آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے اٹوٹ انگ
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
|
اسلام آباد میں دو روزہ انٹرنیشنل کشمیر
سیمینار اب ماضی کا حصہ بن گیا ہے تاہم بد انتظامی،نااہلی اور تنازعات کی
کئی کہانیوں نے جنم لے لیا ہے ۔میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (مسٹ)
کے زیر اہتمام دو روزہ انٹرنیشنل کشمیر سیمینارکوئی نتیجہ دیئے بغیر ختم ہو
گیا ہے تاہم مالی سال کے اختتام پر اس مد میں رکھا گیا بجٹ واپس ہونے (
لیپس ہونے )سے بچ گیا ہے ۔سیمینار کا اہتمام یکم اور دو جون2016 کو جناح
کنونشن سنٹر اسلام آباد میں کیا گیا تھا۔میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے
سوچتا کوئی اور ہے ،میں خواب ہوں کسی اور کا مجھے دیکھتا کوئی اور ہے کہ
مصداق مسٹ یونیورسٹی مسلہ کشمیر پر دوروزہ سمینار بلانے کی کردار ساز(
ماسٹر مائنڈ) نہیں تھی مگر اہتمام مسٹ کے نام پر ہوا۔سیمینار کا حقیقی
انتظام کشمیر میڈیا سروس کے سربراہ شیخ تجمل الاسلام نے حریت کانفرنس آزاد
کشمیر شاخ کے پانچ ارکان عبدالحمید لون ، عبدالمتین ، جاوید جہانگیر ،
شہزاد وانی اوراشتیاق حمید کی معاونت میں کیا تھا۔دوسرے لفظوں میں مقتدر
قوتوں نے شیخ تجمل الاسلام کے زریعے مسٹ اور حریت کانفرنس کے کندھے پر
بندوق رکھ کر فائر کیا تھا تاہم اس فائر سے بھارت کا کوئی نقصان تو نہیں
ہوا کشمیریوں کی یکجہتی متاثر ہوئی کشمیری رہنمائوں کے اندر بد اعتمادی اور
ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے جذبات میں اضافہ ہوا۔سیمینار میں آزاد کشمیر کی
سرکردہ سیاسی قیادت اور گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں تھی جس کی وجہ سے
قضیہ کشمیر کے مختلف پہلووں اور مختلف معاملات پر کشمیری سماج کے تمام
طبقوں اور سیاسی قوتوں کی رائے سامنے نہیں آسکی ۔ اہم بات یہ ہے سمینار کے
ٹیکنیکل سیشنز میں مسلہ کشمیر کے ممکنہ حل ، کشمیریوں کا حق خود ارادیت ،
کشمیریوں کا مطالبہ آزادی جیسے اہم موضوعات شامل نہیں تھے ،کنونشن سنٹر کے
مرکزی ہال میں ایک بڑے بینر تلے سیمینار کی افتتاحی تقریب میں کئی کہانیوں
، تنازعات اور بد اعتمادی نے جنم لیا اس بینر پر آزاد کشمیر اور گلگت
بلتستان کے نقشے کو پاکستان کے نقشے میں ضم دکھایا گیا یعنی آزاد کشمیر اور
گلگت بلتستان پاکستان کے اٹوٹ انگ ہیں۔ چونکہ سیمینار میں کشمیریوں کی
حقیقی قیادت شامل نہیں ہوئی اس لیے اس منصوبے یا غلطی پر کسی نے بھی رد عمل
کا اظہار نہیں کیا، این جی اوز طرز کی مصنوعی قیادت نے گلگت بلتستان اور
آزاد کشمیر کو پاکستان کے نقشے میں قبول کر لیا اور اسی نقشے تلے اجتماعی
تصاویر بنوا کر بے عزتی کا طوق اپنے گلے میں لٹکا لیا۔ بھارت کے زیر انتظام
جموں وکشمیر سے آئے ہوے حریت کانفرنس کے رہنماء آغاء حسن بڈگامی کی حریت کے
موقف سے برعکس تقریر شاید اسی سلسلے میں ردعمل تھا۔آغا سید حسن بڈگامی حریت
کانفرنس علی گیلانی گروپ میں شامل ایک رہنما ہیں ۔ وہ بھارت کے زیر انتظام
جموں وکشمیر میںانجمن شرعی شیعان نامی تنظیم کے سربراہ ہیں ۔ اگرچہ حریت
کانفرنس علی گیلانی گروپ نظریہ الحاق پاکستان کی علمبردار تنظیم ہے۔ علی
گیلانی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کا پاکستان سے الحاق ان کے نظریہ کا مرکزی نقطہ
ہے مگر آغا سید حسن بڈگامی خود مختار کشمیر کے حق میں دلائل دیتے رہے ۔
لگتا تھا جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کی طرح غا سید حسن بڈگامی بھی آزاد و خود
مختار جموں وکشمیر چاہتے ہیں ۔ بڈگامی نے اپنے خطاب میں کشمیر کے آزاد و
