یوپی الیکشن: مسلمانوں کی فراست کا امتحان

بی جے پی اعلیٰ قیادت اور آر ایس ایس رہنمائوں کو یقین ہے کہ ہماری پارٹی اپنے مذہبی اور فرقہ پرست ایجنڈہ کی بنیاد پر نہ صرف ہندو ووٹروں کی تائید اپنے حق میں کرے گی بلکہ مختلف جماعتوں کو انتخابی میدان میں اتار کر ریاست کے مسلم رائے دہندوں کے ووٹ بھی تقسیم کردے گی۔اصل منصوبہ مسلم ووٹوں کوغیرموثربناناہے جیساکہ آسام میں اس کایہ نسخہ کام آیا۔اس کا یہی منصوبہ ہے کہ2014 کے پارلیمانی انتخابات کی طرح مسلم ووٹوں کو کانگریس ، سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی میں تقسیم کردیاجائے۔اور اس بار تو کئی پارٹیاں ہیں جو مسلمانوں کے بیس فیصد ووٹ پر نظر ٹکائے ہوئے ہے ۔ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اگر آپس میں متحدہ محاذ بناکر بی ایس پی کے ساتھ الیکشن لڑیں تو نتیجہ بہتر آنے کی اُمید ہے ۔ نہیں آسام جیسا حشر ہونا یقینی ہے۔مسلم نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیکولرپارٹیوں کے ساتھ گفت وشنیدکریں،مہاگٹھ بندھن یابی ایس پی کے ساتھ مسلم مسائل پربات کرکے سیاسی حصہ داری کامطالبہ کریں،پھرمضبوط حکمت عملی کے ساتھ ایک مضبوط متبادل اتحادسامنے لائیں۔اب جبکہ الیکشن قریب ہے اور موجودہ سماج وادی پارٹی اپنی میعاد کو مکمل کرنے کے کگار پر ہے، تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے انتخابی منشور کو طے کرلیا ہے۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کا کہنا ہے کہ ہم دو تہائی اکثریت حاصل کرکے یوپی میں حکومت بنائیں گے۔ مایاوتی نے بھی دوبارہ اقتدار کے حصول کیلئے اپنا سارا دم خم لگا رکھا ہے۔ اور دھمکی بھرے الفاظ میں سماج وادی پارٹی کو کہا ہے کہ اگر بی ایس پی یوپی میں کامیاب ہوگئی تو تمام غنڈے اور راہزن جو موجودہ حکومت کی سرپرستی میں پھل پھول رہے ہیں انہیں جیل کی سلاخوں میں پہنچا کر ہی دم لیں گے۔
ہندوستان میں ہمیشہ کسی نہ کسی علاقہ میں الیکشن کے سرگرمیاں جاری رہتی ہیں لیکن کچھ علاقوں کی اپنی اہمیت ہے۔ جن میں ہندوستان کا سب سے کثیر آبادی والا علاقہ اتر پردیش بھی ہے، سیاسی پارٹیوں کیلئے ہندوستان اگر گنگا ہے تو یوپی گنگوتری ہے۔یوپی میں کامیابی حاصل کرنے کا مطلب ہوتا ہے ہندوستان کی سیاست میں اہم حصہ دار ہوجانا۔ مرکز ی حکومت کی تشکیل میں اس ریاست کا اہم رول ہوتا ہے جہاں سے 80 ارکان لوک سبھا کا انتخاب عمل میں آتا ہے جب کہ اترپردیش اسمبلی میں ارکان کی تعداد 403 ہے۔ اب جبکہ اس ریاست میں اسمبلی انتخابات کا بگل بج چکا ہے ۔ ریاست میں برسراقتدارسماج وادی پارٹی ان انتخابات میں 2012 کے اسمبلی انتخابات کا اعادہ کرنے کی خاطر ابھی سے انتخابی تیاریاں شروع کرچکی ہے۔ 2012 کے اسمبلی انتخابات میں اقتدار سے محروم ہونے والی مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی بھی اس مرتبہ کسی قسم کی کوتاہی برتنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے اس کے لیڈران فرقہ پرستی کی سیاست پریقین رکھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے ہندوؤں کے پسماندہ طبقات کے ذریعے متحدہ ووٹ حاصل کرنے کے منصوبوں کو حقیقی شکل دینے کا آغاز کردیا ہے۔ آدتیہ، ساکشی مہاراج اور بدنام زمانہ منہ پھٹ سادھوی پراچی کی دشنام طرازیاں اسی سلسلے کی کڑی ہیں تاکہ ہندو متحد ہوکر یوپی الیکشن میں اہم کردار ادا کریں۔یہ بیانات کوئی اتفاقی نہیں ہیں بلکہ منصوبہ بندطریقے سے سامنے آرہے ہیں جوبی جے پی کی فرقہ پرستی پرمبنی سیاست کااہم حصہ ہیں۔کیونکہ اگربی جے پی سے اس حکمت عملی کوہٹادیاجائے تواس کے پاس الیکشن لڑنے کااورکوئی سہاراہے نہیں۔