دو سال ہو چکے ابھی تک شہدائے ماڈل ٹاؤن کے
ورثا ء کو انصاف نہیں ملا ۔پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے کارکن
شہدا سے اظہار یک جہتی اور حصول انصاف کے لیے 17 جون 2016 ء کو مال روڈ پر
احتجاج کر رہے ہیں ۔ جس سے سیاست میں گرما گرمی آچکی ہے۔منہاج القرآن اور
عوامی تحریک کے ہزاروں کارکن اس دن ایک نیا نعرہ لے کر اپنا احتجاج ریکارڈ
کروائیں گے ۔ 17 جون ، 14 خون ،کہاں ہے قانون ؟۔دوسری طرف حکومتی صفوں میں
بے چینی پائی جاتی ہے ۔اس دھرنا نما احتجاج میں شرکت کے لیے عوامی تحریک نے
عمران خان، سراج الحق، راجہ ناصر عبا س، صاحبزادہ حامد رضاو دیگرتمام
جماعتوں کے رہنماؤں کوماسوائے فضل الرحمن اور ن لیگ کے دعوت دے دی ہے ۔
بے شک احتجاج کرنا حق ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احتجاج کوئی کرتا ہی
کیوں ہے ۔اسے احتجاج کرنے پر مجبور کیوں کیا گیا ۔حیرت اس بات پر ہے کہ اس
اہم ترین سانحہ کو دیگر بہت سے سانحات کی طرح داخل دفتر کرنے کی کوشش کی جا
رہی ہے ۔لیکن عوامی تحریک نے اعلان کیا ہے ہم انصاف کے لیے ہر دروازے پر
دستک دیں گے ۔ہر حد تک جائیں گے ۔منہاج القرآن کی طرف سے مزید کہا گیا ہے
کہ ہم پرامن لوگ ہیں، امید ہے حکومت رکاوٹ نہیں بنے گی۔ اگر رکاوٹ بنی تو
اس کے ذمہ دار وزیراعظم، وزیرداخلہ، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر قانون، آئی جی
پنجاب ہونگے ۔
دوسال قبل 17جون 2014 کے دن (تحریک منہاج القرآن ،منہاج القرآن انٹرنیشنل)
اسلامی تجدید و احیاء کی تحریک کا نام ہے جس کا آغاز ڈاکٹر محمد طاہر
القادری کی زیرِ قیادت 17 اکتوبر 1980 ء کو لاہور میں کیا گیا، اس کے بعد
سیاسی جماعت عوامی تحریک کا قیام عمل میں آیا )منہاج القرآن سیکرٹریٹ ماڈل
ٹاؤن میں پنجاب پولیس نے قتل وغارت گری اور بربریت وتشدّد کی بدترین مثال
پیش کرتے ہوئے 14 معصوم اور بے گناہ شہریوں کو شہید اور 90 سے زائد کو زخمی
کر دیا گیاتھا ۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کوبھی براہِ راست
گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے گرد سیکیورٹی بیریئرز چار سال قبل ہائی کورٹ کے
حکم سے ماڈل ٹاؤن پولیس کی نگرانی میں لگائے گئے تھے ۔
آدھی رات اِدھر تھی آدھی اُدھر تھی جب بارہ تھانوں کی پولیس جن کی تعداد
تین ہزار بتائی جاتی ہے ،گلو بٹ جیسے لوگوں کی رہنمائی میں یہ بیریئر ز
ہٹانے ماڈل ٹاؤن جا پہنچی ۔منہاج القرآن کے وہاں موجود ذمہ داران کی جانب
سے پولیس افسران کو ماڈل ٹاؤن پولیس ہی کی جانب سے جاری کردہ وہ سرکلر
دکھایا گیا، جس میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر عدالتی احکامات کے
مطابق سیکورٹی انتظامات کرنے کا کہا گیا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ
بیریئرز فیصل ٹاؤن تھانے کے آفیسرز کی مشاورت اور رہنمائی میں ہی لگائے گئے
ہیں، مگر انہوں نے اس سرکلر کو ماننے سے انکار کر دیا۔
بارہ تھانوں کی پولیس کی مدد سے رات دو بجے سے جاری آپریشن کے دوران کل چار
حملے کئے گئے ۔ پہلے تین حملوں میں زہریلی آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا
گیا، جبکہ آخری حملے کے دوران ان پر سیدھے فائرنگ کی گئی۔ الیکٹرانک میڈیا
نے اس پورے واقعہ اور آپریشن کی مکمل کارروائی عوام تک پہنچاتے ہوئے پولیس
کی دہشت گردی کو بے نقاب کردیا۔اس دوران آنسو گیس کے ہزاروں شیل فائر کئے
گئے ، گلوبٹ نامی ایک شخص بھی گاڑیاں توڑتا رہا اور پولیس کی رہنمائی کرتا
رہا، پولیس نے ساٹھ ستر سال کے بزرگوں کے سروں پہ لاٹھیاں برسا کر انہیں