خود مختار ریاست کے کردار کو اجاگر کیا۔ اگرچہ آغا سید حسن بڈگامی ماضی میں
خود مختار کشمیر کے حامی نہیں رہے تاہم وہ نظر یہ خود مختار کشمیر کے بڑے
ترجمان کے روپ میں سامنے آئے ان کا کہنا تھا کہ 1947 تک کشمیر ایک آزاد
وخود مختار ریاست تھی۔آزاد و خود مختار ریاست جموں کشمیر کے حکمران مہاراجہ
ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کیا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ مہاراجہ
نے بھارت پرواضح کیا تھا کہ جب تک کشمیری عوام اس الحاق کی توثیق نہیں کریں
گے یہ عارضی تصور ہوگا۔ آغا بڈگامی کے مطابق مہاراجہ جانتے تھے کہ کشمیری
عوام خود مختار رہنے کو ہی ترجیح دیں گے۔آغا سید بڈگامی نے کہا کہ وادی
جموں ،لداخ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر ایک وحدت ہے اس وحدت کو تسلیم کیا
جائے اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔ حریت کانفرنس علی گیلانی گروپ کی
اکائی کی طرف سے نظریہ خود مختار کشمیر کی ترجمانی سے صورت حال ایسی بن گئی
تھی جسے مرغی کے نیچے بطخ کے انڈے رکھ دیے جائیں تو ان سے نکلنے والے بچے
مرغی کے بجائے پانی کی طرف دوڑیں گے ۔ صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی
سمینار کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنی تھی مگر وہ تشریف نہ لائے اسی طرح
آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ( پاکستان پیپلز
پارٹی آزاد کشمیر)،سابق وزراء اعظم بیرسٹر سلطان محمود (تحریک انصاف آزاد
کشمیر)،راجہ فاروق حیدر (پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر)،سردار عتیق احمد
خان(آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس)،جمعیت علمائے اسلام(آزاد کشمیر) کے امیر
مولانا سعید یوسف،جموں کشمیر لبریشن لیگ کے صدر چیف جسٹس (ر)عبدالمجید ملک
سمیت سرکردہ قائدین میں سے کوئی بھی سمینار میں کی افتتاحی تقریب میں شریک
نہیں ہوا۔گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن بھی افتتاحی سیشن
میں مدعو تھے تاہم وہ بھی شریک نہیں ہوے ۔بھارت کے زیر انتظام جموں
وکشمیرسے سکھ کمیونٹی کے نمائندے دیندر سنگھ سمینار میں موجود تو تھے مگر
مرکزی اور اہم افتتاحی تقریب میں بولنے کا موقع فراہم نہ کرکے یہ تاثر پید
ا نہیں ہونے دیا گیا کہ کشمیریوں کو تحریک کو سکھوں کی حمایت حاصل ہے ۔
دیندر سنگھ نے مرکزی تقریب میں بولنے کا موقع نہ ملنے پر ناراضگی کا اظہار
کیا ۔۔پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی مدعو کیا گیا تھا تاہم راجہ ظفر الحق
کے علاوہ کسی سیاسی رہنماء نے کنونشن سنٹر کا رخ نہیں کیا۔وزیر امور کشمیر
برجیس طاہر نے آزاد کشمیر کی حکمرانی کا قلم دان ہونے کے باعث سمینار میں
شمولیت ضروری سمجھی اور وہ سمینار کے دوسرے روز ٹیکنیکل میں کچھ دیر کے لیے
شامل ہوے ۔ افتتاحی سیشن میں کم و بیش دو اڑھائی سو افراد نے کشمیریوں کی
ایک دوسرے کے خلاف بداعتمادی اور نفرت کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھا جب حریت
کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے کنونیئر غلام محمد صفی کو خطاب کے لیے سٹیج پر
بلوایا گیا ابھی وہ تین جملے ہی ادا کرپائے تھے کہ انہیں خطاب کرنے سے روک
دیا گیا خاتون میزبان نے ایک چٹ ان کے سامنے رکھ دی گئی کہ جناب آپ کا وقت
ختم ہو گیا ہے اس لیے رک جائیے اور واپس اپنی نشست پر تشریف لائیے ۔ غلام
محمد صفی نے اس حکم نامے کی وصولی پر سخت برا منایا۔صفی نے انتہائی غصے میں
شرکا کو بتایا کہ میرے ابھی چھ منٹ باقی ہیں میں خطاب کیے بغیر واپس جا رہا
ہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کو خطاب کرنے کا حق نہیں اس کے
لیے وقت نہیں رکھا گیا تو کیا اس کے باوجود اسے خطاب کے لیے بلانا اور روک
دینا بدتمیزی کا مظاہرہ نہیں ؟ ایسے میںکسی معتبر شخص کو بھری محفل میں
خطاب کے لیے بلا کر روک دینا بے توقیر اور بے عزت کرنے کا منصوبہ ہو سکتا
ہے ۔ ورنہ اس محفل میں کئی دوسری سرکردہ شخصیات بھی موجود تھیں حریت رہنما
میر طاہر مسعود ،یوسف نسیم ، محمود ساغر ،فیض نقشبندی،پروفیسر نذیر
شال،شیمیہ شال ،فاروق رحمانی کو بے عزت کرنا مقصود نہیں تھا اس لیے انہیں
خطاب کی دعوت دی گئی نہ ہی ان کو خطاب کرنے سے روکا گیا۔غلام محمد صفی نے
بتایا کہ انہیں افتتاحی سیشن میں چھ منٹ خطاب کے لیے ای میل کے زریعے دعوت
دی گئی تھی مگر ایک منٹ پورا نہ کر پایا تھا کہ روک دیا گیا۔ کنونشن سنٹر
کے مرکزی ہال میں بیٹھے لوگوں نے جناب غلام محمد صفی کی عزت افزائی کا منظر
برائے راست ملاحظہ کیا اس صورت حال کو منصوبہ بندی قرار دینے میں مجھے اس
وقت آسانی ہوئی جب معلوم ہوا کہ سمینار کے لیے حریت کانفرنس گ کے چیرمین
سید علی گیلانی کا ویڈیو پیغام ریکارڈ کرنے کا کام صفی کے بجائے اشتیاق
حمید کے ذمہداری تھی حالانکہ سید علی گیلانی کے پاکستان میں نمائندے غلام
محمد صفی ہیں ۔ سمینار کے میزبان شیخ تجمل بھی سٹیج پر موجود تھے صفی کے
بعد انہوں نے بھی کچھ اعلانات کیے اگر وہ صفی کے بارے میں کچھ کہہ دیتے تو
صفی بارے بحث و مباحثہ ختم ہوجاتا۔ بدقسمتی سے صفی کے ساتھ ناروا رویہ پر
مندوبین کے استفسار پر کہا جاتا رہا کہ کیونکہ کہ علی گیلانی کا پیغام بھی
کانفرنس میں ویڈیو کی صورت میں دکھایا گیا اس لیے صفی کا خطاب نہیں بنتا
تھا۔۔برطانیہ سے کچھ ممبران پارلیمنٹ کو بھی لایا گیا تھا جو سمینار میں
علمی اور کسی فکری بحث نہ ہونے کی وجہ سے پریشانی کا شکار تھے افتتاحی
اجلاس میں کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ہی برطانوی گورے اپنے ہوٹل واپس چلے گئے
تھے۔ صدر پاکستان ممنون حسین سیمینار کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی تھے
جب وہ دستیاب نہیں ہوئے تو صدر آزاد کشمیر یعقوب خان کو بلا لیا گیا
افتتاحی تقریب کے بعد کھانے کا منظر بھی افرا تفری سے بھر پور تھا۔کسی کو
وی آئی پی روم میں کھانا ملا تو کسی کو ملا ہی نہیں، کسی کے کپڑوں پر سالن
گرا اور کسی کو میر پور کے طلبہ کے ہجوم نے کھانے کی میز تک ہی نہیں پہنچنے
دیا۔ حریت رہنما محمود ساگر ، جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر شعبہ خارجہ امور
کے سربراہ مولانا نوشہری ، اور فاروق رحمانی بے بسی کا عملی نمونہ بنے ہوے
تھے میں نے مدد کرکے مولانا نوشہری کو شوربا اور روٹی فراہم کی ۔۔افتتاحی
تقریب میں کم و بیش تین سو کے قریب افراد نے شرکت کی جن میں یونیورسٹی کے
طلبہ کی اکثریت تھی ۔ سمینار کے دوسرے روز وزیر امور کشمیر برجیس طاہر اور
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا اور جموں کشمیر پارٹی کے صدر سردار خالد
ابراہیم نے ٹیکنیکل سیشن میں شرکت کی ۔جموںکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق
کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سید نذیر گیلانی بھی سمینار میں مدعو تھے تاہم
گیلانی نے بھی سمینار میں شرکت کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اس سلسلے میں استفسار
پرڈاکٹر نذیر گیلانی نے بتایا کہ سمینار میں شرکت نہ کرنے کی کئی وجوہات
ہیں ، جس مجلس میں کسی کی عزت وقار اور مرتبہ کا لحاظ و خیال نہ رکھا جائے
وہاں جاکر بے عزت ہونے سے گھر پر رہنابہتر ہے ۔ حریت کانفرنس علی گیلانی