مہنگائی پرعوام پریشان ہے ،بدعنوانی کاحال بھی سب نے دیکھ ہی لیا۔لوک سبھاالیکشن کی طرح ان مدعوں پرلالی پاپ دیناآسان نہیں ہوگا،اس لئے فرقہ پرستی پرہی بی جے پی الیکشن لڑے گی ۔رام مندرپراس کے لیڈروں کے متضادبیانات بھی اسی کی دلیل ہیں۔بی جے پی اعلیٰ قیادت اور آر ایس ایس رہنمائوں کو یقین ہے کہ ہماری پارٹی اپنے مذہبی اور فرقہ پرست ایجنڈہ کی بنیاد پر نہ صرف ہندو ووٹروں کی تائید اپنے حق میں کرے گی بلکہ مختلف جماعتوں کو انتخابی میدان میں اتار کر ریاست کے مسلم رائے دہندوں کے ووٹ بھی تقسیم کردے گی۔اصل منصوبہ مسلم ووٹوں کوغیرموثربناناہے جیساکہ آسام میں اس کایہ نسخہ کام آیا۔اس کا یہی منصوبہ ہے کہ2014 کے پارلیمانی انتخابات کی طرح مسلم ووٹوں کو کانگریس ، سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی میں تقسیم کردیاجائے۔اور اس بار تو کئی پارٹیاں ہیں جو مسلمانوں کے بیس فیصد ووٹ پر نظر ٹکائے ہوئے ہے ۔ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اگر آپس میں متحدہ محاذ بناکر بی ایس پی کے ساتھ الیکشن لڑیں تو نتیجہ بہتر آنے کی اُمید ہے ۔ نہیں آسام جیسا حشر ہونا یقینی ہے۔مسلم نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیکولرپارٹیوں کے ساتھ گفت وشنیدکریں،مہاگٹھ بندھن یابی ایس پی کے ساتھ مسلم مسائل پربات کرکے سیاسی حصہ داری کامطالبہ کریں،پھرمضبوط حکمت عملی کے ساتھ ایک مضبوط متبادل اتحادسامنے لائیں۔اب جبکہ الیکشن قریب ہے اور موجودہ سماج وادی پارٹی اپنی میعاد کو مکمل کرنے کے کگار پر ہے، تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے انتخابی منشور کو طے کرلیا ہے۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کا کہنا ہے کہ ہم دو تہائی اکثریت حاصل کرکے یوپی میں حکومت بنائیں گے۔ مایاوتی نے بھی دوبارہ اقتدار کے حصول کیلئے اپنا سارا دم خم لگا رکھا ہے۔ اور دھمکی بھرے الفاظ میں سماج وادی پارٹی کو کہا ہے کہ اگر بی ایس پی یوپی میں کامیاب ہوگئی تو تمام غنڈے اور راہزن جو موجودہ حکومت کی سرپرستی میں پھل پھول رہے ہیں انہیں جیل کی سلاخوں میں پہنچا کر ہی دم لیں گے۔ ادھر ہندوستان کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس نے پرشانت کشور کی خدمت حاصل کی ہے تاکہ وہ کانگریس کی ڈوبتی نیا کو پار لگا سکے۔ لیکن یوپی میں کانگریس کا حکومت بنالیناکسی خواب سے کم نہیں ہے اس کی ایک ہی صورت ہے کہ بہار طرز پر اتحاد قائم کرے اور اپنی اَنا کو توڑتے ہوئے دلتوں اور مسلمانوں کی بھلائی کے لئے بی جے پی کو روکنے کی خاطر ایم آئی ایم اور بی ایس پی و دیگر مسلم پارٹیوں کو باہم جوڑ کر عظیم اتحاد کی بنیاد ڈالیں اس کے خاطر خواہ نتائج مرتب ہوں گے جس کا اندازہ کانگریس بہار میں لگا چکی ہے۔ سب سے بڑی پارٹی ہونے کے ناطے یہ کانگریس کا فرض ہے کہ وہ موجودہ مرکز ی حکومت اور ریاست یوپی کے بدنام حکومت جس نے مظفر نگر جیسا عظیم سانحہ مسلمانوں کو تحفے میں دیا ۔ اور جن کے عزائم میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے ہٹلر کے ساتھ اتحاد ممکن ہے انہیں روکنے کیلئے چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کا سہارا لے کر بی ایس پی اور ایم آئی ایم کو ہمنوا بنا کر میدان میں کودے تاکہ یوپی سے فرقہ پرستی کا زور ٹوٹے اور آر ایس ایس کے عزائم نیست ونابود ہوں۔ یوپی الیکشن میں مہاراشٹر اور بہار میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کو متعارف کرانے والے ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی بھی دو دو ہاتھ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں، میدان میں کئی ایک کھلاڑی ہو تو جیت صرف ایک ہی کے حصہ میں آتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اکھلیش اپنی گدی بچالیجاتے ہیں یا پھر کسی اور کی گود میں ڈال کر چل دیں گے۔ سماج وادی پارٹی کا اقتدار میں لوٹنا مشکل نظر آتا ہے کیونکہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ہے جو ابھی بھی مظفرنگر کی چیخ و پکار کو نہیں بھول سکا ہے، اخلاق کے بے رحمانہ قتل کے خون کی سرخی ان کی نظر میں ہے ، ڈی ایس پی ضیاء الحق کی چیخیں اب بھی سنائی دے رہی ہیں اور سماج وادی پارٹی کے سپریمو ملائم سنگھ کے حالیہ بیانات اور امر سنگھ کی گھر واپسی سے بھی لوگ بددل ہوگئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ملائم سنگھ کی بازی گری بتاتی ہے کہ وہ بھی ہندوووٹ بینک کی سیاست کررہے ہیں۔سماج وادی پارٹی کے پالے سے اگر مسلم ووٹ کھسک گیا تو سماج وادی پارٹی کا اقتدار سے جانا تقریباًطے ہے جس نظریہ کی ملائم سنگھ حمایت کرنے لگے ہیں اس پر بی جے پی پہلے ہی سے کنڈلی مار کر بیٹھی ہے ۔ یہ بی جے پی کا وہ خاص ووٹ بینک ہے جو کسی بھی حال میں منتشر ہونے والا نہیں ہے اور ملائم سنگھ کا حال دھوبی کے کتے کا سا ہوجائے گا جو نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔مایاوتی اگر اپنے دلت ووٹ کو منتشر ہونے سے بچالے اور 2014 کے لوک سبھا الیکشن والی غلطی کو نہ دہرائے تو بہت ممکن ہے کہ ایک مرتبہ پھر مایاوتی کے سر پر یوپی کا کانٹوں بھرا تاج سجا دیا جائے گا جہاں تک معاملہ بی جے پی کا ہے توایک مخصوص طبقہ جو ہرحال میں اسے ووٹ دیگا چاہے نتیجہ بی جے پی کے مطابق ہو یا اس کے خلاف، یہ طبقہ بی جے پی سے الگ ہونے والا نہیں ہے، بی جے پی کیلئے یوپی الیکشن جیتنا بہت مشکل نہیں ہے، اسلئے کہ اس کا اپنا ووٹ بینک محفوظ ہے اب اسے صرف اتنا کرنا ہے کہ 2014 کے لوک سبھا الیکشن کی طرح اس بار بھی سیکولر ووٹوں کو تقسیم کرادے، اگر سیکولر ووٹ تقسیم ہوئے تو بی جے پی کا اقتدار میں آنا طے ہے، بہار میں بی جے پی کو روکنے کیلئے عظیم اتحاد کی تشکیل کی گئی جس کی بنا پر سیکولر ووٹ بہت کم تعداد میں منتشر ہوسکے، لیکن یوپی میں ایسا کوئی اتحاد نہیں ہے، تمام سیکولر پارٹیاں اپنا الگ محاذ قائم کرنے پر تلی ہیں۔آپ کوبتادیں کہ اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی تقریباََ20 فیصد ہے اور مسلم رائے دہندگان ریاست کے 403 اسمبلی حلقوں میں سے تقریباََ 300 حلقوں میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اترپردیش کے اسمبلی حلقوں میں مسلمانوں کے طاقتورموقف کا اندازہ موجودہ اسمبلی میں مسلم ارکان کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایوان اسمبلی میں مسلم ارکان کی تعداد64ہے۔ اگر مسلمان سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہوئے دانشمندی کا مظاہرہ کرکے اس الیکشن میں فرقہ پرستوں کو روکنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ ہندوستانی جمہوریت کے حق میں بہتر ہوگا ۔ نہیں تو آر ایس ایس کی سیاسی ونگ بی جے پی نے اگر یوپی فتح کرلی تو خون کی ہولیاں کھیلنے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔راجیہ سبھامیں بھی بی جے پی کوتعدادبڑھانے میں آسانی ہوگی۔راجیہ سبھامیں اقلیت میں ہونے کی وجہ سے اس کے ہاتھ پیرکچھ حدتک بندھے ہوئے ہیں۔ اسی مسلم اکثریتی ریاست سے وہ رام مندر کے بہانہ اپنے عزائم کی طرف مزیدقوت کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 77669 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.