لہولہان کر دیا،گوشہ درودمیں مقیم گوشہ کی بے حرمتی کی گئی ۔
ان تمام معاملات کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسا کہ پولیس ان رکاوٹوں
کو ہٹانے نہیں بلکہ کسی اور منصوبے کے تحت یہ آپریشن کرنے آئی ہے ۔کیو نکہ
ایسی رکاوٹیں تولاہور میں ہی بہت سی جگہوں پر موجود ہیں ۔اب بھی موجود ہیں
۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو دو برس بیت گئے مگر واقعے کی وجہ بننے والے بیریئرز
آج بھی اسی جگہ موجود ہیں۔اس سانحہ کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں غیر
معمولی نوعیت کے اثرات مرتب ہوئے ۔
کارکنوں کو انصاف دلانے کا نعرہ لیے ڈاکٹر طاہر القادری وطن واپس آگئے
اوراسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیاگیا۔ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے اور
آرمی چیف کی مداخلت کے نتیجے میں ماڈل ٹاؤن واقعہ کی ایف آئی آر درج
ہوئی۔جس میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف،وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز
شریف،میاں حمزہ شہباز،وفاقی وزیر خواجہ آصف،وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق،وزیر
داخلہ چودھری نثار،وفاقی وزیر پرویز رشید،وفاقی وزیر پانی و بجلی عابد شیر
علی ، وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اﷲ،سابق سی سی پی او لاہور شفیق گجر،آئی
جی آپریشنز رانا عبدالجبار،ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز وغیرہ اورمتعدد
وزراء کو نامزد کیا گیا۔
حکومت نے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا لیکن رپورٹ نقص امن کے خدشے کے پیش نظر
منظر عام پرنہ آ سکی۔اب تک درجنوں ایسی رپورٹس منظر عام پر نہیں آئیں جن
میں کسی طاقت ور نے نا انصافی کی ہو ۔بتایا جاتا ہے کہ اس جوڈیشل کمیشن کی
رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کو اس سانحہ کا ملزم قرار دیا گیاہے،اس
رپورٹ کا کچھ حصہ دنیا نیوز کے اینکر پرسن کامران شاہد نے اپنے ایک پروگرام
میں ذکر بھی کیاتھا۔
اس واقعہ کے بعد یعنی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری،منہاج
القرآن اور عوامی تحریک کی پاکستانی سیاست میں اہمیت بڑھ گئی ہے۔
جہاں انکے بارے میں پہلے سیاسی مبصرین ’’عام سا مولوی‘‘جیسے القابات
استعمال کرتے تھے ۔غیر سیاسی چھوٹا سا خطرہ سمجھتے تھے ۔
آج عوامی تحریک کو ملک میں ایک خاص اہمیت حاصل ہو چکی ہے ۔کل تک جو باتیں
صرف ڈاکٹر طاہر القادری ہی کہہ رہے تھے وہی باتیں اب تحریک انصاف اور جماعت
اسلامی کے علاوہ درجنوں کالم نویس ،اینکر پرسن کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ملک
میں ظالمانہ نظام رائج ہے اس نظام کا خاتمہ کیے بناں قیام پاکستان کا مقصد
پورا نہیں ہو سکتا ۔دولت نے انتخابی نظام کو اپنے پنجوں میں اس قدر جکڑ
رکھا ہے کہ صرف انقلاب ہی اسے ختم کر سکتا ہے ۔کیونکہ یہاں ووٹ خریدے جاتے
ہیں ۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر دو سال سے انصاف نہیں
مل رہا ۔احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔آرمی چیف نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی
ایف آئی آر درج کرائی ،انصاف بھی دلائیں ،پر امن دھرنے کی ضمانت دیتا ہوں
،حکمرانوں نے روکا تو خود ذمہ دار ہونگے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لیے
آئندہ کا لائحہ عمل اسی دن دیا جائے گا ۔اس احتجاج نما دھرنے کی قیادت خود
ڈاکٹر طاہر القادری کریں گے ۔جو کہ 15 جون کو پاکستان واپس آرہے ہیں ۔ |