گروپ کے کنوینر برائے پاکستان و آزاد کشمیر غلام محمد صفی کے ساتھ ہونے
والا سلوک سمینار میں نہ جانے کے میرے فیصلے کی توثیق کرتا ہے ۔کنونشن
سینٹر اسلام آباد میں یکم اور دو جون کو انٹر نیشنل کشمیر سیمینارکی
کامیابی کا انحصار شرکا کی قضیہ کشمیر پر دور حاضر کے مطابق جدید استدلال
اور علمِ کشمیر میں مہارت سے ہونا چاہیے تھا۔ بعض شخصیات صرف اسمِ ذات تک
محدود ہوتی ہیں اور انہیں شخصیات کا عمامہ باندنے سے معتبریت کا سماں
باندھنا سعی لا حاصل ہے۔ سمینار میں قصدیت اور معتبریت کی تصدیق سامنے نہیں
آئی چنانچے یہ بھارت کے لئے بہت بڑی خوش خبری بن گئی ہے شرکا سیمینارکے لئے
لازم تھا کہ وہ با آبرو اور سرخرو ہونے میں کوئی کسر باقی نہ رکھیں مگر
سامنے آنے والے حالات و واقعات بتارہے ہیں کہ با آبرو اور سرخرو ہونے کی
کسی کو جستجو ہی نہ تھی ۔ ڈاکٹر سید نذیر گیلانی کے بقول میرپور کی جامعہ
کے ماٹو دانش اور حسنِ سیرت کی قبا پہلے دن سے پھٹ گئی تھی جب آزاد کشمیر
اور گلگت بلتستان کو پاکستان کے نقشہ میں دکھایا گیا اور یونیورسٹی کا نام
میرپور یونیورسٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (مسٹ) آزاد کشمیر ، پاکستان لکھا
گیا۔میرپور کی جامعہ نے اپنی شناخت میرپور آزاد کشمیر ۔پاکستان لکھ کر فاش
غلطی کی ہے۔ سمینار کی صورت میں اس تماشے سے بھارت گھر بیٹھے پہلا راونڈ
جیت گیا۔یہ نہائیت ہی ناقص حکمت عملی ہے۔گیلانی نے غلام محمد صفی کے ساتھ
پتش آئے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ادھر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر شعبہ
خارجہ امور کے سربراہ مولانا غلام نبی نوشہری کو پہلے روز خطاب کا موقع
نہیں دیا گیا حالانکہ انہیں بھی بطور مقرر بلایا گیا تھا۔مولانا غلام نبی
نوشہری سمینار کے پہلے روز کی بدانتظامی ، افراتفری سے اس قدر متنفر ہوئے
کہ دوسرے روز سمینار کا بائیکاٹ کر دیااور کنونشن سنتر نہیں گئے ۔کانفرنس
کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماء راجہ
ظفر الحق نے کہا کہ کشمیریوں کی تین نسلیں جدوجہد آزادی میں متاثر ہوئی
ہیںکشمیر کے مسلم اکثریت کردار کو ختم کیا جارہا ہے۔کشمیر کی ڈیموگرافی
تبدیل کی جارہی ہے۔اس سلسلے میں کشمیر میں پنڈتوں کے لیے الگ کالونی،
فوجیوں کی کالونی اور بھارتی صنعتی پالیسی کے تحت بھارت شہریوں کو بسایا جا
رہا ہے۔راجہ ظفر الحق نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر پوری پاکستانی قوم متحد
ہے اور پاکستان کا عزم ہے کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کے لیے ہر
فورم پر آواز بلند کی جائے گی کشمیر کا مسئلہ دو ریاستوں کے درمیان کوئی
سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ ایک قوم کے حق خوارادیت کا مسئلہ ہے۔انہوں نے
مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیریوں کوحق خودارادیت
دیا جائے کشمیریوں کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ہمارے لیے قبول ہوگا۔آزاد کشمیر
کے صدر سردار یعقوب خان نے کہا کہ اگر بھارت نے کشمیریوں کو حق خود ارادیت
نہ دیا اور کشمیریوں مظالم جاری رکھے تو ایک بار پھر کشمیریوں کو ہتھیار
اٹھانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔سردار یعقوب خان نے کہا کہ ہمیں مجبورنہ
کیا جائے کہ ہم پھر بندوق اٹھائیں بھارت نے تمام حدود پار کر لی ہیں اب
اقوام عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے کشمیر میں ظلم و جبر سے روکے۔انہوں نے
کہا کہ بیس کیمپ کے لوگ مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے لیے عملی مدد کے لیے
