گجرات کے مقام پر واقع سومنات کے مندر پر ہر سال حملہ
کرکے یہاں سے تمام سونا چاندی، ہیرے جواہرات، غلہ اور دوسری قیمتی اشیاء کی
لوٹ مار کی جاتی لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتااور مندر کو تہہ و تیغ
کرکے اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی اور اسے مکمل طور پر تباہ و برباد کر
دیا جاتااور مردوں اور عورتوں کو باند ی بنا کر اپنے ساتھ لے جاتے کئی مرد
وزن راستے میں ہی جان سے مار دئے جاتے۔سومنات کے مندر پر محمود غزنوی نے ۱۷
حملے کئے جو ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو
ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کی بہت سی روایات کو مسلمانوں کے ہیروز
نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کیلئے تحریف و تبدیل کر دیا اور یہ اس بات
کا ثبوت ہے کہ اسلام کے اصل جوہر کو بگاڑ کر اسکی اصل شکل کو تبدیل کر دیا
گیا۔نصاب کی کتابوں میں جن حملہ آوروں کو ہمارے ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا
ہے اصل میں وہ تمام مسلمان فرقوں کے ہیرو نہیں ہو سکتے اور نہ ہی انہیں بعد
میں ہندوستان میں ذبردستی مسلمان بنائے جانے والے انہیں اپنا ہیرو تسلیم
کرتے ہیں ۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تمام کے تما م بیرونی حملہ آور تو
ہو سکتے ہیں مگر کسی طور بھی مسلمانوں کے ہیرو نہیں ہو سکتے۔ |
|