محمد بن قاسم کے حملے کے کوئی تین سو سال
بعد غزنی کے ایک مسلمان ترک بادشاہ نے ہندوستان پر لگاتار سترہ حملے کیے
اور ہر بار فتح و نصرت نے اس کے قدم چومے وہ قلب ہند اور گجرات کا ٹھیاواڑ
میں بحیرہ عرب کے ساحل تک جا پہنچا مگر اس نے اپنی سلطنت کو لاہور ہی تک
محدود رکھا۔ یہ محمود غزنوی تھا جس کے کارناموں سے تاریخ کے صفحات مزین ہیں۔
محمود 971ء میں پیدا ہوا۔ چھ برس کا تھا کہ باپ غزنی کا بادشاہ بنا۔ پندرہ
سال کی عمر میں باپ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہونے لگا اور اس کی بہادری اور
جرات کے چرچے ہونے لگے، چنانچہ اس کے باپ نے اس کو خراسان کا حاکم بنا کر
بھیج دیا۔ تعلیم نہایت عمدہ پائی تھی، فقہ، حدیث، تفسیر کی کتابیں پڑھیں،
قرآن مجید حفظ کیا۔ ابتدائی عمر میں فقہ پر خود ایک کتاب بھی لکھی۔
شمالی ہند کا راجا جے پال غزنوی کے باپ کے زمانے میں دو دفعہ غزنی پر حملہ
کرچکا تھا، جب محمود چھبیس سال کی عمر میں باپ کا جانشین ہوا تو جے پال نے
تیسری دفعہ حملہ کردیا۔ محمود نے اس کو شکست دی اور گرفتار کرلیا۔ راجا نے
بڑے وعدے وعید کرکے رہائی حاصل کی۔
محمود غزنوی ایک سپہ سالار اور فاتح کی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ علم و فن کی
سرپرستی کے اعتبار سے بے نظیر حکمراں تھا۔ بڑے بڑے عالم اور شاعر اس کے
دربار میں موجود تھے۔ فردوسی کی سرپرستی کرکے اس نے شاہنامے کی تکمیل کرائی۔
غزنی میں بڑے بڑے مدرسے قائم کیے۔ اہل علم کی امداد پر لاکھوں روپیہ سالانہ
صرف کرتا۔ وہ نہایت نیک دل مسلمان تھا۔ اس نے کسی کو جبراً مسلمان نہیں
بنایا اور کسی کو میدان جنگ کے باہر قتل نہ کیا۔ 1022 میں محمود غزنوی نے
پنجاب کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ 1026 میں سومنات فتح کیا اور 1030 میں
59 سال کی عمر پا کر انتقال کرگیا۔ غزنی کے موجودہ قصبے سے تین میل باہر اس
کا مقبرہ ہے۔
غزنوی کے بارے ایک مشہور قصہ ہے کہ ایک ﺭﺍﺕ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﯽ
ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽﺟﺐ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ وزیروں ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﮐﺴﯽ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﭘﺮ ﺁﺝ ﮐﻮﺋﯽ ﻇﻠﻢ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ
ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺁﺅ۔ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ
ﻟﮕﮯ : " ﺳﻠﻄﺎﻥ، ﮨﻤﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ , ﺁﭖ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺳﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ "
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺐ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﭙﮍﮮ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻼ۔
ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻮﺍﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﻡ ﺳﺮﺍ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯼ " : ﺍﮮ
ﺍﻟﻠﮧ ! ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺼﺎﺣﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺶ ﻭ ﻋﺸﺮﺕ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭ
ﺭﮨﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﻋﻘﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﯾﮧ ﻇﻠﻢ ﺗﻮﮌﺍ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ "
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : " ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺭﺳﯽ
ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﯾﺎ ﮬﻮﮞ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﯿﺎ ﻇﻠﻢ ﮬﻮﺍ ﮬﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ؟ "
" ﺁﭖ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺹ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﺮ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﺎ
ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺗﺸﺪّﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ "
" ﺍِﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﮐﮩﺎﮞ ﮬﮯ؟ "
" ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺏ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﮬﻮ۔ "
" ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﺁ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ "
ﭘﮭﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﻥ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺩﺭﺑﺎﺭ
ﺁﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﻭ۔ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮬﻮﮞ ﺗﻮ ﭘﺮﻭﺍ
ﻣﺖ ﮐﺮﻭ۔ ﺍﮔﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ۔
ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﭼﺮﺍﻍ ﺑﺠﮭﺎ ﺩﻭ۔ ﭘﮭﺮ
ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺲ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﺳﺮ ﺗﻦ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﭘﮭﺮ
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﭼﺮﺍﻍ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ
ﮔﺮ ﭘﮍﺍ۔ ﭘﮭﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : " ﺍﮔﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮬﻭ ﺗﻮ ﻟﮯ ﺁﺅ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ
ﺳﺨﺖ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ ﮬﮯ۔ "
" ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺠﮫ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ؟ " " ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﻟﮯ
ﺁﺅ "!