تیار ہیں۔جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر عبد الرشید ترابی کا کہنا تھا کہ
ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیریوں کوحق خود ارادیت دینے کے لیے جامع حکمت
عملی اپنائے۔۔ وزیر امور کشمیر برجیس طاہر سمینار کے دوسرے روز کنونشن سنتر
آئے ان کا کہنا تھا پاکستانی عوام اور حکومت کشمیریوں پر بھارتی ظلم و ستم
سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور عالمی سطح پر کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی
خلاف ورزیوں کے خلاف مؤثر حکمت عملی کے لیے کوشاں ہے ۔ بھارت کشمیر میں ظلم
و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔بین الاقوامی برادری انسانی حقوق کی
پامالیوں پر مکمل طور پر خاموشی اختیار کیے ہوئے اور بے حسی کا شکار ہے جو
کہ سراسر ناانصافی ہے ۔ اسی ناانصافی کی وجہ سے پوری دنیا بد امنی اور دہشت
گردی کا شکار ہے ۔ جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ سردار خالد ابراہیم
نے سمینار کے دوسرے روز خطاب میں کہا کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے پاکستان
اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں ۔ مسئلہ کشمیر فلیش پوائنٹ بن
چکا ہے ۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل حق خودارادیت ہے ۔ جنوبی ایشیاء کا امن
مسئلہ کشمیر سے وابسطہ ہے ۔کانفرنس کے دوسرے روز ممتاز حریت رہنماء و
چئیرمین جموں کشمیر سالویشن مؤمنٹ کے چئیرمین ظفر اکبر بٹ نے ٹیکنکل سیشن
سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف
ورزیوں میں ملوث ہے ۔ بھارت کا کشمیری عوام کے ساتھ ناروا سلوک پر عالمی
برادری کو نوٹس لینا چاہیے ۔عالمی برادری کی پر اسرار خاموشی سے تنازعہ
کشمیر دن بدن دیگرگوں حالات کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ انسانی حقوق کے عالمی
اداروں اور طاقتوں کو کشمیر کے حالات پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے مسئلہ کے حل
کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان محمد نفیس زکریا نے بھی
سمینار کے آخری روز خطاب کیا ان کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام کو حق
خودارادیت دینے اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل
کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کشمیری عوام کی سفارتی، سیاسی اور
اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔ ذکریا نے عالمی برداری پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ
کشمیر میں کشمیری عوام پر بھارتی مظالم روکنے کیلئے نئی دہلی پر دبا ڈالیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس
لینا چاہئے اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلوانے میں اپنا کردار ادا
کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور کشمیری عوام اقوام متحدہ کی
قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں۔ یہ تو تھی سمینار کی
روداد، سمینار کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی زبردست بحث و مباحثہ جاری ہے
اس بحث کا مرکزی سوال یہ ہے کہ کشمیر کے نام پر اتنی بڑی رقم بد انتظامی
اور نا ہلیت کی نزر کرکے جگ ہنسائی کی ضرورت کیا تھی ؟ کیا اس معرکے کے
نتیجے میں بھارت پسپا ہو گیا ہے ؟ کشمیریوں کی یک جہتی ختم کرکے ان میں
بداعتمادی کے بھیج بو کر کیا مقاصد حاصل کیے جارہے ہیں ؟ سوال یہ بھی ہے کہ
جب تنخوا دار ملازمین بے زبان ہوتے ہیں توجواب کون دے گا؟ |
|