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﻻﯾﺎ ﺟﺴﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﺭﻏﺒﺖ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞﮐﻮ ﺑﺠﮭﺎﻧﺎ، ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﭨﯽ ﻃﻠﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ
ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﺧﺮ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﺟﺮﺍ ﮬﮯ؟ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ " : ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﻨﯽ
ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤّﺖ ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺴﯽ ﺑﯿﭩﮯ یا
بھتیجے ﮐﻮ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮬﮯ۔ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﺪﺭﺍﻧﮧ ﺷﻔﻘﺖ ﻣﯿﺮﮮ
ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺋﻞ ﻧﮧ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ۔ ﭼﺮﺍﻍ ﺟﻠﻨﮯ ﭘﺮ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ
ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺪۂ ﺷُﮑﺮ ﺑﺠﺎﻻﯾﺎ۔ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﺎﻧﮕﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺳﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﮨﻮﺍ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺟﺐ
ﺗﮏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﻭﭨﯽ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ۔ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
-
سلطان محمود غزنوی نے دنیا میں تینتیس 33 سال حکومت کی اور اس وقت کا دنیا
کا شجاعت اور دنیا پر اثر و رسوخ رکھنے والا دوسرے نمبر کا بادشاہ تھا۔
پہلے نمبر پر چنگیز خان تھا دوسرے نمبر پر محمود غزنوی تھا تیسرے نمبر پر
سکندر یونانی تھا چوتھے پر تیمور لنگ تھا اور یہ دوسرے نمبر کا بادشاہ تھا
سلطان محمود غزنوی۔
1974 میں شہر غزنوی میں زلزلہ آیا جس سے سلطان محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی
اور مزار بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تو اس وقت کے افغانستان کے بادشاہ
ظاہر شاہ مرحوم نے دوبارہ مزار کی تعمیر نو کی اور قبر کو مرمت کروایا۔
تعمیر کے مقصد کے لئے قبر کو پورا کھول دیا گیا کیونکہ قبر نیچے تک پھٹ گئی
تھی جب قبر کو کھولا گیا تو قبر کے معمار اور قبر کی زیارت کرنے والے حیران
رہ گئے کہ قبر کے اندر سے ہزار سال سے مرے ہوئے اور تابوت کی لکڑی صحیح
سلامت ہے سب لوگ حیران اور ورطہ حیرت کا شکار ہوگئے تابوت صحیح سلامت ،
ہزار سال گزرنے کے باوجود ، حکام نے تابوت کو کھولنے کا حکم دیا تو جس آدمی
نے کھولا تو پلٹ کر پیچھے گرا اور بےہوش ہوگیا تو جب پیچھے لوگوں نے آگے
بڑھ کر دیکھا تو وہ سلطان جو تینتیس سال حکومت کرکے مرا اور مرے ہوئے ہزار
سال گزر چکے ہیں وہ اپنے تابوت میں ایسے پڑا تھا جیسے کوئی ابھی اس کی میت
کو رکھ کے گیا ہے اور اس کا سیدھا ہاتھ سینے پر تھا الٹا ہاتھ اور بازو جسم
کے متوازی سیدھا تھا اور ہاتھ ایسے نرم جیسے زندہ انسان کے ہوتے ہیں اور
ہزار سال مرے بیت چکے ہیں یہ اللہ تعالیٰ نے ایک جھلک دیکھائی کہ جو میرے
محبوب کی غلامی اختیار کرتے ہیں وہ بادشاہ بھی ہو گئے تو وہ اللہ کے محبوب
بن کے اللہ کے پیارے بن کے اللہ کے دربار میں کامیاب ہو کر پیش ہوگے۔زندگی
مختصر ہے اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے وقت کے آگے طاقت ور سے طاقت ور بادشاہ
کمزور اور بے بس ہے وقت کو کوئی نہیں روک سکتا لیکن وقت پر جس شخص نے اللہ
کی مخلوق کی بہتری، بھلائی اور اللہ کی خوشنودی کو مقدم رکھا وہی شخص مرنے
کے بعد بھی لافانی ہے۔
ہمیں پھر سے سلطان محمود غزنوی جیسے سپہ سالار اور حکمران نصیب فرمائے آمیں |